⬆️ گذشتہ سے پیوستہ ⬇️
"موجودہ بیویاں" ہی اپنے شوہروں کے حق میں "بہترین" (دوسری قسط)
✍نعیم الرحمن ملی ندوی
"موجودہ بیوی" ہی سب سے اچھی :
یہ بات ہر دو قسم کے جوڑوں میں پائی جاتی ہے، ہر جوڑے میں طبعی مناسبت، فطری ہم آہنگی اس قدر ہوتی ہے کہ نیک جوڑوں کے حق میں کہا جاسکتا ہے؛ یہ "مثالی جوڑا" ہے اور اس کے برعکس کو "جیسے کو تیسی یا جیسی کو تیسا" ___ بیوی ہر شوہر کیلئے زندگی کی بہترین ساتھی، مخلص معاون اور وفا کی پیکر ہوتی ہے؛ ہاں شکل و نوعیت الگ الگ ہوتی ہے، کسی کیلئے رب کا تحفہ، کسی کیلئے امتحان، تو کسی کیلئے تربیت کا سامان، لیکن شوہر کے حق میں وہی بہتر ہوتی ہے اس لئے کہ وہ خاوند کیلئے خداوندِ علیم و حکیم کا انتخاب ہوتی ہے۔ کراہت کے طبعی و خلقی اسباب ہوتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ خالق نے خیرِ کثیر بھی اِسی میں رکھی ہے، جس کی حکمت اسے ہی معلوم، اس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا؛
اور ان (عورتوں) کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو، اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔
ہر حال میں نبھانے کی اہلیت :
اسی کے ساتھ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ اللہ پاک؛ زوجین میں یہ اہلیت رکھے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے درمیان ہر قسم کے کشیدہ حالات میں نبھاہ کرتے ہوئے رشتہ ازدواج باقی رکھ سکتے ہیں، اسی لئے طلاق کو اللہ پاک کی طرف سے ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے؛ لیکن بندہ یا بندی عجلت پسندی میں مبتلا ہوکر صبر و ضبط کا دامن چھوڑ دیتے ہیں، نبی علیہ السلام کا واضح ارشادہے؛ " ما احل الله شيئا ابغض إليه من الطلاق. اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ کوئی چیز نہیں۔" نکاح کو باقی رکھنا پسندیدہ ہے تو پھر اس کی استطاعت نہ دینا قدرت و حکمتِ الٰہی سے بعید ہے۔ ارشاد باری ہے؛
ترجمہ: اگر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔ (النساء :35)
ذاتی تجربہ اور مشاہدہ :
اس سلسلے میں ذاتی تجربے کی حیثیت سے ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں؛ ایک ایسی پنچائیت میں بیٹھنے کا موقع ملا جس میں شوہر نے تند و تیز لہجے میں فیصلہ سنادیا کہ "میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں گا، بہت ہوگیا ہے، مجھے اب رکھنا نہیں ہے۔" راقم الحروف نے اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ معاملہ "جیسے کو تیسی" کا ہے، (دوسری بھی لائے تو غالب گمان یہی تھا کہ وہ بھی پہلی سے مختلف نہیں ہوگی؛) اُس وقت سمجھاتے ہوئے درمیان میں ایک بات کہی کہ __ "آپ شوہر ہیں، طلاق کا اختیار رکھتے ہیں آپ کا فیصلہ سر آنکھوں پر، آپ اپنی بیوی کو طلاق دیں گے اور آئندہ دوسرا نکاح کریں گے، آپ اس امید پر ایسا اقدام کر رہے ہیں کہ آپ کو دوسری بیوی موجودہ بیوی جیسی نہیں ملے گی بلکہ اچھی ملے گی، لیکن کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کی امید پوری ہوگی؟ کیا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ خلاف امید دوسری موجودہ سے زیادہ بری ہو؟ تب کیا کریں گے آپ؟ کیا اس کو بھی طلاق دے دیں گے؟ اگر ہاں تو اس طرح یہ سلسلۂ طلاق و نکاح چلتا رہے گا؛ اس سے بہتر صورت یہی ہے کہ آپ اسی بیوی کو نبھانے کی کوشش کریں، کچھ آپ سمجھ داری سے کام لے لیں کچھ وہ سمجھداری سے کام لے لے، اس طرح زندگی کی گاڑی آگے چل سکتی ہے۔
ہے اس کی ضد تو چلو خود بدل کے دیکھتے ہیں
ہم اس کی سوچ کے سانچے میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
الحمدللہ یہ بات شوہر کی سمجھ میں آگئی اور آج وہ جوڑا صاحبِ اولاد ہوکر اچھی ازدواجی زندگی گزار رہا ہے۔
نباہ کی صورت :
یہ بات صاف ہے کہ اگر زوجین سمجھداری سے کام لیں اور اپنے کچھ حقوق ایک دوسرے سے نظر انداز کرلیں یا باقاعدہ کہہ سن کر کم کروالیں تو یہ بھی نکاح باقی رکھنے کی ایک بہتر صورت ہے۔ ازواج مطہراتؓ اور نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی حیات طیبہ میں بھی اس قسم کی ایک مثال ہمیں ملتی ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے زوجۂ مطہرہ حضرت سودہ بنت زمعہؓ کو طلاق دینے کا ارادہ فرمایا، حضرت سودہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ مجھ کو اپنی زوجیت میں رہنے دیجئے، میری تمنا یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی مجھے آپ کی ازواج میں اٹھائیں اور چونکہ میں بوڑھی ہوگئی ہوں اس لئے اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کئے دیتی ہوں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منظور فرمایا۔ ___ ان زوجۂ مطہرہ نے اپنے حقوق کم کرواکے نبی علیہ السلام سے اپنی زوجیت کو باقی رکھا۔
قرآن کریم سے بھی یہ ہدایت ملتی ہے کہ اگر کسی سبب سے نباہ مشکل ہو، حقوق کماحقہ ادا نہ ہوپارہے ہوں تو کچھ حقوق پر سمجھوتہ کرکے نکاح کو باقی رکھیں، معاملہ بالکل چھوڑ چھڑاؤ پر نہ لے آئیں۔ اللہ پاک نے اسی بات کا حکم دیا ہے، ارشاد ہے؛
ترجمہ: اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بیزاری کا اندیشہ ہو تو ان میاں بیوی کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ آپس کے اتفاق سے کسی قسم کی صلح کرلیں۔ اور صلح کرلینا بہتر ہے اور انسانوں کے دل میں (کچھ نہ کچھ) طمع کا مادہ تو رکھ ہی دیا گیا ہے۔ (1) اور اگر احسان اور تقوی سے کام لو تو جو کچھ تم کرو گے اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (النساء: 128)
بعض اوقات کسی شوہر کا اپنی بیوی سے دل نہیں ملتا اور وہ اس سے بےرخی اختیار کرکے اسے طلاق دینا چاہتا ہے، اس صورت میں اگر بیوی طلاق پر راضی نہ ہو تو وہ اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہو کر شوہر سے صلح کرسکتی ہے، یعنی یہ کہہ سکتی ہے کہ میں اپنے فلاں حق کا مطالبہ نہیں کروں گی، مگر مجھے اپنے نکاح میں رہنے دو ، ایسی صورت میں شوہر کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ صلح پر آمادہ ہوجائے اور طلاق پر اصرار نہ کرے؛ کیونکہ مصالحت کا رویہ ہی بہتر ہے، نیز اگلے جملے میں احسان کی نصیحت فرما کر شوہر کو اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ دل نہ ملنے کی باوجود بیوی سے نباہ کرنے کی کوشش کرے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے حقوق ادا کرتا رہے تو اس کے لئے دنیا اور آخرت دونوں کی بہتری کا ذریعہ ہوگا۔
(1): مطلب بظاہر یہ ہے کہ ہر انسان کی طبیعت میں دنیوی فائدوں کا کچھ نہ کچھ لالچ ہوتا ہے، اس لئے اگر عورت اپنے کچھ دنیوی مفادات چھوڑ رہی ہے تو شوہر کو یہ سوچنا چاہیے کہ اسے طلاق کی صورت میں کوئی سخت تکلیف پیش آنے کا اندیشہ ہے، اسی لئے وہ اپنے یہ مفادات چھوڑنے پر آمادہ ہوئی ہے، ایسی صورت میں صلح کرلینا بہتر ہے، دوسری طرف بیوی کو یہ سوچنا چاہیے کہ شوہر نے کچھ دنیوی فائدوں کے لئے نکاح کیا تھا جو اس کو میری زوجیت میں حاصل نہیں ہورہے ہیں، لہذا وہ میری جگہ کسی اور سے نکاح کرکے وہ فائدے حاصل کرنا چاہتا ہے، اب میں اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہوکر اسے کچھ دوسرے فوائد مہیا کردوں تو وہ اس ارادے سے باز آسکتا ہے۔ (مفتی محمد تقی عثمانی)
_____________________
تیسری قسط میں ذیلی عناوین
⬇️➿⬇️
بیوی بلائے آسمانی نہیں بلکہ آسمان والے کی نشانی :
بیویاں دنیا کی حوریں :
دعوتِ فکر و عمل :
0 تبصرے