"موجودہ بیویاں" ہی اپنے شوہروں کے حق میں "بہترین" (پہلی قسط)

#قرآن میں غور و فکر

"موجودہ بیویاں" ہی اپنے شوہروں کے حق میں "بہترین" (پہلی قسط)
✍نعیم الرحمن ملی ندوی

کسی نے کیا خوب کہا ہے ؂
یوں اگر دیکھے تو ہر ذرہ کتابِ پند ہے
    ایک طرف صانع حکیم کا کام ہے جو زمین، آسمان اور ساری کائنات میں بکھرا ہوا ہے تو دوسری طرف اس کا کلام ہے جو اپنے اندر کائنات جیسی وسیع حکمت اور بصیرت رکھتا ہے۔ ایک طرف اس کا ورک (Work) ہے تو دوسری طرف اس کا ورڈ (Word) ہے، دونوں میں حد درجہ توافق ہے اور ایک دوسرے کے لئے تائید و تصدیق کا بہترین سامان بھی ہے۔ 
        جس طرح زندگی کے ہر شعبے میں حکیم کاتبِ تقدیر کی حکمت جلوہ گر نظر آتی ہے، اسی طرح انتخابِ زوجین میں بھی یہ بات بہت جَلی دکھائی دیتی ہے، اس موضوع پر درج ذیل آیت رہنمائی کرتی ہے۔ 

اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ ۚ وَالطَّيِّبٰتُ للطَّيِّبِيْنَ وَالطَّيِّبُوْنَ للطَّيِّبٰتِ ۚ اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ. ۞ (سورۃ النور: 26)
ترجمہ: خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے ہوں گی اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لئے اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے ہوں گی اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے یہ لوگ بَری ہوں گے اُن باتوں سے جو یہ کہتے ہیں۔ ان کے لئے مغفرت اور باعزت روزی ہے۔
      اس آیت میں ایک اصولی بات سمجھائی گئی ہے کہ برے مزاج لوگوں کا جوڑ ایسوں ہی سے لگتا ہے، اور پاکیزہ لوگ پاکیزہ لوگوں ہی سے طبعی مناسبت رکھتے ہیں، ہر ایک اپنی اپنی رغبت کے مطابق اپنا جوڑ تلاش کرتا ہے اور قدرة یا تقدیراً اس کو وہی مل جاتا ہے۔
     اس آیت کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ بری باتیں برے لوگوں کے لیے ہیں (یعنی وہ ان کے مستحق ہیں) اور بھلی باتیں بھلے لوگوں کے لیے ہیں اور بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ باتیں ان پر چسپاں ہوں جو بدگو لوگ ان کے بارے میں کہتے ہیں۔
      آیت کریمہ جس واقعہ کے پس منظر میں ہے اُس اعتبار سے واضح اشارہ یہ ہے کہ اس کائنات میں نبی کریم ﷺ سے زیادہ پاکباز شخصیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ اس اصول کے تحت یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی زوجیت میں کسی ایسی خاتون کو لائیں جو (معاذ اللہ) پاکباز نہ ہو، اگر اسی بات پر غور کرلیا جائے تو ازواجِ مطہرات پر لگائے جانے والے ہر قسم کے تہمت کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔
_____________________ 

جوڑے مقدر کرنے والا حکیم بھی ہے :
        ہم سماج و معاشرے میں یہ بات سنتے رہتے ہیں کہ "جوڑے مقدر سے بنتے ہیں" 
اسی کے ساتھ شادی کے بعد بعض مرتبہ یہ بھی سنا جاتا ہے کہ "میری شادی فلاں سے ہوجاتی تو اچھا تھا یا اہلِ خانہ کہتے ہیں فلاں کی شادی فلاں سے کردیتے تو بہتر ہوتا!"
      اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کاتبِ تقدیر ہی میاں بیوی کے جوڑے مقدر فرماتا ہے اور اس طرح مقدر فرماتا ہے کہ رشتوں کی تلاش میں انسانی تگ و دو میں مانع نہیں ہوتا اور انسان کو پسند، ناپسند کا پورا اختیار ہوتا ہے، بالکل اُسی طرح کہ اُس رزاق نے ہمارا رزق لکھ دیا ہے، لیکن اُسے حاصل کرنے کیلئے ہمیں زمین پر تگ ودو کرنی پڑتی ہے ؛ یہ بات اس کی بالاتر حکمت کا وہ مقام ہے جہاں فہمِ انسانی نارسائی کا اقرار کرتی ہے۔ 
      لیکن ہم بس اتنا ہی کہہ سن کر گزر جاتے ہیں؛ اگر مزید اتنی بات اور سوچیں کہ کاتبِ تقدیر حکیم و علیم بھی ہے اور اس نے اپنی حکمت اور مہر و مودت بھی تقدیرِ زوجیت میں شامل فرمایا ہے تو فکر و رویے دونوں میں زبردست تبدیلی آسکتی ہے۔ 
      اپنے ایماندار بندوں کے انتخابِ زوجین میں بطور خاص ان صفاتِ الہیہ کا بہترین مظاہرہ ہوتا ہے اور مومن بندہ جس درجہ مقرب ہو اس درجے اس کی تقدیر میں ان صفات کی آمیزش بڑھتی جاتی ہے حتی کہ نبیوں کی تقدیرِ زوجین میں تو اس کا کمال نظر آتا ہے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا :
      ہم اس موضوع پر نبی آخر الزماں محمد عربی ﷺ کی حیاتِ طیبہ کی پہلی زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ازدواجی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں، کہ یہ زوجہ نبی ﷺ کی کیسی ضرورت تھیں، کس قدر طبعی مناسبت رکھنے والی، کیسی صفات و اخلاق کی مالک تھیں اور نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے اُس وقت کے تقاضوں کو کس درجہ نبھانے، پورا کرنے والی تھیں؛ 
___  نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے آپؓ سے اس وقت نکاح فرمایا جبکہ نبی ﷺ سال کی عمر مبارک 25 سال اور زوجۂ مطہرہ کی عمر مبارک 40 سال ہے، نبی ﷺ کو نبوت و رسالت ملنے کا وقت 40 سالہ عمر کا ہے، اس وقت تک زوجۂ مطہرہ کی عمر 55 سال ہونی ہے، اس عرصے میں آپؐ پر نبوت کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اور آپؐ خلوت گزینی اور تنہائی کو پسند فرماتے ہیں، فطری طور پر معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں اور گھریلو زندگی کی طرف سے کچھ بے اعتنائی بھی، لیکن یہ زوجۂ مطہرہ ان تمام تبدیلی میں اپنے بلند اخلاق شوہر سے نہ صرف راضی ہیں بلکہ گھریلو ضروریات، اہل خانہ کی نگہداشت بخوشی فرما رہی ہیں، 50 سال سے آگے اس ناتوانی کی عمر میں اپنے شوہر نامدار ﷺ کیلئے ہر اعتبار سے فکرمند اور راحت رسانی میں جُٹی ہوئی ہیں، نبی ﷺ خلوت پسندی کے جس زمانہ میں غارِ حرا میں زیادہ وقت دے رہے ہیں، اس عرصے میں ہفتے دو ہفتے کی کھانے کی ضروری چیزوں کا توشہ تیار کرتی ہیں اور اپنے گھر سے غارِ حرا کا سفر کرتے ہوئے وہاں پہنچ کر اپنے شوہر کی خدمت میں پیش کرتی رہتی ہیں، اس ڈھلتی عمر کی کمزوری میں خود پہاڑ پر چڑھ کر بھی نبی علیہ السلام کی خدمت میں چیزیں پہنچا دیتی ہیں، __ وحی اقرأ باسم ربک ... __ کا آغاز ہوتا ہے اور شوہر نامدار ڈرے سہمے اس انہونی کو زوجۂ مطہرہ سے بیان فرماتے ہیں تو آپؓ بلند آہنگی اور اونچے الفاظ میں تسلی دیتی ہیں اور ایسی باتوں کا ذکر کرتی ہیں جو نبی کریم ﷺ کے بہترین اخلاق کا جامع مرقع پیش کرتے ہیں ؛ 
”کَلَّا وَاللّٰہِ لَایُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلیٰ نَوَائِبِ الْحَقِّ. 
خدا کی قسم ہرگز نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تمہاری جان کو مصیبت میں ڈال کر تم کو رُسوا کرے (آپ کی صفات بڑی اچھی ہیں ایسی صفات والا رُسوا نہیں کیا جاتا) آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور مہمان نوازی آپ کی خاص صفت ہے، آپ بے بس وبے کس آدمی کا خرچ برداشت کرتے ہیں، عاجز و محتاج کی مدد کرتے ہیں اور مصائب کے وقت حق کی، حق والوں کی مدد کرتے ہیں۔"
      اِس کے بعد خلوص و وفا کی پیکر حضرت خدیجہؓ آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاتی ہیں اور اُن سے کہتی ہیں کہ اے بھائی! سنو یہ کیا کہتے ہیں؟ ورقہ بن نوفل بوڑھے آدمی تھے، بینائی جاتی رہی تھی عیسائیت اختیار کیے ہوئے تھے، اُنہوں نے حضورِ اَقدس ﷺ سے دریافت کیا کہ آپ نے کیا دیکھا ہے؟ آپ ﷺ نے اُن کو پوری کیفیت سے آگاہ فرمایا تو اُنہوں نے کہا
ھٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِیْ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلیٰ مُوْسیٰ یَا لَیْتَنِیْ فِیْھَا جَذَعاً یَالَیْتَنِیْ اَکُوْنُ حَیًّا اِذْ یُخْرِجْکَ قَوْمُکَ. (بخاری شریف ص ۳)
"یہ تو وہی راز دار فرشتہ جبرئیل ہے جسے اللہ نے موسیؑ پر نازل کیا تھا۔ کاش اُس وقت میں نوجوان ہوتا (جب آپ ﷺ کی دعوتِ دین کا ظہور ہوگا) کاش میں اُس وقت تک زندہ رہتا جب آپؐ  کی قوم آپ کو نکال دے گی۔"

      حضرت خدیجہؓ 10 نبوی، ماہ رمضان، مکہ میں وفات پائیں، اُس وقت اُن کی عمر 65 سال تھی۔ حضور ﷺ کی خدمت و زوجیت میں کم و بیش 25 سال رہیں، 15 سال آپ کے اعلانِ نبوت سے پہلے اور 10 برس اعلانِ نبوت ہو جانے کے بعد، دس سال آپؐ نے ان کی زوجیت میں تبلیغ کا فرض انجام دیا، جب آپ ﷺ گھر میں تشریف لاتے تو وہ آپ کی ہمت مضبوط اور رنج ہلکا کر دیتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصدیق بھی کرتیں اور لوگوں کی مخالفت کو آپ ﷺ کے سامنے بے جان بنا کر بیان کرتی تھیں۔”
      سیرت ابنِ ہشام میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے متعلق لکھا ہے؛ وَکَانَتْ لَہ وَزِیْر صِدْق عَلَی الْاِسْلَامِ. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اِسلام کے حق میں آنحضرت ﷺ کے لیے مخلص وزیر کی حیثیت رکھتی تھیں۔
_____________________ 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا :
      آپ ﷺ کی دوسری زوجۂ مطہرہ ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں 9 سال رہیں، اللہ پاک نے آپؐ کیلئے ان کا انتخاب خاص اہتمام سے فرمایا تھا، خود فرماتی ہیں کہ "حضرت جبرئیل علیہ السلام ریشم کے سبز کپڑے میں اُن کی تصویر لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! یہ دنیا و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔"
      نبی کریم ﷺ جس طرح عوامی زندگی میں ھادی و رہبر ہیں، نجی زندگی اور گھریلو معاشرت میں بھی آپ ہی رہنمائی فرمانے والے ہیں، اس تقاضے کو پورا کرنے کیلئے کسی نوعمر، قوی الحافظہ، صاف دل و دماغ کی حامل شریکِ حیات کی ضرورت تھیں اور ان تمام اوصاف پر پورا اترنے والی خاتون ام المؤمنين حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں۔
       آپ رضی اللہ عنہا؛ رسول اللہ ﷺ کی نجی زندگی اور گھریلو معاشرتی رہنمائی کو محفوظ فرماکر امت تک ہوبہو پہنچانے والی ہیں اور اگر آپؓ نہ ہوتیں تو ہدایت و رہنمائی کے باب میں یقینا یہ خلا رہ جاتا۔ اسی کے ساتھ علم حدیث میں بھی انتہائی بلند مقام رکھنے والی ہیں۔
       اس نقطۂ نظر سے اقوالِ صحابہؓ کی روشنی میں ام المؤمنين حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیاتِ طیبہ کا مختصر سا جائزہ پیش ہے؛
      حضرت عروہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں "میں نے کسی ایک کو بھی معانی قرآن، احکام حلال و حرام، اشعار عرب اور علم الانساب میں حضرت عائشہ ؓ سے بڑھ کر نہیں پایا۔" حضرت عائشہ ؓ کی خصوصیت تھی کہ جب کوئی نہایت مشکل و پیچیدہ مسئلہ صحابہؓ میں آن پڑتا تھا تو وہ آپ ہی کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے اور آپ ؓ کے پاس اس سے متعلق علم ضرور موجود ہوتا تھا، حضرت عائشہؓ کو علمی حیثیت سے عورتوں میں سب سے بڑی فقیہہ اور صاحب علم ہونے کی بنا پر چند صحابہ کرامؓ پر بھی فوقیت حاصل تھی، فتوے دیا کرتی تھیں اور بے شمار احادیث ان سے مروی ہیں، خوش تقریر بھی تھیں۔
     مسروق تابعیؒ سے پوچھا گیا: کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرائض میں ماہر تھیں؟ فرمایا: ہاں! اُس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے مشائخ و اکابر صحابہ کرامؓ کو دیکھا کہ آپؓ سے فرائض کے مسائل پوچھا کرتے تھے۔
      علم الحدیث میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔
_____________________ 

یورپین بیوی فقط جنسی شریک :
       اگر نئی تہذیب کے بانی مبانی اہل یورپ کے ہاں بیوی کی حیثیت، عورت کے مقام پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے یہاں بیوی "مکمل شریکِ زندگی" سے ہٹ کر مرد کے لیے فقط "جنسی شریک یعنی سیکس پارٹنر" بن کر رہ گئی ہے، کپڑوں کی طرح عورت بدلنے والے یہ لوگ مکمل شریک زندگی کے مقام کو کیا سمجھ پائیں گے، اسلام ہی ہے جو خاتون خانہ کو ایسا بلند مقام دیتا ہے جس کی وہ صحیح حقدار بھی ہے۔
      مذکورہ بالا دونوں ازواج مطہرات کے مختصر سے جائزے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ پاک کس طرح نیک انسانوں کے جوڑوں کو __ ایک دوسرے کی کمی پوری کرنے والا، علمی، دعوتی کاموں میں معاون اور دینی امور میں مددگار __ مقدر فرماتے ہیں۔ اور یہ بات بھی بہت صاف ہوجاتی ہے کہ بیوی اسلامی تہذیب میں "مکمل شریک زندگی" ہے، ہر مرحلۂ حیات کی بہترین معاون و مددگار ہے، انگریزی کلچر کی وہ وائف (بیوی) نہیں ہے جسے بس "اونلی سیکس پارٹنر" ( فقط جنسی شراکت دار) کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ الحمدللہ علی نعمۃ الإسلام 
_____________________ 

اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں 
⬇️➿⬇️
شوہر کے حق میں "بیوی ہی سب سے اچھی" :
رشتہ ازدواج ہر حال میں نبھانے کی اہلیت :
اس بات کا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ :
بیوی بلائے آسمانی نہیں بلکہ آسمان والے کی نشانی :
دعوتِ فکر :


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے