اصلاح سے کوئی مستغنی نہیں


بسم اللہ الرحمن الرحیم

محترم ساتھیو ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بندہ حسیب الرحمن ندوی نے اپنے مرشد و مربی *قاری الطاف حسین صاحب* کو ایک خط لکھا اور اس میں دریافت کیا کہ اس وقت بیان و تقریر بہت ہورہا ہے اور دین کی محنت بھی پہلے کے مقابلے میں بہت ہورہی ہے ، لیکن وہ نتیجہ سامنے نہیں آرہا ہے جو آنا چاہیئے ، آنجناب نے بندے کے سوال پر جو باتیں تحریرا عنایت کی ہیں جس سے بندے کو بہت نفع ہوا ، خیال ہوا کہ دوسروں تک بھی اسے پہنچایا جائے، ان شاءاللہ نفع ہوگا۔
_____________________
جواب حضرت والا
عزیزم! سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کہنے والا اگر باعمل ہو تو باتیں اثر انداز ہوتی ہیں، تفسیرِ عزیزی میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ *"اگر امت کے علماء مستحبات پر عمل کرینگے تو امت سنتوں پر عمل کرینگی ، اور اگر علماء صرف سنتوں پر عمل کرینگے اور مستحبات کو ترک کردینگے تو امت فرائض تک محدود ہوجائینگی ، اور اگر علماء فرائض تک محدود ہوگئے تو امت گمراہ ہوجائینگی۔"* حسن بصریؒ فرماتے تھے "جو عالم زاھد نہیں ہوتا وہ اپنی قوم کیلئے عذاب ہوتا ہے۔ کسی نے حضرت شیخ حضرت عبدلقادر جیلانیؒ سے اِسکی وضاحت طلب کی کہ اسکا کیا مطلب ہے، حضرت جیلانیؒ نے فرمایا کہ " جو عالم زاھد نہ ہوگا بلکہ دنیا کی رغبت اور شہرت کی طلب اسکے دل میں ہوگی، اور پھر جب وہ لوگوں میں دین کی باتیں بیان کرے گا تو لوگوں پر اسکا اثر نہیں ہوگا اور لوگ عمل نہیں کرینگے، اور دین کا علم ہونے کے بعد جب لوگ عمل نہیں کریں گے تو اللہ تعالی کا عذاب نازل ہوگا۔ (بحوالہ :ملفوظاتِ حضرت جیلانیؒ)
مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہؒ فرماتے تھے کہ دنیا والوں نے انسانوں کے کانوں تک آواز پہنچانے کا آلہ ایجاد کردیا (یعنی لاؤڈاسپیکر ) لیکن دلوں تک آواز پہنچانے کا آلہ ایجاد نہیں کرسکے، البتہ سرکارِ دوعالم ﷺ نے اس آلے کو آج سے (1400) چودہ سو سال قبل ایجاد کردیا تھا ، اس آلے کا نام *اخلاص* ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ "ایک قاری صاحب تھے، اپنے شیخ کے پاس ملاقات کیلئے گئے خانقاہ جنگل میں تھی ، ایک شیر نے قاری صاحب کو دوڑایا، وہ دوڑے دوڑے خانقاہ کی طرف آئے ، شیخ نے دیکھا تو شیر کو ڈانٹ بھگایا ، قاری صاحب کے تعجب پر شیخ نے فرمایا کہ *قاری صاحب! آپ نے زبان درست کی ہے ، ہم نے دل درست کیا ہے،* جب دل درست ہوجاتا ہے تو جانوروں پر بھی باتوں کا اثر ہوتا ہے۔ اور فرمایا کہ ایک برزگ فرماتے تھے کہ " جب میرا گھوڑا میری بات نہیں مانتا تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ میرا اللہ مجھ سے ناراض ہے۔"
علامہ شعرانیؒ فرماتے تھے : "جس آدمی کے سکوت سے لوگوں کو نفع نہیں ملتا اس آدمی کے نطق سے بھی لوگوں کو نفع نہیں ہوتا۔" اور فرماتے تھے کہ "جو مقرر بیان کے دوران لوگوں کے چہروں کے تأثرات پر نظر رکھتا ہے وہ *ریا کار* ہے۔"
حضرت مفتی مظفر حسین صاحب کاندھلویؒ جب وعظ فرماتے تھے تو لوگوں کے قلوب بہت متاثر ہوجاتے تھے ، لوگوں کے پوچھنے پر آپ نے بتایا کہ " جب میں بیان کرتا ہوں، تو خود اپنے عمل کی بھی نیت کرلیتا ہوں کہ پہلے مَیں خود عمل کرونگا۔" حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوھیؒ کے صاحب زادے رُکن الدین جب دہلی سے علومِ ظاہرہ کی تکمیل کے بعد گنگوہ تشریف لائے تو حضرت شیخ نے اُنکی تربیت کیلئے اُنکو حکم دیا کہ کچھ وعظ فرمائے؛ صاحب زادے نے بہت عمدہ تقریر کی، لیکن بہت زیادہ اثر نہیں ہوا، کچھ دیر کے بعد حضرت شیخ تشریف لائے اور ایک بہت ہی بے ربط بات بیان فرمائی، کہ رُکن الدین کی والدہ نے بندہ کیلئے دودھ رکھا تھا، بلی پی گئی ، پورا مجمع زار و قطار رونے لگا، حضرت صاحبزادے کے تعجب پر فرمایا کہ بیٹا ! تم نے صرف ظاہری علم حاصل کیا ہے، ہم نے ظاہری علم کیساتھ باطنی علم (عشق) بھی حاصل کیا ہے۔
    مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہؒ کے وصال پر حضرت مولانا سید ابولحسن علی ندویؒ نے آپکی خانقاہ الہ آباد میں تعزیتی خطاب فرمایا تھا ،جو اِس عنوان سے شائع ہوا ہے، *"اصلاح سے کوئی بھی مستغنی نہیں ہے*" قابلِ مطالعہ ہے۔ اِس میں آپ نے ایک بزرگ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک برزگ تشریف فرما تھے انکے مُریدین اُنکی موجودگی میں بحث و مباحثہ کرنے لگے، کسی کے کہنے پر کہ حضرت یہ کیا ہورہا ہے؟ آپ کی موجودگی میں ایسی گستاخی؟! تو آپ نے اپنے پَیروں کی طرف اشارہ کیا، تو وہ صاحب سمجھ نہیں سکے ، تو آپ نے فرمایا رات میں پَیر میں دَرد تھا جسکی بناء پر بوقت تہجد اُٹھ نہیں سکا، اور معمولات پورے نہیں ہوسکے ، یہ اُسی کی نحوست ہے جو اس طرح ظاہر ہوئی۔
       حضرت شاہ اسمعیل صاحبؒ نے ایک مرتبہ دہلی کی جامع مسجد میں وعظ فرمایا، وعظ کے بعد دیکھا کہ ایک شخص بہت تیزی سے گھوڑے پر سوار ہوکر آرہا ہے، اور آکر اُس نے حضرت شاہ صاحب سے ہی دریافت کیا کہ  "شاہ اسمعیل کا وعظ ہونے والا تھا"؟ کہا : وہ ہوگیا، وہ بہت افسوس کرنے لگا (وہ شخص شاہ صاحب کو پہچانتا نہیں تھا) شاہ صاحب نے اُس سے کہا : بیٹھو؛ اور وہ پورا وعظ جو مجمع میں کیا تھا، پورا کا پورا اس ایک آدمی کو سنایا اور فرمایا کہ وہ بھی اللہ کے لئے تھا اور یہ بھی اللہ کیلئے ہے۔
      حضرت شاہ عطاءاللہ بخاریؒ بہت ہی کُہنہ مشق خطیب و مقرر تھے، لیکن پابندی سے اللہ والوں کی صحبت میں حاضری دیتے، اور کسب فیض کرتے تھے، اپنے آپ کو اللہ والوں سے مستغنی نہیں سمجھتے تھے، پنجاب میں ایک صاحبِ نسبت بزرگ تھے جو کہ اصطلاحی عالم بھی نہ تھے، لیکن مہینے میں ان سے ایک مرتبہ ملاقات کرتے، اور گھنٹہ دیڑھ گھنٹہ اُنکے ساتھ مراقب ہوتے تھے، مراقبے کے بعد فرماتے تھے کہ ایک مہینے کا خزانہ اِسٹاک ہوگیا۔
      ماضی قریب کے علماء میں ایک مایہ ناز عالم صاحبِ نسبت بزرگ خُطباء و مقررین کے صفِ اول کے خطیب علماء و صلحاء اور مشائخ کے مرجع اور عوام الناس میں بڑی مقبولیت کے حامل مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابولحسن علی ندویؒ نے بھی اپنے آپ کو کبھی بھی بزرگانِ دین سے مستغنی اور بے نیاز نہیں سمجھا، بلکہ بھوپال کے صاحبِ نسبت بزرگ مولانا محمد یعقوب مجددی ، مولانا شاہ وصی اللہ، اور مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی وغیرھم کی مجلسوں میں کشاں کشاں پوری طلب اور محبت کے ساتھ حاضر ہوتے تھے۔
       کانپور کے مدرسہ فیضِ عام میں شیخ الہندؒ وعظ فرما رہے تھے، یہ وہ زمانہ تھا جب کہ حکیم الامت حضرت مولانا تھانویؒ اُس مدرسے کے صدرالمدرسین تھے، دورانِ تقریر معقولات کی بات شروع ہوئی لیکن اچانک شیخ الہندؒ نے اپنی تقریر ختم کردی، دریافت کرنے پر فرمانے لگے جس وقت معقولات پر باتیں شروع ہوئی تو علمائے کانپور مجلس میں آتے ہوئے نظر آئے، تو نفس نے کہا: کہ آج علمائے کانپور بھی جان لیں گے کہ علماء دیوبند بھی معقولات کا علم رکھتے ہیں، اس وسوسے کی بناء پر آپ نے بیان ختم کردیا، کہ اب یہ بیان و وعظ اللہ کیلئے نہیں ہے۔
والسلام علیکم
(قاری) الطاف حسین عفی عنہ 




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے