اس خلا کو کون پُر کرے گا؟؟؟

اس خلا کو کون پُر کرے گا؟؟؟
ایک امامِ مسجد کی دردمندانہ گذارش
نعیم الرحمن ملی ندوی 

ہم ائمہ کرام اگر حقیقت پسندی سے اپنی اپنی مساجد کا جائزہ لیں تو؟؟؟  ۔۔۔۔۔۔۔

……  راقم الحروف سب سے پہلے اپنی مسجد کا جائزہ اور صورتحال بیان کرتا ہے وہ یہ کہ
     تبلیغی جماعت کے انتشار سے قبل مسجد کی دینی سرگرمیوں کے اعتبار سے یہ حالت تھی کہ تقریباً ہر ہفتہ ایک نہ ایک جماعت رہا کرتی تھی اور مہینے دو مہینے میں علاقے کی کسی مسجد سے قریبی مکان میں مستورات کی جماعت آیا کرتی تھی جس سے محلے کی خواتین میں دینی لائن سے بیداری پیدا کی جاتی اور مستورات کے اجتماعات ہوتے جس سے سماج اور معاشرے میں بڑی خیر وجود میں آتی لیکن انتشار کے بعد اب یہ حالت ہیکہ مہینہ دو مہینہ گزر جاتا ہے اور جماعتیں نظر نہیں آتی، مردوں کی جماعتوں کا یہ حال ہے تو مستورات اور خواتین کی جماعتوں کا کیا پوچھنا؟ ۔۔۔۔۔۔۔
📍📍📍📍
بلاشبہ اللہ پاک نے بانئ تبلیغ مولانا الیاسؒ کے ذریعے دعوت و تبلیغ کا جو کام کھڑا کیا ہے، واللہ اگر یہ کام نہ ہوتا تو ارتداد کی جو لہر چلی ہے اس میں سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد نہیں، یہ ارتدادی لہر لاکھوں کا ہندسہ پار کرچکی ہوتی اور یقینًا مولانا الیاسؒ، دینی مدارس و خانقاہ کی رہینِ منت ہیں اگر خدانخواستہ مدارس و خانقاہ نہ ہوتے تو یہ ارتداد کی لہر، اب تک سونامی لہر بن کر کروڑوں مسلمانوں کو اپنا لقمہء کفر و شرک بناچکی ہوتی۔ اعاذنا اللہ منہ
اللہ پاک ہمارے اسلاف کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور ملتِ اسلامیہ ہندیہ کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

لیکن سوال یہ ہیکہ اب یہ خلا کون پُر کرے گا؟
     ہمارا صاف صاف اعلان ہیکہ امامِ مسجد ہی اس خلا کو پُر کرسکیں گے۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف کوئی منصوبہ و تجویز پیش کرے یہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہیکہ اپنے معمولی سے عملی اصلاحی کاموں کی کارگذاری پیش کردے۔

     ہم نے مذکورہ بالا صورت حال کا جائزہ لیا اور بلا تفریق اہلِ امارت و شوری، مسجد وار جماعت کے ساتھیوں کے سامنے جائزہ رکھا انہوں نے بھی کھلے دل سے اس کا اعتراف کیا کہ واقعی بڑا خلا پیدا ہوا ہے اور کیسے بیان کریں کہ ہمیں انتشار کے بعد کیسی دقتیں پیش آرہی ہیں۔
      ہم نے مسجد وار جماعت کے ساتھیوں کے علاوہ مسجد کے سنجیدہ مصلیانِ کرام کو فکر دلانے کے ساتھ ساتھ خود غور و فکر جاری رکھا کہ کس طرح سماج اور معاشرے کا ہر فرد، مرد و عورت، بچے، بوڑھے، ادھیڑ عمر و نوجوان سبھی مسجد سے جڑ کر دینی تعلیم و تربیت حاصل کریں، اور اس سلسلہ میں اللہ پاک سے دعائیں بھی کرتے رہے، بفضل اللہ ذہن میں کچھ مفید باتیں آتی رہیں اور آخر میں واضح منصوبہ ذہن میں تشکیل پایا، جس سے محسوس ہوا کہ اگر ان شکلوں کو کچھ منظم کردیا جائے تو سماج کا ہر فرد مسجد سے استفادہ کرسکے گا اور عہدِ نبویﷺ اور عہدِ صحابہؓ میں مسجد کی جو مرکزیت تھی وہ کچھ زندہ ہوگی۔ ان شاءاللہ ____ جو کام جاری تھے پہلے انہیں منظم و مستحکم کرنے کی سعی کی اور کامیابی ملی، اور بہتر نتائج سامنے آئے۔

مسجد کی تین وقت کی تعلیم :
     مسجد میں نمازوں کے بعد دن بھر میں عوام الناس اور مصلیان کیلئے کچھ نہ کچھ دینی تعلیم کا عمل جاری رہتا ہے، انہیں مفید بنانے کیلئے قرآن پاک، حدیث مبارکہ کے دروس اور مسائل سے متعلق کتابی تعلیم کی ترتیب بنائی، چنانچہ فجر کے بعد مسائل کی تعلیم، عصر کے بعد فضائلِ اعمال و منتخب کی تعلیم، مغرب کے بعد شبینہ مکتب، عشاء کے بعد روزانہ دس سے بارہ منٹ کا درس قرآن «توضیح القرآن: مفتی تقی عثمانی» (ہفتہ واری درس قرآن میں آدھا پون گھنٹہ ہونے کے سبب اکثر لوگ کترا جاتے ہیں، ہم نے اسی وقت کو ہفتہ بھر میں تقسیم کردیا جس سے سامعین کی تعداد مزید دو چند ہوگئی، درس میں مصلیان کرام کے ساتھ ساتھ، تعلیم بالغاں کلاس کے نوجوان، اور مسجد وار جماعت کے ساتھی بھی شریک ہونے لگے۔) والحمدللہ علی ذلک

شبینہ مکتب :
      چھوٹے بچے اور آٹھویں، دسویں تک کے اسکول کے بچوں کو جو محلہ میں بیکار اِدھر اُدھر وقت گزارنے ہیں،  انہیں گھروں کا دورہ کرکے تشکیل کی اور مکتب سے جوڑا، بہتر تعلیمی نصاب ترتیب دینے کے ساتھ ہر جمعرات کو بسکٹ و شیرینی کا نظم کیا اور ہفتہ میں ایک دن ان معصوم طلباء کو انہیں کی آسان زبان میں نبیوں کے قصے، واقعات سنانے اور آخر میں «ہم نے کیا سیکھا؟ » کے طور پر عقیدہ و اخلاق کے متعلق بنیادی باتیں ذہن نشین کرانے کی کوششیں کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بچے مزید دوسرے بچوں کو مکتب سے جوڑنے کا سبب بنے اور تعداد چند مہینوں میں بیس پچیس سے بڑھکر چالیس پینتالیس ہوگئی اور ہمیں مزید ایک معلم کا انتظام اور ہفتہ واری دس روپیہ فیس کا نظام چلانا پڑا۔ والحمدللہ علی ذلک

چھوٹے بچے، بچیوں کا صبح و شام کا مکتب :
     اسی طرح دن میں ایک معلمہ خاتون مسجد کے اوپری ہال میں «مدرسہ میراث النبیﷺ کے توسط» سے کلاس چلاتی ہیں، جسے ہم نے آغازِ سال میں مسلسل اور درمیان میں گاہے بگاہے جمعہ میں اعلانات اور مصلیان کرام سے انفرادی ملاقاتوں میں اس کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے مستحکم کرنے کی کوششیں کیں۔

تعلیم بالغاں کلاس :
     نوجوانوں اور بڑی عمر والے حضرات کیلئے تعلیم بالغاں کلاس جاری کی اور الحمد للہ بیس سے پچیس افراد کلاس میں شرکت کرتے ہیں۔

علاقے کے نوجوانوں اور مصلیان کیلئے واٹسایپ گروپس :
     اس اعتبار سے بھی ہم نے کوششیں کی اور متعدد گروپس تشکیل دیئے، جمعیۃ الاصلاح، دعوت فکر و عمل، مطالعہ کی میز پر، دارالافتاء وغیرہ جن میں متعلقین کے ساتھ بطور خاص نوجوانوں کو جوڑنے کی کوششیں کی، اور الحمد للہ نوجوانوں کی متعدد فعال کلبیں مسجد سے جڑکر امامِ مسجد کا تعاون کرتے ہیں اور انتظامیہ میں شامل ہیں۔

ہفتہ واری خواتین کا درس قرآن و درس حدیث اور امت کی نیک بیبیوں کے سچے واقعات کی تعلیم :
      خواتین کیلئے شروع میں ہم نے ماہانہ اجتماع منعقد کیا، بعدہ پندرہ روزہ اور اب موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر ضروری معلوم ہوا کہ بطورِ خاص امامِ مسجد کا ہر ہفتہ اجتماع ہونا چاہئے، چنانچہ اسے تعلیم و تربیت کے لحاظ سے مزید مفید بناتے ہوئے ہفتہ واری کردیا گیا جس میں خواتین کی اچھی تعداد شرکت کررہی ہیں۔ والحمد للہ علی ذلک

ہر گھر میں عورتوں کی کتابی تعلیم کی عملی جدوجہد اور تعلیم بالغات کی کلاسیں :
     ہم نے دو ڈھائی سال قبل شہر بھر میں عورتوں کی کتابی تعلیم کے تئیں فکر کرتے ہوئے ایک مؤثر نصاب تشکیل دینے کی کوشش کی اور شہر کے فکرمند علماء و مفتیان سے رہنمائی لیتے ہوئے ایک مفید نصاب و نظام بنایا اور اصحابِ خیر سے تعاون لیتے ہوئے بذات خود کتابیں خریدیں اور تقریباً پندرہ بیس سیٹ، بیس سے پچیس ہزار کی لاگت سے مسجد کی الماری میں رکھا، جو «دعوت فکر و عمل واٹسایپ گروپ کے اراکین کے تعاون» سے جاری کیا گیا تھا، جس میں مزید تیزی لاتے ہوئے ہم نے یہ عزم کیا ہیکہ ہر گھر میں اسے جاری کریں گے۔ ان شاء اللہ
➖➖➖➖➖
عملی کوشش :
     اس کیلئے عملی کوششیں شروع کردی گئی اور منبر و محراب سے لیکر انفرادی ملاقاتوں تک اسی کے متعلق تاکید و نصیحت اور کارگذاری لینا جاری ہے۔ ہم نے اس کیلئے یہ کام بھی شروع کیا کہ عشاء کے بعد چند سنجیدہ، فکرمند مصلیان اور بلا تفریق امارت و شوری مسجد وار جماعت کے ساتھیوں کو لیکر گھروں کا گشت شروع کر دیا، جس میں امام صاحب ہی متکلم و روحِ رواں ہوتے ہیں۔

طریقہٴ کار :
     ہم مع احباب کسی ایک گھر جاتے ہیں اور آواز دیکر گھر کے ذمہ دار فرد کو کہا جاتا ہیکہ مسجد کے امام صاحب ساتھیوں کے ساتھ ملاقات کیلئے آئے ہیں، فورا گھر میں انتظام کیا جاتاہے، ہم کہتے ہیں کہ گھر کے ہر موجود فرد اور گھر کی عورتوں کو بھی پردے میں بٹھا دیں، کچھ اہم باتیں کرنی ہے، آنے کا مقصد بتاکر، پہلے گھر کے ذمہ دار فرد سے افراد خانہ کی دینی و عصری تعلیم کے متعلق بتانے کی درخواست کرتے ہیں اور پھر سوال کرتے ہیں کہ آپ نے بحیثیت سرپرست انکے دین و ایمان کی لائن سے کیا فکر اور کیا کوششیں کی ہیں؟ جو بھی جواب ملے، انکی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کرتے ہیکہ اتنا کافی نہیں، موجودہ ملکی صورتحال دینی لائن سے بہت زیادہ جدوجہد کی متقاضی ہے اور پھر مختصر باتیں کرکے کتابی تعلیم کی گذارش کرتے ہوئے نصاب کا پمفلٹ دیتے ہیں، مسجد سے گھر کا ہر فرد جڑ سکتا ہے، اسکی ترتیب بتا کر جڑنے کی گذارش کرتے ہیں اور اظہارِ تشکر کے کلمات کہ
"آپ نے ہماری باتیں سنیں، میزبانی کی، ہم آپکے ممنون ہیں، کہہ کر رخصت ہوتے ہیں۔"
اس پر بیشتر یہ کہا گیا کہ امام صاحب! آتے رہیے، بہت اچھا لگا آپکی باتیں سن کر، آپ نے بڑا اچھا کام کیا، گھر والے میری نہیں سنتے، آپکی باتیں ان شاء اللہ ضرور سنیں گے۔
ہم کہتے ہیں کہ: ضرور! چند مہینوں میں دوبارہ آئیں گے اور تمام افراد خانہ سے اس کام کی کارگذاری لیں گے۔
➖➖➖➖➖
اسی کے ساتھ اب یہ عزم ہیکہ
      ہم اپنے علاقے میں گلی گلی اصلاحی کارنر میٹنگ یا چھوٹے چھوٹے جلسے لیں گے (اور پورٹیبل مائک سسٹم جو الحمد للہ موجود ہے اس کا بھرپور استعمال کریں گے، اور اپنے تجربات کو آپ حضرات سے شیئر کریں گے۔) اور جتنا ہوسکتا ہے کر گذریں گے۔
کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے "یہ وقت ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے کا نہیں ہے بلکہ اپنے حصے کا کام کرگزرنے کا ہے، مہدی موعود کی آمد کا فقط انتظار نہیں بلکہ وقت موعود سے پہلے اپنی ذمہ داری انجام دینے کا ہے۔" (کتاب: رجب طیب اردگان، مترجم: ڈاکٹر طارق ایوبی)
     موجودہ حالات میں ہمیں فکر و تجاویز کے ساتھ زمینی محنت اور عملی جدوجہد کی بڑی ضرورت ہے، اور امام مسجد، مسجد کی مرکزیت کو زندہ کرکے بہت مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں، انتظامیہ و ذمہ دارانِ مساجد کو بھی اس سلسلہ میں ائمہ کا ساتھ لیکر اور ساتھ دیکر دست و بازو بننا چاہئے، امت کے حق میں یہ کام انتہائی مفید ہوگا، معاشرے کے دوسرے افراد کی کوششیں ایک طرف اور امامِ مسجد کے دینی مقام و مرتبے اور اثر و رسوخ کے سبب ان کی طرف سے شروع کی جانے والی جدوجہد ایک طرف، امام مسجد کی جدوجہد سب پر بھاری پڑجائے گی اور بہت اچھے نتائج برآمد ہونگے۔ ان شاء اللہ العزیز
؎
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
ایک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں
     (مفتی صدرالدین آزردہ)
➖➖➖➖➖➖

ایک نظر ادھر بھی
      درج بالا سرگرمیوں کی بنیادیں ہمیں حیات طیبہﷺ  میں بڑی صراحت سے ملیں۔ دیکھئے! 

نبی ﷺ بحیثیت امامِ مسجدِ نبویﷺ :
      اللہ کے نبیﷺ جب سماج و معاشرے کے ہر طبقہ کیلئے ھادی و رہنما اور نمونہ و آئیڈیل ہیں تو ائمہ مساجد کیلئے  کیوں نہیں؟
اس نقطہء نظر سے ہم نے آپ ﷺ کی مسجد نبویﷺ میں کی جانے والی سرگرمیوں پر نظر ڈالی تو بیک نظر درج ذیل چیزیں سامنے آئیں۔

1) تقریباً ہر نماز کے بعد آپ ﷺ مصلّے پر تشریف فرما ہوکر بیٹھتے، کبھی صحابہ کرامؓ کی طرف رخ کرکے بیٹھتے، تاکہ صحابہؓ اپنے مسائل میں آپﷺ سے رہنمائی لیں۔
2) نمازوں کے علاوہ اصلاح و دعوت کیلئے علاقے و محلے میں گلی گلی گشت لگاتے۔

3) بیماروں کی عیادت، نمازِ جنازہ میں شرکت اور دعوتِ طعام میں شرکت فرماتے، تاکہ تعلقات بنے، بڑھے اور اصلاح و تربیت میں آسانی ہو، درمیان کا حجاب دور ہو۔
4) مسجد سے لگ کر اصحاب صفہ کے چبوترے میں (گویا تعلیمِ بالغاں کے طور پر مردوں کو) دین سکھاتے۔
5) ہفتہ میں ایک روز عورتوں (صحابیاتؓ) میں تعلیم فرماتے۔

➖➖➖➖➖
آخر میں عرض ہیکہ
     ہم مسجد وار جماعت کے ساتھیوں کا بھی ساتھ لیں، ان کے گذشتہ کاموں اور تبلیغی و اصلاحی خدمات کا اعتراف کریں، ان کو اپنا کام کرنے کا موقع دیں اور انکی صورتحال کو اللہ پاک کی طرف سے سمجھتے ہوئے اپنے لئے خدمت کا ایک موقع جانیں، دونوں گروہوں کو اپنی ماتحتی میں رکھ کر کام کریں اور پورے خلوص، دیانت داری اور قرآن و سنت کی روشنی میں آگے بڑھیں۔
اللہ ہمارا حامی و مددگار ہوگا۔ ان شاء اللہ
فاذا عزمت فتوکل علی اللہ
اللہ پاک ہمیں حالات کے تناظر میں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔

( گذارش برائے اہل علم حضرات: درج بالا مضمون میں راقم الحروف کیطرف سے کسی بات یا کام میں کسی اصلاح کی ضرورت محسوس ہو تو ضرور اصلاح بھی فرمائیں، ہم ممنون ہونگے۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ)

(مضمون نگار: نعیم الرحمٰن ملی ندوی، مسجد حضرت عثمان ابن عفانؓ، [مالدہ شیوار، وزیر خان روڈ، مالیگاؤں] میں الحمد للہ سات سالوں سے امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے