بےحیائی، فحش گوئی اور بےتکلف دوستی
✍ نعیم الرحمن ملی ندوی
اللہ تعالیٰ نے انسان کواشرف المخلوقات بناکر بہت سی فطری خوبیوں سے نوازا ہے انہیں میں ایک خوبی شرم وحیا ہے، شرم وحیا اُس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان برے اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتا ہے۔
حیاء کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : الحیاء من الایمان والایمان فی الجنة والبذآء من الجفآءٰ والجفآءٰ فی النار. (مشکوة۔431) ترجمہ : حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء (زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔
① باحیاء انسان اللہ کا محبوب:
حیاء کی وجہ سے انسان اللہ پاک کے یہاں پسندیدہ بن جاتا ہے، حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے لئے آئیں تو ان کی چال، ڈھال میں شائستگی اور میانہ روی تھی اللہ رب العزت کو یہ شرمیلا پن اتنا اچھا لگا کہ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ فرمایا؛ : "فجآءتہ احدٰ ھما تمشیی علی استحیآء (سورة القصص 25) ترجمہ : اور آئی ان کے پاس ان میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئی۔" ___ اندازہ لگائیں کہ باحیاء انسان کی رفتار وگفتار اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے تو اس کا کردار کتنا مقبول اور محبوب ہوگا۔
اسی طرح جو شخص حیاء جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے اُس سے خیر کی توقع رکھنا بیکار ہوتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : "اذالم تستحیی فاصنع ما شئت. (مشکوٰة 431) جب تجھ میں شرم وحیا ء باقی نہ رہے تو پھر جو مرضی چاہے کر۔" ____ اِس سے معلوم ہوا کہ بے حیاء انسان کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند نہیں ہوتا اور اس کی زندگی شُتُرِ بے مَہار کی طرح ہوتی ہے، حیاء ہی وہ صفت ہے جس کی وجہ سے انسان پاکیزگی اور پاکدامنی کی زندگی گزارتاہے۔
② حیاء تقوے کا زینہ ہے :
حیاء اور تقوی دو اہم وصفِ انسانی ہیں، ان میں غور کرنے سے بطور خلاصہ یہ بات سامنے آتی ہے کہ حیاء نام ہے " گناہ کرتے وقت بندوں کا لحاظ کرنا" اور تقوی نام ہے "گناہ کرتے وقت اللہ پاک کا لحاظ کرنا،" اسی لیے اگر کسی بندے کے اندر گناہ کے وقت "بندوں کا لحاظ" بھی اٹھ جائے تو اب وہ کچھ بھی کر سکتا ہے اور اس سے ہر برے کام کی توقع کی جاسکتی ہے، فارسی کا ایک مقولہ بھی ہے 'بے حیا باش و ہر چہ خواہی کن' یعنی بے حیائی اختیار کرلو پھر جو چاہے کرو۔
حیاء؛ منزلِ تقوے کا زینہ ہے، اسی حیاء کے بعد تقوے کا حصول آسان ہوجاتا ہے، "بندوں کا لحاظ" کرتے کرتے مومن بندہ "اللہ پاک کا لحاظ کرنے والا" بن جاتا ہے، اس طرح اسے تقویٰ حاصل ہو جاتا ہے، وہ متقی بن جاتا ہے، اور حیاء کے زینے سے تقوے کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔
③ حیاء کا مفہوم اور "حیاءِ ایمانی" :
"حیاء" سے مراد شرمندہ ہونا ہے، حیاء اس کیفیت کا نام ہے جو کسی انسان پر کسی عیب کے ظاہر ہونے کے خوف یا برائی کی ندامت کے وقت طاری ہو، بہترین حیاء وہی ہے جو انسان کو اس چیز میں مبتلا ہونے سے روکے جس کو شریعت نے برا قرار دیا ہے، اسی کو "حیاءِ ایمانی " بھی کہا جاتا ہے، حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں؛ حیاء یہ ہے کہ جب بندہ اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں اور اپنی کوتاہیوں کو دیکھے تو اس کا سر شرم سے جھک جائے۔
④ اللہ پاک کی حیاء :
(کلام الٰہی اور اہتمامِ حیاء)
کلام؛ صاحبِ کلام کی حیاء کا غماز ہوتا ہے، اللہ پاک اپنے کلام میں ارشاد فرماتے ہیں؛ ___ ان ذلکم کان یوذی النبی فیستحیی منکم والله لایستحیی من الحق..... ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ اس بات سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ تم سے (کہتے ہوئے) شرماتے ہیں، اور اللہ حق بات میں کسی سے نہیں شرماتا ..... (الأحزاب: 53) ___ اللہ سبحانہ تعالٰی حق بیانی میں حیاء نہیں فرماتے لیکن فحش کا حکم بھی نہیں دیتے، ارشاد ہے؛ ___قل ان الله لا یامر بالفحشاء أتقولون علی الله ما لا تعلمون . (اے نبی ﷺ) تم (ان سے) کہو کہ : اللہ بےحیائی کا حکم نہیں دیا کرتا۔ کیا تم وہ باتیں اللہ کے نام لگاتے ہو جن کا تمہیں ذرا علم نہیں؟ (الأعراف.28) ___ اسی کے ساتھ ایک مقام پر فرمایا ؛ ___ وينهى عن الفحشاء والمنكر ... اور وہ (اللہ) روکتا ہے فحش (بے حیائی) سے ....... » (النحل:90) ___ کلام الٰہی کی ہی یہ شان ہے کہ حق بات کی پوری وضاحت ہوتی ہے اور فحش و بےحیائی سے بھی سارا کلام پاک و صاف ہے۔
اللہ پاک نے قرآن کریم میں ہر قسم کے احکام بیان فرمائے ہیں، ازدواجی تعلق کا بیان بھی ملتا ہے لیکن حیا کے تقاضوں کو ہر طرح ملحوظ رکھ کر، ارشاد ہے؛ ___ فلما تغشاھا حملت حملا خفیفا فمرت بہ. : پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو عورت نے حمل کا ہلکا سا ایک بوجھ اٹھالیا، جسے لیکر وہ چلتی پھرتی رہی۔ ___ لفظ "تغشاھا: مرد نے عورت کو ڈھانک لیا" سے زوجین کے تعلقِ خاص کو بیان کردیا۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم __ اسی طرح جنت میں جانے والی دنیا کی نیک بیبیوں کا تذکرہ ہے؛ ___ إنا أنشأناهن انشاءا، فجعلناهن ابكارا، عرباً اترابا : یقین جانو، ہم نے ان عورتوں کو نئی اٹھان دی ہے، چنانچہ انہیں کنواریاں بنایا ہے، (شوہروں کے لیے) محبت سے بھری ہوئی، عمر میں برابر۔ ___ قرآن کریم نے یہاں ان خواتین کا ذکر بڑے لطیف انداز میں کیا ہے کہ بس ضمیر سے ان کی طرف اشارہ فرمادیا ہے، صراحت کے ساتھ نام نہیں لیا، اس میں بڑی بلاغت بھی ہے اور ان خواتین کی پردہ داری بھی۔
اسی طرح کلام الٰہی میں جنتی عورتوں یعنی حوروں کا تفصیلی تذکرہ مختلف جگہوں پر موجود ہے، مکی سورتوں میں متعدد مقامات پر شرح و بسط سے بلیغ ترین تشبیہات کے ساتھ بیان ہوا ہے لیکن غور کریں تو احساس ہوگا کہ کہیں بھی بے حیائی اور فحش کلامی نہیں ہے اور بات بھی پوری طرح واضح ہوتی جاتی ہے۔ اللہ پاک کے بارے میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے کتنی سچی، صحیح بات فرمائی ہے؛ إن اللہ عز وجل حیي ستیر یحب الحیاء والستر . بے شک اللہ بزرگ و برتر بڑا حیاء والا ، پردہ پوشی کرنے والا ہے اور بندوں سے بھی حیاء داری و سترپوشی کو پسند فرماتا ہے۔
⑤ نبی کریم ﷺ کی شرم و حیاء :
اللہ کے رسول ﷺ پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے اور جب آپؐ کوئی ناپسندیدہ بات دیکھتے تو آپؐ کی ناپسندیدگی کا اندازہ آپؐ کے چہرہ انور کے تاثرات ہی سے لگا لیا جاتا تھا۔ (عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم أَشَدَّ حَیَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِہَا، فَإِذَا رَأَی شَیْئًا یَکْرَہُہٗ عَرَفْنَاہٗ فِي وَجْہِہٖ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔)
حضرت انسؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نہ تو فحش گو تھے، نہ ہی لعنت کرنے والے، نہ ہی گالی دینے والے تھے۔ غصے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اتنا فرماتے : اُسے کیا ہو گیا، اُس کی پیشانی خاک آلود ہو۔ (عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ : لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فَاحِشًا وَلَا لَعَّانًا وَلَا سَبَّابًا کَانَ یَقُوْلُ عِنْدَ الْمَعْتَبَۃِ : مَا لَہٗ تَرِبَ جَبِیْنُہٗ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ۔)
⑥ آپ ﷺ کی حیاء کی ایک مثال :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ سے حیض کے غسل کے بارے میں پوچھا، تو آپ ﷺ نے اس کو بتلایا کہ کس طرح وہ غسل کرے، (پھر) آپ ﷺ نے (غسل کا طریقہ بتانے کے بعد) فرمایا: کستوری لگا ہوا ایک کپڑا لے اور اس سے طہارت کرلے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : اس نے کہا میں (اس سے) کیسے پاکیزگی حاصل کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے پاکیزگی حاصل کرلے، وہ کہنے لگی کیسے پاکیزگی حاصل کروں؟ آپ ﷺ نے( تعجب سے) فر مایا: سبحان اللہ! پاکیزگی حاصل کر، سیدہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کو سمجھایا کہ خون کے مقام ( یعنی شرمگاہ) پر اس کو لگا دے۔
(صحیح بخاری، کتاب الحیض)
____________________
⑦ فحش کیا ہے؟:
فحش لفظ کے لغوی معنی ہیں بدکاری، بیہودگی، بے شرمی کی باتیں، گالی یا پھر بدکلامی۔ اگر اظہار کی بات کی جائے تو ایسے کلمے جس میں جنسی امور کا برہنہ اظہار ہوا ہو، عریاں اور بے ہودہ الفاظ کا چناؤ ہو۔ اسی طرح فحش نگاری کہتے ہیں، گندی باتیں لکھنے والا، بیہودہ لکھنے والا، وہ ادیب یا مضمون نگار جو جنسی بے راہ روی کا برہنہ الفاظ میں ذکر کرے۔
⑧ اولاد آدمؑ کی برہنگی شیطان کا نشانہ :
انسان کے ازلی دشمن شیطان کی آدمؑ و حوا کے خلاف پہلے دن ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ انہیں اور ان کی اولاد کو برہنہ کرے، بے لباس کرے، اللہ پاک کی جنت میں اس نے یہی کیا اور آدمؑ کو جنت کی رہائش سے نکال کرکے ہی دم لیا۔
دنیا میں بھی اس کو اولادِ آدم کے پیچھے لگایا گیا ہے، ارضی امتحان گاہ میں خالق و مالک نے اسی بات کا حوالہ دیتے ہوئے ابن آدم کو شیطان سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی ہے؛
يابني آدم لا يفتننكم الشيطان كما أخرج أبويكم من الجنة ينزع عنهما لباسهما ليريهما سوآتهما إنه يراكم هو وقبيله من حيث لا ترونهم إنا جعلنا الشياطين أولياء للذين لا يؤمنون ۞
ترجمہ: اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو! شیطان کو ایسا موقع ہرگز ہرگز نہ دینا کہ وہ تمہیں اسی طرح فتنے میں ڈال دے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکالا، جبکہ ان کا لباس ان کے جسم سے اتر والیا تھا، تاکہ ان کو ایک دوسرے کی شرم کی جگہیں دکھا دے۔ وہ اور اس کا گروہ تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ان شیطانوں کو ہم نے انہی کا دوست بنادیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ (الأعراف:27)
یہ مشاہدہ ہیکہ جو لوگ بھی نفس و شیطان کا شکار ہیں وہ بے ستری، بے پردگی، برہنگی و ننگے پن میں گلے گلے ڈوبے ہوئے ہیں اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ انہیں اپنی بےحیائی کا احساس بھی نہیں؛
وائے ناکامی متاعِ انساں جاتا رہا
اور انساں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
⑨ فحش پھیلانے کا بھیانک انجام :
فحش پھیلانا خاص طور پر مسلم معاشرے میں اس کی ترویج و اشاعت؛ اللہ پاک کے یہاں اتنا بڑا جرم ہے کہ آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی خدائی گرفت میں موت سے پہلے ہی دھر لیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے؛
إن الذين يحبون أن تشيع الفاحشة في الذين آمنوا لهم عذاب أليم في الدنيا والآخرة والله يعلم وأنتم لا تعلمون ۞ ترجمہ: جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت (دونوں میں) میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورۃ النور: 19)
آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ ان کا اطلاق عملاً بد کاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بداخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں، اشعار، گانوں، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی۔
⑽ بےتکلف ساتھیوں میں فحش گوئی :
انسان یوں تو عام ماحول میں حیاداری کو اپنائے رکھتا ہے لیکن بسا اوقات اپنے بےتکلف ساتھیوں میں بے حیائی و فحش گوئی میں پڑجاتا ہے، گفتگو میں فحاشی کے استعارے و تلمیحات آنے لگتے ہیں، اس وقت احساس کرنا چاہیےکہ ___ زبان سے نکلے ہوئے ہر ہر لفظ ضبط کئے جارہے ہیں؛ ___ ما يلفظ من قول إلا لديه رقيب عتيد. انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اس پر ایک نگراں مقرر ہوتا ہے، ہر وقت (لکھنے کے لیے) تیار۔ (ق:18) ___
ایسے ہی زبانِ قلم سے لکھے ہوئے الفاظ و عبارات بھی ریکارڈ کئے جا رہے ہیں۔
کل قیامت کے دن خدا کے حضور ثبوت کے طور پر ساری گفتگو کی ریکارڈنگ شروع ہوگی تو فحش گوئیوں کا کیا جواب دیا جاسکے گا؟
⑾ بے تکلف دوستوں کی دشمنی :
اللہ پاک کا ارشاد ہے؛ الاخلاء یومئذ بعضہم لبعض عدو الا المتقین : اس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، سوائے متقی لوگوں کے۔ (الزخرف. 67)
عام دوستوں کے لئے عربی زبان میں لفظ أصدقاء جمع صَدِیق آتا ہے، اس آیت میں "الأخلاء" جمع خلیل کا لفظ آیا ہے، معنی ہیں انتہائی قریبی و جگری دوست یا بےتکلف دوست ___ بے تکلف دوستوں کی مصاحبت اور ان کی سنگت میں انسان پورا کُھل جاتا ہے سارے تکلفات اٹھاکر ایک طرف رکھ دیتا ہے لیکن آیتِ کریمہ کا یہ لفظ بتاتا ہے کہ اگر ایسی دوستی میں بھی تقویٰ و پرہیزگاری کا لحاظ نہ رکھا گیا، حقیقی اور باوفا دوست اللہ رب العزت کا ڈر و خوف بھی اٹھادیا گیا اور فحش و بےحیائی کو راہ دے دی گئی تو یہی بےتکلف دوست جو آج بے حیائی کی تائید کر رہے ہیں، آپس میں فحش گوئی و فحش کلامی کو نظر انداز کرکے حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، مزے بھی لے رہے ہیں، کل قیامت کے دن دامن جھاڑ دیں گے، عدالتِ خداوندی کے کٹہرے میں تنہا چھوڑ دیں گے، دنیا کی وہ دوستی و یگانگت پوری طرح ہَوا ہوجائے گی اور قرآن کا بیان پورے طور پر صادق آئے گا؛ الاخلاء یومئذ بعضہم لبعض عدو،،، ..... : اس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے،،، .....
⑿ فحش سے بچنے کی عملی اور دعائی تدابیر:
فحش سے بچنے کی بہت سی عملی تدابیر ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں کہ "فحش چیزوں سے نگاہوں کو جھکالیں، خیالات کو ہٹالیں، اللہ پاک کے حاضر ناظر ہونے، یعنی پاس ہونے اور دیکھنے کو محسوس کریں، فحش کے آلات کو دور کردیں، ایسی جگہوں اور مقامات سے ہمت کرکے الگ ہوجائیں۔"
تمام تدابیر کے ساتھ اہم ترین تدبیر یہ ہیکہ اللہ پاک کی طرف رجوع ہوجائیں اور دعاؤں میں لگ جائیں۔
⒀ قرآن کریم میں دعائیہ نکتہ :
اس موضوع پر قرآن کریم میں غور کرنے سے ایک دعائیہ نکتہ کھلتا ہے، سورہ یوسف میں حضرت یوسفؑ کو امرأۃ العزیز اور اس کی سہیلیوں کے مکر اور انکے فحش ارادوں سے بچانے کے بعد، مدبر و حفیظ ہستی اللہ پاک فرماتے ہیں؛ __ كذلك لنصرف عنه السوء والفحشاء إنه من عبادنا المخلصين' __ ہم نے ایسا اس لیے کیا تاکہ ان (یوسفؑ) سے برائی اور فحش کا رخ پھیر دیں۔ بیشک وہ ہمارے منتخب بندوں میں سے تھے۔
کسی بھی قسم کے فحش اور بےحیائی میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو اس پس منظر کا حوالے دے کر اللہ پاک سے دعا کرتے ہوئے، بندہ ان الفاظ کو پیش کرے تو قوی امید ہے کہ اللہ پاک اسے یوسف علیہ السلام جیسی حفظ و امان عطا فرماکر "عفتِ یوسفی" سے نوازدیں۔
دعا یہ ہے؛
اللھم اصرف عنی السوء والفحشاء واجعلنی من عبادک المخلصين.
اسے جمع کے صیغے میں ڈھال کر اجتماعی دعاؤں کا معمول بھی بنایا جاسکتا ہے؛
اللھم اصرف عنا السوء والفحشاء واجعلنا من عبادک المخلصين.
__________
دعا ہے اللہ پاک ہم سب کو ہر قسم کی فحاشی، بےحیائی سے محفوظ فرماکر حیاء و پاکدامنی عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین
_____________________
استاذ محترم قاری امتیاز اقبال صاحب کے شکریہ کے ساتھ کہ آپ نے مضمون کی افادیت کے پیش نظر اسے اپنے مؤقر ہفتہ واری دینی اخبار نوید شمس کے سرورق پر جگہ دی اور طویل ہونے کے باوجود دو قسطوں میں شائع فرمایا۔ جزاہم اللہ خیر الجزاء
0 تبصرے