میرکارواں کیسا ہونا چاہیے؟
کلامِ الٰہی کی روشنی میں
کوئی کارواں سے ٹوٹا ‘ کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی !
جماعتی زندگی میں جو بھی امیر ہو، صاحب امر ہو، جس کے پاس ذمہ داریاں ہوں، جس کے گرد اس کے ساتھی جمع ہوں، اسے یہ خیال رہنا چاہیے کہ آخر وہ بھی انسان ہیں، ان کے بھی کچھ جذبات اور احساسات ہیں، ان کی عزت نفس بھی ہے، لہٰذا ان کے ساتھ نرمی کی جانی چاہیے، سختی نہیں۔ وہ کوئی ملازم نہیں ہیں، بلکہ رضاکار volunteers ہیں۔
آنحضرت ﷺ کے ساتھ جو لوگ تھے وہ کوئی تنخواہ یافتہ سپاہی تو نہیں تھے۔ یہ لوگ ایمان کی بنیاد پر جمع ہوئے تھے۔ اب بھی کوئی دینی جماعت وجود میں آتی ہے تو جو لوگ اس میں کام کر رہے ہیں وہ دینی جذبے کے تحت جڑے ہوئے ہیں ‘ لہٰذا ان کے امراء کو ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
اللہ پاک کا ارشاد ہے :
فَبِمَا رَحۡمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنۡتَ لَهُمۡۚ وَلَوۡ كُنۡتَ فَظًّا غَلِيۡظَ الۡقَلۡبِ لَانْفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِكَ ۖ فَاعۡفُ عَنۡهُمۡ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ وَشَاوِرۡهُمۡ فِى الۡاَمۡرِۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُتَوَكِّلِيۡنَ ۞
ترجمہ: (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ان کے حق میں بہت نرم ہیں اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارد گرد سے منتشرہو جاتے پس آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہیں پھر جب آپ فیصلہ کرلیں تو اب اللہ پر توکل کریں یقیناً اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہےـ
رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت کا مظہر ہے کہ آپ ﷺ ان صحابہ کرام کے حق میں بہت نرم ہیں۔
وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ
کوئی کارواں سے ٹوٹا ‘ کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی !
فَاعْفُ عَنْہُمْ
چونکہ بعض صحابہؓ سے اتنی بڑی غلطی ہوئی تھی کہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بہت بڑا چرکا لگ گیا تھا، لہٰذا آنحضور ﷺ سے کہا جا رہا ہے کہ اپنے ان ساتھیوں کے لیے اپنے دل میں میل مت آنے دیجیے۔ ان کی غلطی اور کوتاہی کو اللہ نے معاف کردیا ہے تو آپ ﷺ ‘ بھی انہیں معاف کردیں۔ عام حالات میں بھی آپ انہیں معاف کرتے رہا کریں۔
وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ
ان سے جو بھی خطا ہوجائے اس پر ان کے لیے استغفار کیا کریں۔
وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ
ایسا طرز عمل اختیار نہ کریں کہ آئندہ ان کی کوئی بات نہیں سننی، بلکہ ان کو بھی مشورے میں شامل رکھیے۔ اس سے بھی باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا امیر ہم سے مشورہ کرتا ہے ‘ ہماری بات کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ یہ بھی درحقیقت اجتماعی زندگی کے لیے بہت ہی ضروری بات ہے۔
فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط ۔
مشورے کے بعد جب آپ ﷺ ‘ کا دل کسی رائے پر مطمئن ہوجائے اور آپ ایک فیصلہ کرلیں تو اب کسی شخص کی بات کی پرواہ نہ کریں ‘ اب سارا توکل اللہ کی ذات پر ہو۔
نوٹ : یہ ہدایات غزوہ احد کے پس منظر میں نازل ہوئی ہیں۔)
پیشکش: نعیم الرحمن ندوی
0 تبصرے