اساتذۂ معہد ملت کے مؤثر طریقہائے تدریس _ (حصہ دوم)



*مادر علمی معہد ملت؛ کیا دیکھا کیا پایا؟ [6]*
نعیم الرحمن ملی ندوی (استاذ جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں) 
⬆️ گذشتہ سے پیوستہ... ساتویں قسط
======================= 
_ اساتذۂ معہد ملت کے مؤثر طریقہائے تدریس _
(حصہ دوم)

(۲) معہد ملت کے استاذِ تجوید و قرأت __ 

     معہد ملت کے استاذِ قرأت حضرت قاری الطاف حسین ملی صاحب کا طریقۂ تدریس بھی "ذاتی تجربے" اور "فنِّ تدریس" ہر دو لحاظ سے بہت مؤثر معلوم ہوا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس پر بھی کچھ روشنی ڈالی جائے۔

براہِ راست طریقہ (Direct Method) :
      قاری صاحب کو تجوید کی تدریس سے جو صلاحیت مطلوب ہے اسے اگر ایک جملے میں سمیٹا جائے تو وہ یہ ہے "حروف کے مخارج، صفات اور قواعدِ تجوید کی رعایت کرتے ہوئے طلبہ قرآن کریم کو اپنے فطری لہجے میں پڑھ سکیں۔" اپنے اس ہدف میں آپ اب تک بہت کامیاب رہے ہیں۔ اس مطلوبہ صلاحیت کو پیدا کرنے کے لئے قاری صاحب جو طریقۂ تدریس اپناتے ہیں اسے "مروجہ طریقہائے تدریس" کی فہرست میں "براہِ راست طریقہ (Direct Method)" کہا جاسکتا ہے۔
    (The direct method of teaching, which is sometimes called the natural method and is often used in teaching languages)
آسان الفاظ میں ____
   براہ راست طریقۂ تدریس، جسے "فطری طریقہ" بھی کہتے ہیں، اور اکثر زبان سکھانے میں استعمال ہوتا ہے۔

    آپ کا نہج یہ ہے کہ آپ تجوید و قرأت کی کسی بھی کتاب کے بغیر طالب علم کو پہلے 29 حروف کی مشق کراتے ہیں، مشق زبانی ہوتی ہے، حرفوں کو ان کے مخارج اور صفات کے ساتھ ادا کرکے دکھاتے ہیں اور طالب علم سے ویسا ہی ادا کرواتے ہیں، ایک حرف کو چھ شکلوں میں بتاتے ہیں جیسے : بَا ، بِیْ ، بُوْ ، اَبَّ ، اِبِّ ، اُبُّ ___ ایک حرف کی صحتِ ادائیگی کے لیے لیے کم سے کم دو ایک دن صرف ہوتا ہے اور اس طرح قریب ڈیڑھ دو مہینے میں تمام حروف کی مشق ہو جاتی ہے، اس کے بعد الفاظ اور فقروں کی مشق ہوتی ہے، اس میں تعوذ ، تسمیہ سے آغاز کرتے ہوئے سورہ فاتحہ اور پارۂ عم کے اخیر کی چھوٹی چھوٹی سورتیں آتی ہیں، ان میں ایک ایک آیت چند حصوں میں تقسیم کرکے مشق ہوتی ہے۔ مثلا تعوذ تسمیہ اور سورہ فاتحہ 

أَعُوذُ _ بِاللہ _ مِنَ الشَّيْطَانْ _ اَلرَّجِيم
بِسْمِ اللہ _ اَلرَّحْمانْ _ اَلرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ _ للهِ _ رَبِّ الْ _ عٰلَمِين ۞
اَلرَّحْمانْ _ اَلرَّحِيم ۞
مٰلِكِ _ يَوْمِ الدِّيْن ۞
إِيَّاكَ _ نَعْبُدُ _ وَإِيَّاكَ _ نَسْتَعِين ۞
أِهْدِنَا الصْ _ صِّرَاطَ الْ _ مُسْتَقِيم ۞
صِرَاطَ ال_ لَّذِينَ _أَنْعَمْتَ _ عَلَيْهِمْ _ غَيْرِ الْ _ مَغْضُوبِ _ عَلَيْهِمْ _ وَلَا الضَّآلِّين ۞
 _____________________ 

     الفاظ و فقروں کی مشق میں حروف کے مخارج و صفات کے ساتھ قواعدِ تجوید کی بھی پوری رعایت ہوتی ہے یعنی صفاتِ لازمہ کے ساتھ صفاتِ عارضہ کا بھی پورا لحاظ رکھ کر مشق کراتے ہیں۔ (یہ بات بھی ہوتی ہے کہ ادائیگی بتاتے ہیں مخرج اور صفات نہیں) جیسے 
 _ أَعُوذُ : عُوْ میں واو مدہ بقدر ایک الف کھینچیں گے۔
 _ بِاللہ : لامِ اللہ باریک کریں گے۔
 _ مِنَ الشَّيْطَانْ : شَيْ یاء لین کو نرم آواز سے جلد ادا کریں گے۔
 _ اَلرَّجِيم : را پُر ، جِيْ میں یاء مدہ ہوگا، ایک الف کے برابر کھینچیں گے۔
اس طرح ایک ایک آیت مشق کراتے ہوئے ایک سورۃ ہفتے دس دن میں مکمل ہوتی ہے۔
      ۲۹ _ ۳۰ پارے کی مشق ہوتے ہوتے اب کتبِ تجوید کی طرف آتے ہیں، اچھی مشق ہوجانے کی وجہ سے کتاب اور ادائیگی کے بیچ کی اجنبیت باقی نہیں رہتی اور بہت آسانی سے مخارج و صفات اور قواعد تجوید اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتے ہیں۔

  تدریب المعلمین لتعلیم التجوید : 
(فنِ تجوید کی تدریس کیلئے مدرسین کی ٹریننگ)

     مؤرخہ ۲۳/ ذوالقعدہ ۱۴۴۲ھ مطابق ۵/جولائی ۲۰۲۱ء، بروز پیر، بعد نماز مغرب دارالتقوی میں حضرت قاری صاحب نے "تدریب المعلمین لتعلیم التجوید" کے عنوان سے اپنے شاگردان عزیز اور مدرسہ عثمانیہ کے معلمین کے درمیان تجویدِ قرآن کے متعلق تربیتی باتیں بیان کیں، بچوں اور عوام کو کس انداز میں پڑھانا مفید و آسان ہوگا؟ اس کو واضح کیا، ساتھ ہی اپنے تدریسی تجربات کو بھی پیش کیا، اس پروگرام میں راقم الحروف بھی از اول تا آخر شریک رہا، اہم باتوں کو نوٹ کیا، یہ باتیں بڑی قیمتی تھیں اور قاری صاحب کے ذاتی تدریسی منہج کو واضح کرنے میں بڑی مفید معلوم ہوئیں، چونکہ راقم الحروف نے حضرت قاری صاحب ہی سے تجوید سیکھا ہے، سیکھنے سکھانے کا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان باتوں کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جائے۔ 
 __ معلمینِ تجوید کے لیے اہم باتیں __
     قرآن پاک عربی زبان میں ہے اس لیے عربی انداز و اسلوب میں پڑھنا ضروری ہے، قرآن کو عربی میں پڑھنے اور عربیت کو ملحوظ رکھ کر پڑھنے کے لئے تجوید سیکھنا ضروری ہے، تجوید میں اصل چیز مخارج اور صفات کی ادائیگی ہے، لہجہ فطری طور پر جو بن جائے بہتر ہے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کے استاذ مسند الہند فی التجوید والقرأت حضرت قاری عبدالرحمن مکیؒ کے بڑے بھائی اور استاذ حضرت قاری عبداللہ مکیؒ کے حوالے سے ایک بات فرمائی کہ انہوں نے اپنے شاگرد حضرت تھانویؒ کو مشق کراتے ہوئے کہا کہ "اشرف علی! دوران مشق لہجہ کی طرف مطلق التفات نہ کرنا، مخرج اور صفات کے بعد جو لہجہ بن جائے وہ مستحسن ہے۔" (اشرف السوانح حصہ اول)__ آواز اگر قواعدِ تجوید کے تابع ہے تو لہجہ ہے، اگر اس کے برعکس ہوجائے یعنی تجوید کی رعایت نہ ہو اور ساز و آواز، اس کے اتار چڑھاؤ ہی کی طرف توجہ ہو تو وہ لہجہ؛ لہجہ نہیں، بلکہ گانا؛ گانے کی طرز ہو جائے گی جو درست نہیں، نتیجتاً لحن جلی اور لحن خفی لازم آئے گی۔ اصل چیز ہے تجوید الحروف اور اس کے تابع ہے تجوید الغنۃ والمدود یعنی غنہ اور مدود حرفوں کی ادائیگی میں معاون ہیں۔ لہجہ اور اداءِ الفاظ میں پہلے الفاظ ہیں، لہجہ بعد میں ہے اور یہی *فطری ترتیب بھی ہے کہ بچہ پہلے الفاظ سیکھتا ہے اس کے بعد لب و لہجہ اور اہل خانہ کا طرزِ گفتگو اپناتا ہے۔* اچھی ادائیگی ہر کوئی سیکھ سکتا ہے لیکن اچھا لہجہ ہر کوئی نہیں سیکھ سکتا اس لیے ادائیگی پر توجہ ہونا چاہیے۔
     عوام الناس کیلئے کہا کہ "انتیس میں سے بارہ حروف کی مشق اچھی سے کرادیں، عوام کیلئے کافی ہوجائے گا۔ ۱۲/ حروف میں ۵/ 'ث ذ ع ح ر' ہیں اور بقیہ سات حروف مستعلیہ کے ہیں؛ 'خ ص ض غ ط ق ظ' (خص ضغط قظ)___ اسی کے ساتھ حروف کی مشق میں قرآن پاک کی تلاوت کا ثواب بتاکر بچوں اور عوام میں ترغیب دی جانی چاہیے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فطری لہجہ کی اہمیت : 
     قاری صاحب پہلے تو مبتدی طلبہ کو لہجات کے نقل کرنے کی ترغیب نہیں دیتے، فطری لہجہ ہی اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں، آپ کا نقطہ نظر یہی ہے کہ "تجوید الحروف وقواعد الغنۃ والمدود" کے بعد جو لہجہ بن جائے وہی بہتر ہے، دوسروں کی نقل میں اپنا اصل جوہر گم ہوجاتا ہے، لہجات مشہورہ جیسے حجازی، مصری، نہاوند وغیرہ سیکھنا یہ آخری مراحل ہیں اور مشق میں اچھی پختگی کے بعد ہی سیکھنے کی چیز ہے اسی لیے قاری صاحب کے بیشتر شاگردوں کا اپنا ذاتی و فطری لہجہ ہے جس میں وہ بلاتکلف و بلاتصنع تلاوت کرتے ہیں۔

اسٹیج سے دوری : 
     قاری صاحب زمانہ طالب علمی میں طلبہ کے لئے مظاہرۂ قرأت ناپسند کرتے ہیں اس کی دو وجہ ہیں ایک تعلیمی اور دوسری اخلاقی؛ تعلیمی وجہ یہ ہے کہ اگر طالب علم کو اسٹیج کا چسکہ شروع سے لگ جائے تو پھر فن میں مہارت پیدا ہونا مشکل ہو جاتا ہے، یکسوئی بھی متاثر ہوجاتی ہے، اسٹیج پر پڑھنے کے لئے طالب علم انتہائی درجے پر اس وقت پہنچنے کی کوشش کرنے لگتا ہے جب اسے بنیاد پر توجہ کی ضرورت ہوتی ہے یعنی مخارج و صفات پر پختگی پیدا کرنے کے وقت لہجہ اور طرزِ قرأت کی طرف راغب ہوجاتا ہے نتیجتاً نہ ابتدا مضبوط ہوتی ہے نہ انتہا میں کمال حاصل ہوتا ہے؛
نہ ہی بنیاد ملی نہ مہارتِ فن
 نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
 اخلاقی وجہ یہ ہے کہ عُجْب میں مبتلا ہو جانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے اور ساز و آواز ذرا پرکشش و جاذب ہوں تو خود پسندی میں استاذ کا ادب و احترام بھی کھودیتا ہے۔ گجرات کے طلبۂ مدارس کا یہ عمومی مزاج ہے، انہیں بھی اسٹیج کی زینت بنتے نہیں دیکھا جاتا، آپ بھی وہاں ہی کے فیض یافتہ ہیں اور قاری صلاح الدین صاحب سے فنِ تجوید حاصل کیا ہے وہی مزاج آپ کی تربیت کا بھی حصہ بنا۔

 اندازِ تلاوت :
      مشہور اندازِ تلاوت تین ہیں، ۱) ترتیل ۲) تدویر اور ۳) حدر؛ مصری، ایرانی قراء عام طور پر ترتیل میں پڑھتے ہیں، تدویر کو اہل عرب، اہل حجاز نے اپنایا اور حدر برصغیر (ہندو پاک بنگلہ دیش) میں پڑھا جاتا ہے، بطور خاص تراویح میں اسی انداز کو تیز پڑھتے ہوئے اپنایا جاتا ہے لیکن یہ پڑھنا اسی وقت معتبر ہوگا جب قواعد تجوید کی رعایت بھی ہو، ورنہ نہیں۔ تینوں اندازِ تلاوت میں قراء کرام کے نزدیک اصل "تدویر" ہی ہے پنجگانہ خصوصاً جہری نمازوں میں اسے ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ قاری صاحب کا مزاج یہی ہے کہ ہر طالب علم کو تدویر میں تلاوت کرتے آنا چاہیے، ترتیل کی بھی مشق کراتے ہیں لیکن کم درجے میں۔ ترتیل کے بارے میں آپ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر طالب علم کو یہ انداز حاصل ہونا مشکل ہے جس طرح ہر طالب علم مُقرِّر نہیں ہوپاتا اسی طرح تجوید کا ہر طالبعلم بھی مُرتِّل نہیں ہو سکتا، آج اسی اندازِ ترتیل کو قاری ہونے کا معیار قرار دے دیا گیا، حالانکہ بہت سے قراء ہیں جو زیادہ خوش الحان اور اچھے لہجے والے نہیں ہیں لیکن انہیں اس فن میں مہارت حاصل ہے، انہوں نے سینکڑوں اچھے قرآن پڑھنے والوں کو تیار کیا ہے، اصل چیز فن کی معرفت ہے۔ 
خلاصہ یہ کہ تدویر اصل اندازِ تلاوت ہے، ترتیل طالب علم کا شوق ہے اور حدر اگر قواعد تجوید کے ماتحت ہو تو قابل قبول ہے ورنہ نہیں۔

فن تجوید کا عموم : 
      تجوید و قرأت کے فن کو طلبہ میں عام کرنے کے بارے میں قاری صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ شعبۂ حفظ، شعبۂ عالمیت کی طرح اسے بھی ایک مستقل شعبے "شعبۂ تجوید و قرأت" کی حیثیت دی جائے، جس میں کئی اساتذہ ہوں اور مدرسہ کے اوقات کے علاوہ خارج میں بھی طلبہ کو محنت کرنے کی ترغیب دی جائے، عادت بنائی جائے، تاکہ طلبہ پختہ حافظ، باصلاحیت عالم بننے کے ساتھ بہترین قرآن پڑھنے والا بھی بنیں۔

انتھک محنت کا اثر :
      قاری صاحب کی معہد ملت میں 2005 میں تشریف آوری ہوئی، راقم 2011ء میں فارغ التحصیل ہوا، مشاہدہ رہا کہ اُس وقت سے آپ مسلسل محنت کر رہے ہیں، صبح دوپہر دونوں شفٹوں میں روزانہ حفظ و عالمیت دونوں شعبوں کے سو ڈیڑھ سو (۱۰۰ - ۱۵۰) سے زائد طلبہ کو تجوید کے اسباق پڑھاتے ہوئے بآواز بلند مشق بھی کراتے تھے۔ اور آج اسی محنت کا یہ نتیجہ ہے کہ شہر کے کئی مکاتب میں معہد کے شعبۂ تجوید کے فیض یافتہ فارغین کو "معلم تجوید" کے طور پر بھی اولیت دی جا رہی ہے۔ والحمد للہ علی ذلک 
_____________________ 


ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

الحمدللہ
اللہ پاک اسے تسلسل و دوام بخشے۔