*مادر علمی معہد ملت؛ کیا دیکھا کیا پایا؟ [6]*
نعیم الرحمن ملی ندوی (استاذ جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں)
⬆️ گذشتہ سے پیوستہ... چھٹی قسط
=======================
_ اساتذۂ معہد ملت کے مؤثر طریقہائے تدریس _
(حصہ اول)
(۱) مولانا اشتیاق ضمیر ملی ندوی صاحب :
معہد ملت کے تمام ہی اساتذہ کو اپنی تدریس میں کامیاب کہا جاسکتا ہے لیکن ان میں دو اساتذہ کا طریقۂ تدریس "ذاتی تجربے" کی بنیاد پر بھی اور "فن تدریس" کے لحاظ سے بھی انتہائی مفید و مؤثر پایا اور بحیثیت طالب علم اس کے دیرپا فوائد و اثرات کا خوب احساس ہوتا رہا، ان میں ایک مولانا اشتیاق ضمیر ملی ندوی صاحب ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس پر سلسلہ وار کچھ روشنی ڈالی جائے۔
تدریس ایک فن :
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں _ 19/ تا 25/ نومبر 2019 کو "سات روزہ اورینٹیشن پروگرام برائے اساتذۂ مدارس" _ مرکزی موضوع " تدریس ایک فن" ورکشاپ ہوا تھا، اس ورکشاپ میں جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں کے استاذ کی حیثیت سے راقم بھی شریک تھا، پروگرام میں جامعہ کے استاذ مولانا جمال ناصر ندوی اور مہتمم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب بھی ساتوں دن بنفس نفیس شریک رہے۔ ورکشاپ میں لیکچرار *پروفیسر ڈاکٹر سید امان عبید* مانو کے قیمتی محاضرہ "مؤثر طریقہٴ تدریس" میں درج ذیل جائزہ پیش کیا گیا تھا۔
*مروجہ طریقہائے تدریس کا جائزہ :*
ان کی دو قسمیں ہیں؛
1) استاد مرکوز [Teacher Centered]
2) طلبہ مرکوز [Student Centered]
*استاد مرکوز طریقے:*
❶ Lecture Method.
بیان و لیکچر کا طریقہ
❷ Demonstration Method.
مظاہراتی طریقہ
❸ Team Teaching.
گروہی تدریس
❹ Source Method.
ماخذی طریقہ
❺ Journey Method.
سفر کا طریقہ
❻ Biographical Method.
سوانحی طریقہ
❼ Story Telling Method.
کہانی بیان کرنے کا طریقہ
❽ Direct Method.
براہ راست طریقہ
❾ Bi-lingual Method.
دو زبانی طریقہ
10) Translation Method.
ترجمہ کا طریقہ
11) Drill & Practice.
ڈرل اور پریکٹس
12) Deductive Method.
استخراجی طرز رسائی
13) Inductive Method.
استقرائی طرز رسائی
*طالبعلم مرکوز طریقے:*
❶ Laboratory Method.
لیبارٹری کا طریقہ
❷ Discussion Method.
بحث کا طریقہ
❸ Group Discussion.
گروپ ڈسکشن
❹ Panel Discussion.
پینل ڈسکشن
❺ Workshop Method.
ورکشاپ کا طریقہ
❻ Assignment Method.
تفویض کا طریقہ
❼ Computer Aided Instruction.
کمپیوٹر ایڈیڈ انسٹرکشن
❽ Personalized Instruction.
ون بائے ون پڑھانا
❾ Flipped Classroom.
تدریس معکوس
____________________
اس میں طالبعلم مرکوز طریقے میں بالکل آخری طریقے "❾ Flipped Classroom... تدریس معکوس " یہ خاص میتھڈ ہے مولانا اشتیاق ضمیر ملی ندوی دامت برکاتہم کا، یہ طریقہ کیا ہے؟
A flipped classroom flips, or reverses, traditional teaching methods.
آسان الفاظ میں
یہ طریقہ روایتی تدریسی طریقے کا الٹ ہے، روایتی طور پر استاد کلاس میں ایک موضوع پر درس دیتا ہے اور اس دن کے سبق کیلئے مفید ہوم ورک تفویض کرتا ہے۔ اور مذکورہ طریقے میں استاذ طالب علم سے اسباق حل کرواتا ہے اور جہاں ضرورت ہو رہنمائی کرتا جاتا ہے۔
یہ طریقہ استاذ گرامی کا طریقہ تھا اور پورے معہد میں سب سے الگ تصور کیا جاتا تھا، بہت سے طلبہ اس کو ذاتی طور پر ناپسند بھی کرتے تھے، ظاہر ہے اس طریقے میں زیادہ محنت طلبہ ہی کو کرنا ہوتا ہے، لیکن اس طریقۂ تدریس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ طالب علم میں غیر محسوس طور پر خود سے سبق حل کرنے کی اہلیت و صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور رفتہ رفتہ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ بڑی اور مشکل کتابیں بھی خود سے پڑھنا دشوار نہیں ہوتا۔
مولانا نے معہد میں "کفاک" پڑھایا، عربی ادب کے ساتھ فقہ کے موضوع پر بھی کتابیں پڑھائیں لیکن ہر کتاب میں آپ نے اس طریقے کی افادیت کے پیش نظر اسے اپنایا ہے۔
اندازِ تدریس :
آپ طلبہ سے عبارت خوانی کرواتے اور عربی افعال کے ماضی، مضارع، مصدر، باب، معنی دریافت کرتے۔ عربی اسماء کے واحد جمع کا سوال کرتے، جملہ اسمیہ ہو تو مبتدا، خبر اور انکے اعراب کی وضاحت اور جملہ فعلیہ ہو تو فعل، فاعل، مفعول کی نشاندہی اور انکے اعراب پوچھتے۔ اس طرح حلِّ عبارت کے بعد سبق کا ترجمہ کرواتے، اور تشریح خود کرتے۔ جو طلبہ اس کی تیاری کرکے نہ آتے ان کو کان پکڑ کر اٹھ بیٹھ کرنے کی سزا دیتے اور اپنے خاص انداز میں کہتے "کیا بے پڑھنے نہیں آیا، پہلوان بننے آیا ہے! صبح صبح اچھی ورزش ہورہی ہے" یہ جملہ گویا اب بھی ذہن میں گونج رہا ہے، اور ہونٹوں کی مسکراہٹ ہنسی میں تبدیل ہورہی ہے۔
اس طرز کا ذاتی فائدہ فقط ایک سال سے بھی کم عرصہ میں یہ ہوا تھا کہ مکتبہ معہد ملت میں موجود مصر میں پڑھائی جانے والی نصابی عربی کتب جو ابتدائی درجے ہی کی تھی انہیں حاصل کرکے پڑھنے کا شوق ہوا اور الحمدللہ اس طریقۂ تدریس کا فائدہ تھا کہ ان کتابوں کو سمجھنے اور حل کرنے کی اہلیت پیدا ہوتی گئی اور ایسی متعدد کتابیں سال کے آخر تک پڑھ لی تھی۔ اور آگے اب تک اس طریقے کی افادیت محسوس ہوتی ہے، عربی ہی نہیں دوسری زبانوں میں بھی اہلیت کے لئے یہ طریقہ کام آتا رہا، راقم نے اسکول چوتھی کلاس ہی پڑھی، اس کے بعد ۱۴ _ ۱۶ سال دینی تعلیم میں صَرف ہوئے، مراٹھی کے لئے جہاں بڑی مالیگاؤں کے مراٹھی ٹیچر "جناب ناصر سر" اور انگریزی کے لئے رہبر کوچنگ کے انگریزی ٹیچر "جناب اسحاق سر" سے کچھ عرصہ ٹیوشن لیا وہیں دونوں زبانوں کی ایک تا دسویں ، بارہویں کلاس کی نصابی کتب (Textbooks) اپنے طور سے اسی طریقے پر پڑھی اور اچھی کامیابی ملی۔
یہ کوئی اجنبی طریقہ نہیں :
یہ طریقہ اساتذہ اور طلبۂ مدارس کیلئے کوئی اجنبی طریقہ نہیں ہے بلکہ مدت سے چلا آرہا ہے، اسے اب بھی اپنانا چاہئے، اسلاف میں بڑی بڑی شخصیات نے اس کو اپنایا ہے، شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ، بانئ تبلیغ مولانا الیاسؒ وغیرہ بزرگوں نے بیشتر کتب اسی طرز پر پڑھی اور پڑھائی ہے۔ زیادہ دور نہیں ماضی قریب میں مولانا شمس العارفین، مولانا ابو سالم اور مولانا رافع الدین گروپ کو جس میں راقم بھی شامل تھا، زمانہ طالب علمی میں "عربی کا معلم" قاری شمس الضحیؒ صاحب نے اور قرأت سبعہ کی عربی کتاب "اتحاف البررۃ بالمتون العشرۃ" مولانا امتیاز اقبال صاحب نے اسی نہج اور اسی طریقے پر پڑھائی ہے۔
گروپ ڈسکشن (Group Discussion) :
یہ طریقہ کیا ہے؟
Group discussion is a child centered strategy, in which students are divided into groups and they are encouraged to discuss on the subject matter given. Group discussion is dominated by the teacher.
آسان الفاظ میں ____ گروپ ڈسکشن طلبہ مرکوز تدریسی حکمت عملی ہے، جس میں طلبہ کو گروپوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے، طلبہ استاذ کی زیر نگرانی دیئے گئے موضوعات پر آزادانہ گفتگو کرتے ہیں، باہم تبادلہ خیال ہوتا ہے، درمیان میں استاذ کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی بھی ہوتی رہتی ہے۔
مولانا موصوف اس طریقے کو ہفتے واری مشق "تدریب المحادثۃ العربیۃ : عربی گفتگو کی مشق" میں اپناتے تھے، طلبہ کو سوال کرنے اور جواب دینے کی تدریب کے دوران نئے عربی الفاظ اور ان کے استعمال کے مواقع بتاتے اور گرامر کی وضاحت کرتے ہوئے انہیں ذہن نشین کراتے تھے۔ اس طرح طلبہ جو باتیں ہفتہ بھر کتابوں میں پڑھتے آخر دن کی عملی مشق انہیں ذہن و دماغ میں پختہ کردیتی تھی۔
مولانا کی تدریس قدیم طلبہ کی نظر میں:
راقم الحروف اپنے ظرف کے مطابق ہی مولانا سے استفادہ کر سکا اور تھوڑے ہی تک نگاہ پہنچ سکی، یعنی مولانا سے چند سال ہی چند ہی کتابیں پڑھ سکا، لیکن ضروری معلوم ہوتا ہے کہ معہد کے جن ابنائے قدیم نے مولانا سے زیادہ قریب رہ کر استفادہ کیا "ان کی کہانی ان کی زبانی" بیان کی جائے چنانچہ ایسے لوگوں سے جو سنا اسے اور بطور خاص مولانا کے قریبی، چہیتے اور باصلاحیت شاگرد مولانا عبدالرشید ملی شافعی کے مشاہداتِ درس مختصراً پیش ہیں۔
(۱) حضرت الاستاذ عربی زبان وادب اور حلِّ کتاب کے متعلق اتنی زیادہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ طلبہ میں ایک جوش و ولولہ پیدا ہو جاتا تھا اور طلبۂ معہد دیوبند سے بڑی تعداد میں کتابیں خریدا کرتے تھے ان میں مولانا وحید الزمان صاحب کیرانوی کی ”القاموس الجدید “ سر فہرست ہوا کرتی تھی حتیٰ کہ ایک ایک کلاس کے تقریباً تمام ہی طلباء کے پاس حلِّ کتاب کے لئے اپنی اپنی ذاتی لغت ہوا کرتی تھی۔
(۲) مولانا کے نزدیک ششماہی وسالانہ امتحانات سے زیادہ اہم یہ تھا کہ طلبہ سال بھر محنت کریں اور آپ امتحان سے پہلے کہا کرتے تھے کہ امتحان قریب ہے اب عربی بول چال چھوڑنا نہیں ہے بلکہ اور بھی زیادہ بولنا ہے اس سے آپ کو امتحان میں بھی مدد ملےگی۔ اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ جو طلبہ سال بھر محنت کرتے ہیں انہیں امتحان کے دنوں میں محنت نہیں کرنی پڑتی۔ میں نے بذاتِ خود ان دونوں باتوں کا تجربہ کیا ہے، عربی بولنے اور سال بھر محنت کرنے کی وجہ سے امتحان کے دنوں میں کبھی محنت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، اور الحمد للّٰہ ہمیشہ اول اور کبھی پورے مدرسہ میں امتیازی نمبرات سے کامیابی ملتی رہی۔
(۳) مولانا کے طریقۂ تدریس کا اہم جزو یہ بھی تھا کہ آپ طلبہ کو لغات و معاجم سے تعلق مضبوط کرنے کی تلقین کرتے، میں (مولانا عبدالرشید) اس کی ایک مثال دیتا ہوں مولانا اپنی گفتگو میں اکثر ”بطلاقة وبساطة“ ان الفاظ کا استعمال کیا کرتے تھے ایک مرتبہ میں نے کہا ”يا فضيلة الأستاذ ما معنى الطلاقة والبساطة“ فتبسم ضاحكاً وقال: يا عبد الرشيد راجع إلى القواميس“ مولانا کے اس جملے نے مجھے بہت کچھ سکھایا، مولانا چاہتے تھے کہ طلبہ بذاتِ خود الفاظ ومعانی تلاش کریں، حتیٰ المقدور خود جدوجہد کریں اس کے بعد اشد ضرورت کے علاوہ کبھی مولانا سے استفسار کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
(۴) مولانا کا یہ بھی ایک وصف تھا کہ آپ صحیح جواب دینے پر انعام واکرام سے نوازا کرتے تھے، ہم نے مولانا سے جو کتابیں پڑھی ہیں ان میں سے ایک ”البلاغۃ الواضحۃ“ ہے، مولانا کا طریقۂ تدریس میں ایک اضافی چیز یہ ہوا کرتی تھی کہ مولانا البلاغۃ الواضحۃ میں آنے والے الفاظ، اشعار، بحث، اور تمرینات سے متعلق ایک ایک طالب علم سے بالترتیب سوال کرتے اور جو طالب علم صحیح جواب دیتا اسے انعام واکرام سے نوازتے، یہ انعام کیا ہوتا؟ ایک روپیہ یا دو روپے لیکن الحمد للّٰہ ہم سعادت سمجھ کر وہ روپیہ لیا کرتے تھے، اس سے ہوتا یہ تھا کہ جو طلبہ محنتی ہوتے ان میں مزید محنت کا جزبہ پیدا ہوتا تھا، ہم نے سنہ ۲۰۰۳ء میں مولانا سے بلاغت پڑھی ہے۔
(٥) درس وتدریس میں یہ بھی ایک چیز شامل ہوتی تھی کہ آپ ہر جمعرات کو اپنے گھنٹے میں طلبہ کو عربی بول چال کا موقع دیتے تھے اور بالخصوص وہ طلبہ جنہیں عربی سیکھنے کا شوق نہیں جنون ہوتا (ایسے طلبہ ہمیشہ کم ہی رہے) وہ اس موقع کو نعمت غیر مترقبہ سمجھتے اور انہیں لگتا کہ اس آدھے گھنٹے میں ہم زیادہ سے زیادہ محادثۃ کریں (یہ میرے جذبات ہیں اور میرے علاوہ دیگر محنتی طلبہ کے بھی یہی جذبات وتاثرات ہوں گے ان شاء اللہ) مولانا کا طریقہ یہ ہوتا کہ پہلے مرحلے میں جملہ طلبہ کو دو گروپ میں تقسیم کرتے اور محادثہ کرنے کے لئے کہتے، پھر دوسرے مرحلے میں دو طلبہ کو محادثہ کرنے کے لئے کہتے اور بسا اوقات خود بھی ایک ایک طالب علم کے ساتھ کلاس کے بیچ میں کھڑے ہوکر محادثہ کرتے، الحمد للّٰہ میں نے بھی مولانا کے ساتھ اس طرح محادثہ کیا ہے، اور پھر تیسرے مرحلے میں برجستہ عربی تقریر کرنے کے لئے کہتے، الحمد للّٰہ دوران طالب علمی بندہ نے یہ تینوں مرحلے طے کیے ہیں، اور عربی زبان وادب کی تدریس میں الحمد للّٰہ میرا بھی یہی طریقہ ہے۔
(٦) مولانا ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ بولنا بولنے سے، پڑھنا پڑھنے سے اور لکھنا لکھنے سے آتا ہے، اس لیے روزانہ کچھ نہ کچھ عربی بولا کرو اور فرماتے تھے ”خير العمل ما ديم عليه وإن قل“ روزانہ کچھ نہ کچھ عربی میں لکھتے رہو اور روزانہ عربی میں کچھ نہ کچھ پڑھا کرو۔ اور صرف نصیحت پر اکتفاء نہیں کرتے تھے بلکہ ہر جمعرات کو ایک ایک طالب علم سے پوچھتے: كم دقيقة تكلمت؟ اور طلبہ اپنی اپنی کارگزاری پیش کرتے، کبھی کبھی طلبہ کی کاپیاں چیک کرتے، مالیگاؤں کے روز نامچے اور ڈائریاں بہت مشہور تھیں مولانا ہی کی نصیحتوں کی وجہ سے میں انہیں خریدتا تھا اور عربی میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہتا تھا وہ روزنامچے آج بھی میرے پاس موجود ہیں۔
(٧) مولانا یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ہر طالب علم کو چاہیے کہ وہ کسی کو اپنا آئیڈیل بنائے (اور اسی اعتبار سے محنت کرے) اور اپنے بارے میں یہ کہا کہ میں نے عربی بولنے میں حضرت مولانا محمد حنیف ملی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا آئیڈیل بنایا تھا کہ میں بھی انہی کی طرح عربی بولوں گا، مولانا کے اس جملے کو کس نے کتنا سریس لیا میں نہیں جانتا البتہ مجھے اس ایک جملے سے مستقبل مل گیا، یہ بات سنہ ۲۰۰۰ء میں کفاک ثانی کے گھنٹے میں ہوئی تھی۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اپنے اساتذہ کی خوبیوں کو اپنانے اور اسے آگے بڑھانے کی مزید عطا فرمائیں۔ آمین
_____________________
تدریس سے دلچسپی رکھنے والے احباب "سات روزہ اورینٹیشن پروگرام برائے اساتذۂ مدارس" ورکشاپ کی روداد اور مفید چیزیں ٹیلی گرام چینل پر دیکھیں۔ لنک ⬇️↘️
https://t.me/Orientation_Program
یا راقم الحروف کا ڈی ایف کتابچہ *تدریس ایک فن* پیش ہے۔ ⬇️⬇️⬇️
0 تبصرے