تقوی دوستی" ہی نفع بخش



✍ نعیم الرحمن ملی ندوی
(استاذ جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں) 

     اللہ سبحانہ تعالٰی نے نبوت و رسالت کے بعد مقام ولایت رکھا، چونکہ اللہ پاک کسی بھی رشتے سے پاک ہیں اس لئے بندوں کیلئے اللہ سے تعلق کا انتہائی مقام "ولایت یعنی دوستی" ہی قرار دیا پایا، عقلمندی یہی ہے کہ ہم اپنی دنیا کی وقتی دوستی کو محبوبِ حقیقی کی دائمی دوستی کا ذریعہ بنائیں۔

اللہ پاک کی دوستی کیلئے دو بات : 
     اللہ پاک کی دوستی کیلئے فقط دو صفات مطلوب ہیں، ۱) ایمان اور ۲) تقوی ___ ایمان تو حاصل ہے، اس کے ساتھ حصولِ تقوی کی فکر و کوشش کرلی جائے تو اللہ سبحانہ تعالٰی کی دوستی ممکن ہے، ارشاد باری ہے؛
اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ ۞ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَكَانُوۡا يَتَّقُوۡنَؕ ۞
ترجمہ: یا درکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو *ایمان لائے، اور تقوی اختیار کیے رہے۔* (10 يونس، آیت 62-63)

دنیا داروں کی دوستی : 
     دنیا داروں کی آپسی دوستی کا نتیجہ کیسا بھیانک ہوگا اور انجام کیا ہوگا اسے واضح کردیا۔ ارشاد باری ہے؛
اَلۡاَخِلَّاۤءُ يَوۡمَئِذٍۢ بَعۡضُهُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الۡمُتَّقِيۡنَ ۞ 
ترجمہ: اس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، سوائے متقی لوگوں کے۔ (الزخرف: 67)

دوستی وہی ہے جو اللہ کے لئے ہو :
     اس آیت نے یہ بات کھول کر بتادی کہ یہ دوستانہ تعلقات جن پر انسان دنیا میں ناز کرتا ہے، جن کی خاطر حلال و حرام ایک کر ڈالتا ہے، قیامت کے روز نہ صرف یہ کہ کچھ کام نہیں آئیں گے بلکہ عداوت ودشمنی میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اور نیک و متقی دوست آخرت میں ایک دوسرے کے کام آئیں گے، ان کی دوستی اللہ تعالی باقی رکھتے ہوئے انکے رفع درجات کا وسیلہ بنائیں گے چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ نے اس آیت کے تحت حضرت علیؓ کا یہ ارشاد مصنف عبدالرزاق اور ابن ابی حاتم کی روایت سے نقل کیا ہے کہ *دو دوست مومن* تھے، مومن دوستوں میں سے ایک کا انتقال ہوا اور اسے جنت کی خوشخبری سنائی گئی تو اسے اپنا دوست یاد آیا، اس نے دعا کی کہ
 *یا اللہ، میرا فلاں دوست مجھے آپ کی اور آپ کے رسول کی اطاعت کی تاکید کرتا، بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا تھا اور یہ یاد دلاتا رہتا تھا کہ مجھے ایک دن آپ کے پاس حاضر ہونا ہے، لہٰذا یا اللہ، اس کو میرے بعد گمراہ نہ کیجئے گا تاکہ وہ بھی (جنت کے) وہ مناظر دیکھ سکے جو آپ نے مجھے دکھائے ہیں، اور آپ جس طرح مجھ سے راضی ہوئے ہیں اس سے بھی راضی ہوجائیں۔*
      اس دعا کے جواب میں اس سے کہا جائے گا کہ جاؤ، اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ میں نے تمہارے اس دوست کے لئے کیا اجرو ثواب رکھا ہے تو تم رؤو کم اور ہنسو زیادہ۔ اس کے بعد جب دوسرے دوست کی وفات ہوچکے گی تو *دونوں کی ارواح* جمع ہوں گی، باری تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ تم میں سے ہر شخص دوسرے کی تعریف کرے، تو ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بارے میں یہ کہے گا کہ یہ *بہترین بھائی، بہترین ساتھی اور بہترین دوست؛ نِعْمَ الْأَخُ، وَنِعْمَ الصَّاحِبُ، وَنِعْمَ الْخَلِيلُ* ہے۔
وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ، رضي الله عَنْهُ: ﴿الأخِلاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلا الْمُتَّقِينَ﴾ قَالَ: خَلِيلَانِ مُؤْمِنَانِ، وَخَلِيلَانِ كَافِرَانِ، فَتُوُفِّيَ أَحَدُ الْمُؤْمِنَيْنِ وَبُشِّرَ بِالْجَنَّةِ فَذَكَرَ خَلِيلَهُ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ، إِنْ فُلَانًا خَلِيلِي كَانَ يَأْمُرُنِي بِطَاعَتِكَ وَطَاعَةِ رَسُولِكَ، وَيَأْمُرُنِي بِالْخَيْرِ وَيَنْهَانِي عَنِ الشَّرِّ، وَيُنْبِئُنِي أَنِّي مُلَاقِيكَ، اللَّهُمَّ فَلَا تُضِلَّهُ بَعْدِي حَتَّى تُرِيَهُ مِثْلَ مَا أَرَيْتَنِي، وَتَرْضَى عَنْهُ كَمَا رَضِيتَ عَنِّي. فَيُقَالُ لَهُ: اذْهَبْ فَلَوْ تَعْلَمُ مَا لَهُ عِنْدِي لَضَحِكْتَ كَثِيرًا وَبَكَيْتَ قَلِيلًا. قَالَ: ثُمَّ يَمُوتُ الْآخَرُ، فَتَجْتَمِعُ أَرْوَاحُهُمَا، فَيُقَالُ: لِيُثْنِ أَحَدُكُمَا عَلَى صَاحِبِهِ، فَيَقُولُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا لِصَاحِبِهِ: *نِعْمَ الْأَخُ، وَنِعْمَ الصَّاحِبُ، وَنِعْمَ الْخَلِيلُ...........* رَوَاهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ. (معارف القرآن مفتی شفیعؒ)

    اسی لئے دنیا و آخرت دونوں کے لحاظ سے بہترین دوستی وہ ہے جو اللہ کے لئے ہو، جن دو مسلمانوں میں صرف *اللہ کے لئے محبت ہو، اللہ کے لئے آپس میں اصلاحی تعلق ہو،* ان کے بڑے فضائل حدیث میں آئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ *میدان حشر میں یہ لوگ اللہ کے عرش کے سایہ میں ہوں گے۔* 
    *اللہ کے لئے محبت* کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے سے اس بنیاد پر تعلق ہو کہ وہ اللہ کے دین کا سچا پیرو ہے، *متقی و پرہیزگار ہے، گناہوں سے بچنے والا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ہر معاملے میں لحاظ رکھنے والا ہے۔*

*تقویٰ کیا ہے؟*
       تقویٰ انسانی زندگی کی وہ صفت ہے جو تمام انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ ہے، اس کے لغوی معنی کسی شے سے دور رہنے، اس سے بچنے یا اسے چھوڑنے کے ہوتے ہیں۔ لیکن شرعاً تقویٰ کی تعریف میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ دل کی اس حالت کا نام ہے جس کی موجودگی میں انسان ہر اس فعل سے بچنے کی کوشش کرے جو اللہ پاک کو ناپسند ہو۔
     "تقوی مواخاۃ و اصلاح بھائی چارگی" اپنی اصلاح اور حصولِ تقوی کا بے حد مؤثر اور سہل ترین راستہ ہے جسے خود صحابہ کرامؓ نے اپنایا ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ایک جلیل القدر صحابی کا یہ قول امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے ”إجلس بنا نؤمن ساعة“ آؤ بھائی! تھوڑی دیر بیٹھ کر ذرا ایمان کی باتیں کر لیں، ایمان کا مزہ اٹھا لیں، ایمان کے جھونکے آئیں اور ہم اس سے لطف اندوز ہوں۔
وكان معاذ بن جبل رضي الله تعالى عنه يقول لرجل: [ اجلس بنا نؤمن ساعة ] وهذا الأثر علقه البخاري رضي الله عنه في الصحیح
     اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام ؓ کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی تو بعد والے کیوں کر اس سے مستغنی ہو سکتے ہیں؟ انہیں بھی اس کی ضرورت ہوگی۔
      مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا "واقعہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دور میں بھی ، کسی عمر میں بھی اور کسی حالت میں بھی استفادے سے بلکہ اصلاح سے مستغنی نہیں ہوتا۔"
      کسی صاحبِ تقوی مرشد و مربی سے اصلاحی تعلق ہو تب بھی، نہ ہو تب بھی، حصولِ تقوی کے لئے مواخاۃ و بھائی چارگی قائم کرنا تعلق مع اللہ اور محبت و معرفتِ الہی کی دولت پانے کے لئے مفید و مؤثر ذریعہ ہے۔
     یہ * کچھ بزرگوں کا عمل بھی رہا ہے، حضرت مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی دامت برکاتہم* لکھنؤ کے قیام میں اپنے سے اصلاح کا تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے درمیان یہی "تقوی مواخاۃ" قائم فرماتے تھے اور خود بیان میں فرماتے ہیں کہ *اس کا نفع بہت ہے اور بہت آسانی سے گناہوں اور نفس کے تقاضوں پر کنٹرول حاصل کیا جا سکتا ہے۔*

🌟 *تقوی بھائی چارگی کی مختصر تفصیل* 🌟

     دو دوست شعوری طور پر ایک معاہدہ کریں کہ 
1⃣ ہم اپنے اندر موجود اخلاقی کمزوریوں سے ایک دوسرے کو آگاہ کریں گے اور اس سے نجات پانے کی تدابیر اختیار کریں گے۔
2⃣ باہم کچھ مدت طے کریں اور کچھ گناہ چھوڑنے کا ہدف بنائے اور اس مدت میں گناہ سے نجات پانے کی ممکنہ کوششیں کرے، خصوصی دعائیں کرے، اسی طرح رفتہ رفتہ ایک ایک اخلاقی کمزوری و باطنی امراض کو ہدف بنانے اور اسے دور کرنے کے مستقل جدوجہد کرتے رہیں۔
3⃣ اگر ہمارا ایسا دوست دور ہو، روزانہ ملاقات نہ ہو سکے تو روزانہ یا چند دنوں میں عصر بعد یا عشاء بعد ان ایام میں سرزد ہونے والے گناہ بے تکلف بتادئیے جائیں، ڈائری میں لکھ کر، فون کر کے، یا سوشل میڈیا واٹسایپ میسیجنگ وغیرہ کرکے۔ (یہ اس وقت جب کہ درمیان میں فاصلہ ہو، اپنی اپنی مصروفیات ہوں۔ )
4⃣ کچھ اچھے عمل کی توفیق ہو اس سے بھی اپنے ساتھی کو آگاہ کرے تاکہ وہ عمل دوسرے کے لئے ترغیب کا باعث بنے ، دوسرا ساتھی بھی اسے اپنائے اور دوام و استقامت کی دعا کرے۔
روزانہ کچھ سنتوں پر عمل کی بھی کوشش ہو اور بتائے کہ الحمدللہ آج اتنی سنتوں پر عمل ہوا، اتنی مسنون دعاؤں اور مسنون اعمال کی توفیق ہوئی۔
اسی کے ساتھ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے کے حق میں اخلاص کے ساتھ غائبانہ دعا کرے، اور کوئی تدبیر ہو اصلاح کی اس سے باخبر کرے۔ دوسرے کے حق میں غائبانہ دعا کی حدیث پاک میں بڑی فضیلت ہے ، یہ دعا اپنے اور مدعو دونوں کے حق میں قبول ہوتی ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کی اپنے (مسلمان) بھائی کے حق میں غائبانہ دعا قبول ہوتی ہے، اس کے سر پر ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے دعائے خیر کرتا ہے، تو اس پر مقرر فرشتہ کہتا ہے، آمین (اے اللہ! اس کی دعا قبول فرما لے) اور اللہ تجھے بھی اس کی مثل دے۔ (مسلم باب فضل الدعاء بظھر الغیب، رقم: ۲۷۳۳)
تقوی والی دوستی و بھائی چارگی کا پہلا اور آخری اصول *خلوص، مکمل رازداری اور خیرخواہی* ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ 
ہم سب کا تزکیہ فرمادے اور اس کے لئے فکر و طلب پیدا فرما کر تمام ممکنہ جدوجہد کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
_____________________ 
اس مواخاۃ میں حصول تقوی ، تزکیۂ نفس اور اتباعِ سنت کے سلسلے میں مزید اہم باتیں جاننے کے لئے مضمون 
 *رذائل ، اخلاقی بیماریوں کا تعارف اور ان کے علاج کی آسان تدبیریں*
بلاگر پر اس لنک پر دیکھیں ⬇️➿⬇️



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے