#ذاتی ڈائری کے چند اوراق (2)
تبلیغی جماعت کا کام وحی کی روشنی سے مستفاد
نعیم الرحمن ندوی
آج بروز جمعہ ۲۲ ربیع الاول ۱۴۴۳ھ مطابق ۲۹ اکتوبر ۲۰۲۱ء، مسجد عثمان ابن عفانؓ میں جماعت کے ایک ساتھی بیان کر رہے تھے، بڑے پراثر لب و لہجے میں قیمتی باتیں بیان کیں، اسی درمیان کچھ اس طرح کی باتیں کہی کہ "آپ لوگ دعوت کے اس کام کی اہمیت کو سمجھیں، اس پر اعتماد کریں، اس سے جڑیں، یہ کوئی ایسا کام نہیں کہ بس ایک نظام بنا لیا گیا ہے بلکہ اس کی تنظیم و ترتیب میں قرآن و حدیث سے استفادہ کیا گیا ہے، علمائے کرام اس سے واقف ہیں، ان سے پوچھا جا سکتا ہے۔" اس کے بعد انہوں نے اپنی بات مکمل کی _________ اسی وقت ضروری معلوم ہوا کہ دو منٹ میں اس بات کی کچھ وضاحت کردوں، بیان مکمل ہوتے ہی راقم الحروف نے کھڑے ہوکر مختصراً وضاحت کی کہ دیکھئے! جماعت کے محترم ساتھی نے جو بات کہی ہیں وہ قابل غور بھی ہے اور حقیقت سے قریب بھی۔ اس کام کی بنیاد علماء ہی ہیں، بانئ تبلیغ حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ بھی خود ایک عالم دین تھے اور اہل علم و اہل تقوی سے مربوط تھے کیوں نہ وحی الہی سے استفادہ کرتے! یہ کام وحی کی روشنی سے خالی نہیں ہے، وقت تنگ ہے فقط ایک بات عرض ہے کہ اس دعوت و تبلیغ کے کام میں روزانہ کی ترتیب پر چوبیس گھنٹے میں سے ڈھائی گھنٹہ مانگا جاتا ہے اس کی بنیاد یہ حدیث معلوم ہوتی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ اگر تم لوگ دین کا دسواں حصہ چھوڑ دو تو ہلاک ہوجاؤگے لیکن بعد میں (آخری دور میں) جو مسلمان آئیں گے اگر وہ دین کے دسویں حصہ پر بھی عمل کر لیں تو نجات پاجائیں گے۔ یعنی دین کی نشر و اشاعت میں تم سے دس فیصد بھی کوتاہی ہوئی تو ہلاکت کا اندیشہ ہے لیکن آخری دور کے مسلمان دس فیصد بھی دعوت و تبلیغ کا فرض انجام دے لیں تو نجات ہوجائے گی۔
حدیث کی تفصیل :
یہ حدیث مشکوة میں باب الاعتصام بالکتاب والسنة میں موجود ہے، حدیث کے الفاظ ہیں: وعن أبی ہریرة - رضی اللہ عنہ - قال: قال رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم: ( إنکم فی زمان من ترک منکم عشر ما أمر بہ ہلک، ثم یأتی زمان من عمل منہم بعشر ما أمر بہ نجا، اس حدیث میں ما امر بہ سے مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے ۔ قال الملا علی القاری : (ما أمر بہ) أی: من الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر، إذ لا یجوز صرف ہذا القول إلی عموم المأمورات لأنہ عرف أن مسلما لا یعذر فیما یہمل من الفرض الذی تعلق بخاصة نفسہ․ ہکذا قالہ الشراح․ (مشکاة المصابیح مع مرقاة المفاتیح :۲۶۴/۱)۔
آج اس دور میں آخری زمانے کی علامات واضح ہیں، دین کی دعوت اور اصلاحی کوششیں ماند پڑ گئیں، فکرِ معاش نے ہماری دینی روح مار ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ شعر آج کے حالات میں ہم پر صادق آتا ہے؛
عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری، دے کے تجھے فکرِ معاش
چوبیس گھنٹوں میں سے ڈھائی گھنٹہ اس دین کی فکر اور اصلاح کی کوششوں کے لیے دعوت و تبلیغ کے نام پر مانگا جاتا ہے،صحابہ کرامؓ دین کے کاموں کے لئے گویا 24 گھنٹے وقف ہوتے تھے، آج کی زبان میں "تقاضے پر رہا" کرتے تھے، نبی علیہ الصلاۃ والسلام جس وقت، جس جگہ جانے کا تقاضا پیش فرماتے صحابہؓ جان و مال اور پورا وقت لیکر حاضر ہوجاتے۔ آج انہیں کی طرز پر، کچھ ان کی نقل اپنانے کے لیے دسواں حصہ مانگا جاتا ہے اس لیے اس کام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ضرور اس سے جڑنا چاہیے۔
(جمعہ میں تو اتنا ہی کہہ سکا لیکن روزنامچہ ڈائری لکھتے ہوئے کچھ مفید تفصیلات بھی آگئیں، پیش ہے۔)
چلّہ چار مہینہ :
اسی طرح چلّہ چار مہینہ بھی ہے کہ جیسے ماں کے پیٹ میں جسم انسانی میں تغیر و تبدل کے لیے قرآن و حدیث میں چالیس چالیس دن ذکر کیے گئے ہیں، تین چلّے یعنی چار مہینے میں بے جان جسم انسانی میں جان و روح پڑ جاتی ہے، ویسے ہی اگر طبیعتِ انسانی کو روحانی ماحول، مسجدوں میں قرآن وحدیث کی تعلیم میں لگایا جائے تو چالیس دنوں میں مزاج اور انسانی طبیعت میں بھی زبردست تبدیلی آتی ہے، یہاں تک کہ چار مہینے میں سنت و شریعت کی اتباع کا جذبہ اِتنا بیدار ہوتا اور عملی زندگی کا ایسا حصہ بن جاتا ہے کہ آنکھوں نے بارہا مشاہدہ کیا کہ " پینٹ شرٹ پہن کر بے داڑھی کا چہرہ لیے چار ماہ میں نکلے ہیں اور واپسی باریش چہرے، صلحاء کے لباس کرتے پاجامے میں ہورہی ہے۔ یہ اسی چلّے چار مہینے کی ترتیب کا اثر و نتیجہ ہے۔
تین دن، ہفتہ، عشرہ :
عہد نبوی کے آخر آخر میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد نبوی میں دین سیکھنے کے لئے وفود آیا کرتے تھے، آپ ﷺ انہیں تین دن، ہفتہ، عشرہ مسجد نبوی میں ٹھہراتے، لوگ دین اور اس کے اعمال سے واقف ہوتے، گھروں کو جا کر اپنے علاقوں میں دین زندہ کرتے، گویا اسی کی نقل ہے تین دن، ہفتہ، عشرہ وغیرہ
مسجدوں میں قیام اور تعلیم کے حلقے :
حضرت ابوہریرہؓ والی حدیث کہ مسجد نبوی میں میراثِ رسول ﷺ تقسیم ہو رہی ہے، سن کر مسلمان دوڑے چلے آئے، دیکھا تو مسجد میں تعلیم و تذکیر کے حلقے لگے ہوئے ہیں۔ تبلیغی جماعتوں کے لیے مسجدوں میں قیام اور تعلیم کے حلقے اسی کی یاد تازہ کرنے اور صحابہ کے طرز پر ایمانِ صحابہؓ حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
اصحاب صفّہ اور مدارس کے طلبہ :
ہم ذرا سا مسجدِ نبوی کے ایک گوشے میں نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اصحابِ صفہ کی بھی ایک جماعت ہے جو گویا 24 گھنٹہ دین سیکھنے سکھانے کے لیے وقف ہے، آج کے مدارس اور خانقاہ کا رشتہ اسی صفۂ نبوی ﷺ سے ملتا ہے۔
علماء وارثینِ نبی ﷺ :
مسجد نبوی کے امام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات، تمام دینی کاموں کی مرکز و منبع ہستی ہیں، علماء آپ ﷺ ہی کے ہر اعتبار سے وارث ہیں، ان کے کاموں پر بھی نظر گئی تو احساس ہوا کہ بیچارے آج کے زمانے میں تدریس اور تعلیم کی لائن سے مدارس و مکاتب میں لگ کر روزانہ کتنے زیادہ "ڈھائی گھنٹے" دے رہے ہیں اور جو لوگ امامت و خطابت سے بھی جڑے ہیں وہ تو گویا اپنے آپ کو دین کے لیے وقف کئے ہوئے ہیں، قلیل تنخواہوں پر لمبی لمبی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔ یہ علماء فقط "ڈھائی گھنٹہ" دے کر کسبِ معاش میں لگ جائیں تو نجات کے لئے کافی ہوگا اور مالدار بھی ہو جائیں گے لیکن پھر وارثِ نبی ﷺ ہونے کا حق کیسے ادا ہوگا؟ ____ نبی علیہ الصلوۃ والسلام تو ہمہ وقت دین ، آخرت کی فکر اور عمل میں لگے رہتے تھے، آپ ﷺ کے احوال حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے یوں بیان فرمایا : کان رسول اللہ ﷺ متواصل الأحزان دائم الفکرۃ لیست لہ راحۃ (المعجم الکبیرللطبرانی ،حدیث نمبر:۴۱۴) ترجمہ: آپ ﷺ مسلسل غمگین رہاکرتے تھے ، ہمیشہ امت کی فکر آپ پر طاری رہتی تھی ،آپ کو چین اورسکون نہیں تھا۔ یعنی حضور اقدس ﷺ ہمیشہ فکرمند اور سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر وقت آپ ﷺ پر کوئی غم چھایا ہوا ہے، آپ ﷺ کا کوئی لمحہ دعوتی فکرسے خالی نہ ہوتا تھا۔
علماء وارثینِ انبیاء کے مقام پر ہوتے ہوئے کیسی کیسی قربانیاں دیتے رہے ہیں، لیکن افسوس کہ اس کے باوجود علماء پر انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں، دین کے کاموں میں کوتاہی کا الزام دیا جاتا رہا ہے۔
کچھ ترمیم کے ساتھ بس "ایک شعر کا جوابِ شکوہ یا جوابِ شکایت" پیش ہے؛
پھر بھی علماء سے گلہ ہے کہ وفادار نہیں
گر وہ وفادار نہیں، امت بھی تو دلدار نہیں
آخری بات
بطور خلاصہ آخری بات یہ ہے کہ دعوت و تبلیغ کے اس کام میں اکابرینِ جماعت نے جس طرح قرآن وحدیث کو بنیاد بنایا تھا اسی طرح آج جو لوگ تبلیغ کا کام کر رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ بھی اگلوں کی طرز و منہاج پر قرآن و حدیث کی روشنی ہی میں یہ کام کریں اور ایسی چیزیں جو خلاف شریعت ہیں ان سے اپنے آپ کو بچائیں۔
0 تبصرے