مطالعاتی رجحانات اور چند تجربات



مطالعاتی رجحانات اور چند تجربات

      طلبِ علم کے زمانے میں عموماً مختلف مراحل میں اذواق میں اتار چڑهاؤ آتا رہتا ہے، مطالعے کی ترجیحات بدلتی ہیں اور میلانات میں تغیر آتا ہے، علمی میدان میں یہ کیفیات لازم بهی ہیں، بعض اسباب کی بنا پر ارتقا کے لئے ناگزیر بهی، اور ایک پہلو سے عطیہ خداوندی اور امانت الہی بهی، ضروری نہیں کہ زندگی کے کسی اور دور میں دماغی کینوس پر کوئی خیال پهر ابهرے، اس لئے مواقع کی ناقدری علمی ترقی کی راہ میں ایک خلا پیدا کردیتی ہے۔
        اس نوعیت کے ذہنی التفات کی صورت میں چند بنیادی امور ملحوظ رہنے چاہئیں:
۱- سب سے پہلے ٹهنڈے دل ودماغ سے اس رجحان کا جائزہ لیا جائے، شرعی حدود سے متصادم ہو تو پختہ عزم کے ساتھ خیال کو جهٹک کر ذہن کو یکسو کر لیاجائے، حدودِ شرع کا پاس ولحاظ اور لایعنی امور سے اجتناب ہر مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے۔
۲- نفسیاتی کیفیت سے فائدہ اٹهاکر موضوع کی منتخب وچنیدہ کتب کا مطالعہ کرلیا جائے، اس سلسلے میں فن سے دلچسپی رکهنے والے اہلِ علم کے ذاتی تجربات سے آگاہی پاکر ان سے فائدہ اٹهایا جائے، ترجیحات میں اذواق کے اختلاف کا اثر بدیہی چیز ہے۔
۳- وسعت ہو تو اس موضوع کے بنیادی مآخذ قرار دی گئی کتابیں خرید لی جائیں، بعض کتب عمر بهر کام دیتی ہیں، اس مرحلے میں نہ خریدی جائیں تو اگرچہ وقتاً فوقتاً ان کے حصول کا احساس بیدار ہوتا رہتا ہے، لیکن کبهی جیب اجازت نہیں دیتی تو کبهی اور رکاوٹیں آڑے آجاتی ہیں۔
۴- اگر موضوع کا تعلق تعلیمی نصاب سے نہ ہو تو اسے ایسا غلبہ نہ ملنے پائے کہ نصابی سرگرمیوں میں حرج ہونے لگے، ایک فرض شناس طالبِ علم کے نزدیک نصابی ضروریات مقدم اور دیگر امور ثانوی درجے کی حیثیت رکهتے ہیں، بصورتِ دیگر تجربہ یہی ہے کہ زمانہ طلب کی کمزوریاں بعد میں دور کرنا ناممکن تو نہیں، مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔
هذا ما أرى والعلمُ عند الله جلّ وعلا!
منقول از محمد ياسر عبدالله

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے