شکرگزار بندے کم ہی ہیں



شکرگزار بندے کم ہی ہیں 
نعیم الرحمن ندوی 

شکر کی حقیقت اور اس کے احکام
قرطبی نے فرمایا کہ شکر کی حقیقت یہ ہے کہ اس کا اعتراف کرے کہ یہ نعمت فلاں منعم نے دی ہے اور پھر اس کو اس کی اطاعت ومرضی کے مطابق استعمال کرے، اور کسی کی دی ہوئی نعمت کو اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرنا ناشکری اور کفران نعمت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شکر جس طرح زبان سے ہوتا ہے اسی طرح عمل سے بھی شکر ہوتا ہے، اور عملی شکر اس نعمت کا منعم کی اطاعت ومرضی کے مطابق استعمال ہے اور ابو عبدالرحمن اسلمی نے فرمایا کہ نماز شکر ہے، روزہ شکر ہے اور ہر نیک کام شکر ہے، اور محمد بن کعب قرظی نے فرمایا کہ شکر تقویٰ اور عمل صالح کا نام ہے، (ابن کثیر)۔

اللہ کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ
نماز تہجد ان عبادات میں سے ہے جو اللہ کی بھرپور نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ ہمارے پیارے نبیﷺ راتوں کو اتنا قیام کیا کرتے تھے کہ ان کے قدم سُوج جایا کرتے تھے، اور یہ فرمایا کرتے تھے: أفلا أحبُّ أن أكون عبدًا شَكورًا؟ (رواه البخاری)
ترجمہ : کیا میں (تہجد کی صورت میں) اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

شکر گزار خاندان کی بنیاد
قیام اللیل کی ادائیگی میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہئے۔ جس طرح دنیاوی معاملات میں دونوں ایک دوسرے کے معاون ومددگار بنتے ہیں اسی طرح دینی کاموں میں بھی ایک دوسرے کا شریک وسہیم ہونا چاہئے۔

‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِي وَجْهِهَا الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏رَحِمَ اللَّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَبَى نَضَحَتْ فِي وَجْهِهِ الْمَاءَ.
ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحم فرمائے اللہ تعالی اس بندے پر جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو جگاتا ہے۔ اگر وہ انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتا ہے۔ اور رحم فرمائے اللہ تعالی اس بندی پر جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتی ہے اور اپنے شوہر کو جگاتی ہے۔ اگر وہ انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتی ہےـ (سنن ابوداؤد)


داؤد علیہ السلام کا شکر گزار خاندان
آل داؤد کو اللہ پاک نے عملی شکر گزاری کا حکم دیا تھا : اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُكۡرًا ؕ وَقَلِيۡلٌ مِّنۡ عِبَادِىَ الشَّكُوۡرُ‏.
ترجمہ: اے داؤد کے گھر والو ! تم ایسے عمل کیا کرو جن سے شکر گزاری ظاہر ہو اور میرے بندوں میں کم لوگ ہیں جو شکر گزار ہوں۔
سبإ: 13

(آیت) اعملوا آل داؤد شکراً و قلیل من عبادی الشکور، حضرت داؤد سلیمان (علیہما السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے نوازا اور مخصوص انعامات عطا فرمائے، ان کا بیان فرمانے کے بعد ان کو مع ان کے اہل و عیال کے شکر گزاری کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے۔

آیت مذکورہ میں قرآن حکیم نے حکم شکر کے لئے مختصر لفظ اشکرونی کے بجائے اعملوا شکراً استعمال فرما کر شاید اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ آل داؤد سے مطلوب شکر عملی ہے، چناچہ اس حکم کی تعمیل حضرت داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) اور ان کے خاندان نے قول و عمل دونوں سے اس طرح کی کہ ان کے گھر میں کوئی وقت ایسا نہ گزرتا تھا جس میں گھر کا کوئی فرد اللہ کی عبادت میں نہ لگا ہوا ہو۔ افراد خاندان پر اوقات تقسیم کردیئے گئے تھے۔ اس طرح حضرت داؤد ؑ کا مصلیٰ کسی وقت نماز پڑھنے والے سے خالی نہ رہتا تھا۔ (ابن کثیر)
بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نمازوں میں اللہ کے نزدیک محبوب تر نماز داؤد ؑ کی ہے، وہ نصف رات سوتے تھے پھر ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے تھے، پھر آخری چھٹے حصہ میں سوتے تھے اور سب روزوں میں محبوب تر اللہ کے نزدیک صیام داؤد ؑ ہیں کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ (ابن کثیر)
حضرت فضیل سے منقول ہے کہ جب حضرت داؤد ؑ پر یہ حکم شکر نازل ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا اے میرے پروردگار میں آپ کا شکر کس طرح پورا کرسکتا ہوں جب کہ میرا شکر قولی ہو یا عملی وہ بھی آپ ہی کی عطا کردہ نعمت ہے، اس پر بھی مستقل شکر واجب ہے۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایاالان شکرتنی یا داؤد، یعنی اے داؤد اب آپ نے شکر ادا کردیا، کیونکہ حق شکر ادا کرنے اپنے عجز و قصور کو سمجھ لیا اور اعتراف کرلیا۔
حکیم ترمذی اور امام ابوبکر جصاص نے حضرت عطاء بن یسار سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اعملوا آل داؤد شکراً تو رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور اس آیت کو تلاوت فرمایا پھر ارشاد فرمایا کہ تین کام ایسے ہیں کہ جو شخص ان کو پورا کرلے تو جو فضیلت آل داؤد کو عطا کی گئی تھی وہ اس کو بھی مل جائے گی۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ وہ تین کام کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ رضا اور غضب کی دونوں حالتوں میں انصاف پر قائم رہنا، اور غنا اور فقر کی دونوں حالتوں میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا، اور خفیہ اور علانیہ دونوں حالتوں میں اللہ سے ڈرنا۔ (قرطبی احکام القرآن، جصاص)
وقلیل من عبادی الشکور، شکر کے حکم اور تاکید کے بعد اس واقعہ کا بھی اظہار فرما دیا کہ میرے بندوں میں شکر گزار کم ہی ہوں گے۔ اس میں بھی مومن کے لئے تنبیہ اور تحریض ہے شکر پر۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے