نماز تہجد کی اہمیت و فضیلت



نماز تہجد کی اہمیت و فضیلت 
پیشکش: نعیم الرحمن ندوی 

قیام اللیل کے متعلق نبی ﷺ کو دی گئی ہدایات 
قیام اللیل کا وقت اور اس کی تاثیر  
نماز تہجد میں تلاوتِ قرآن کا خاص انداز 
فہم قرآن سے اس کی مناسبت

يٰۤاَيُّهَا الۡمُزَّمِّلُ ۞ قُمِ الَّيۡلَ اِلَّا قَلِيۡلًا ۞ نِّصۡفَهٗۤ اَوِ انْقُصۡ مِنۡهُ قَلِيۡلًا ۞ اَوۡ زِدۡ عَلَيۡهِ وَرَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِيۡلًا ۞ اِنَّا سَنُلۡقِىۡ عَلَيۡكَ قَوۡلًا ثَقِيۡلًا‏ ۞ اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيۡلِ هِىَ اَشَدُّ وَطۡـاً وَّاَقۡوَمُ قِيۡلًا ۞ اِنَّ لَـكَ فِى النَّهَارِ سَبۡحًا طَوِيۡلًا ۞ المزمل: 1-7
ترجمہ: اے چادر میں لپٹنے والے۔ رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی رات میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ، یا آدھے سے کچھ کم کرلو۔ یا اس سے کچھ زیادہ کرلو، اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔ بیشک رات کے وقت اٹھنا ہی ایسا عمل ہے جس سے نفس اچھی طرح کُچْلا جاتا ہے، اور بات بھی بہتر طریقے پر کہی جاتی ہے۔ دن میں تو تم لمبی مصروفیت میں رواں دواں رہتے ہو۔

     ان آیت میں آپ ﷺ کو تہجد کی نماز کا حکم دیا گیا ہے، اکثر مفسرین کے مطابق شروع میں تہجد کی نماز نہ صرف آنحضرت ﷺ پر ؛ بلکہ تمام صحابہؓ پر فرض کردی گئی تھی، اور اس کی مقدار کم سے کم ایک تہائی رات مقرر فرمائی گئی تھی، یہ فرضیت بعض روایات کی رو سے سال بھر تک جاری رہی، بعد میں اسی سورت کی آیت نمبر 20 نازل ہوئی جس نے تہجد کی فرضیت منسوخ کردی۔

قیام لیل کی حکمت:
      مہبط وحی محمد عربی ﷺ کو رات کو نماز میں قرآن مجید پڑھنے کا حکم دیا جا رہا ہے جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے سے انسان کے لیے اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانا آسان ہوجاتا ہے۔ اور رات کے وقت میں چونکہ شور و غل نہیں ہوتا، اس لیے تلاوت اور دعا ٹھیک ٹھیک اور حضور قلب کے ساتھ ادا ہوتی ہیں۔ دن کے وقت یہ فائدے کم ہوتے ہیں۔
     اللہ تعالیٰ نے حکمت بتائی ہے اس بات کی کہ آپ ﷺ کو قیام لیل کا یہ حکم کیوں دیا گیا۔ فرمایا کہ اس لیے کہ یہ وقت سکونِ قلب و دماغ کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور فہمِ قرآن کے لیے سب سے زیادہ سازگار و مددگار ہے۔
     آیت میں آنحضرت ﷺ کو ایک ایسے لفظ سے مخاطب فرمایا گیا ہے جس سے آپ کی وہ تصویر سامنے آتی ہے جو اس اندرونی کیفیت کی غماز ہے جو سورہ کے زمانۂ نزول میں آپ ﷺ پر بیشتر طاری رہتی تھی۔
       مُزّمّل‘ کے معنی اپنے اوپر چادر لپیٹے رکھنے والے کے ہیں۔ یہ حالت بالعموم ایسے شخص کی ہوتی ہے جو سامنے کے حالات سے فکرمند اور گِرد و پیش کے لوگوں کے رویہ سے بددل ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ایک ایسے عذاب سے ڈرا رہے تھے جو ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا لیکن لوگوں کی بے گانگی و بے زاری بڑھتی جا رہی تھی ایسے حالات میں آپ ﷺ کا متفکر و مغموم رہنا ایک فطری امر تھا اور فکر و غم کی حالت میں آدمی کی چادر، اس کی بہترین غم گسار ہوتی ہے۔ وہ اس میں لپٹ کر جب چاہتا ہے خلق سے منقطع اور خالق سے متصل ہو جاتا ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ چادر اہل عرب کے لباس کا ایک نہایت اہم جزو بھی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ چادر رکھتے بھی تھے۔
      یہ بات قرآن میں جگہ جگہ ملتی ہے کہ دعوت کی راہ میں جب آپ ﷺ کو مشکلات و مصائب سے سابقہ پڑا ہے اور آپ ﷺ اس صورت حال سے فکر مند رہنے لگے ہیں تو آپ ﷺ کے عزم و حوصلہ کو مضبوط اور پریشانی کودور کرنے کے لیے نماز بالخصوص تہجد کی نماز کی تاکید فرمائی گئی ہے۔

تہجد میں قرآن کی تلاوت کا طریقہ :
      وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا‘ یہ قرآن کے پڑھنے کا طریقہ بتایا گیا کہ نماز میں بطور خاص تہجد کی نماز میں اس کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ چنانچہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ قرآن لحن اور لَے سے پڑھتے، آیت آیت پر وقف فرماتے، کبھی کبھی ایک ہی آیت شدت تاثر میں بار بار دہراتے، کوئی آیت قہر و غضب کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے غضب سے پناہ مانگتے اور جو آیت رحمت کی ہوتی اس پر ادائے شکر فرماتے۔ بعض آیتیں جن میں سجدہ کا حکم یا اشارہ ہے ان کی تلاوت کے وقت، فوری امتثال امر کے طور پر آپ ﷺ سجدہ میں بھی گر جاتے۔
      تلاوتِ قرآن کا یہی طریقہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق بھی ہے اور یہی نبی ﷺ سے ماثور و منقول بھی ہے۔ قرآن کے مقصدِ نزول کے پہلو سے بھی یہی طریقہ نافع ہو سکتا ہے لیکن مسلمانوں میں یہ طریقہ صرف اس وقت تک باقی رہا جب تک وہ قرآن کو فکر و تدبُّر کی چیز اور زندگی کی رہنما کتاب سمجھتے رہے۔ بعد میں جب قرآن صرف حصولِ ثواب اور ایصالِ ثواب کی چیز بن کے رہ گیا تو یہ اس طرح پڑھا جانے لگا جس کا مظاہرہ ہند و پاک میں تراویح اور شبینوں میں ہوا کرتا ہے۔
      ہمیں قرآن کو مسنون طریقے پر ہی پڑھنے کی طرف واپس آنا چاہیے، تب ہی ہم قرآن سے ہدایت پاسکیں گے۔

شب خیزی کی تاثیر :
      اَشَدُّ وَطْاً" یہ اس وقت اٹھنے کی تاثیر بتائی ہے کہ جب آدمی اس وقت بستر سے اٹھ کر، وضو کرکے، نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو اس کے قدم خوب جمتے ہیں۔ قدم خوب جمنا دماغ کی یکسوئی، دل کے اطمینان اور عقل کی بیداری کی تعبیر ہے۔ اگر دماغ پریشان اور قلب بے سکون ہو تو آدمی کے قدم نہیں جمتے، کوئی بڑا کام تو درکنار وہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی دلجمعی سے نہیں کرسکتا۔ گویا یہاں ظاہر سے ان کے باطن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بعض مفسرین نے اس کے یہ معنی لیے ہیں کہ اس وقت اٹھنا نفس کو اچھی طرح کچلنے والا ہے۔ اگرچہ الفاظ میں اس معنی کی بھی گنجائش ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ثباتِ قدم درحقیقت قلبی و عقلی یکسوئی و دلجمعی کی تعبیر ہے۔

       وَّاَقْوَمُ قِیْلًا" یعنی یہ وقت چونکہ دماغ کے سکون اور دل کی بیداری کا خاص وقت ہے اس وجہ سے زبان سے جو بات نکلتی ہے تیربہدف اور ’ازدل خیزد بردل ریزد‘ کا مصداق بن کر نکلتی ہے۔ آدمی خود بھی اس کو اپنے دل کی گواہی کی طرح قبول کرتا ہے اور دوسرے سننے والوں کے دلوں پر بھی اس کی تاثیر بے خطا ہوتی ہے۔ جنات کا جو واقعہ سورۂ جن میں بیان ہوا ہے روایات اور قرائن دونوں سے ثابت ہے کہ انھوں نے تہجد ہی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھتے سنا اور اس درجہ متاثر ہوئے کہ نہ صرف اس پر ایمان لائے بلکہ اپنی قوم کے اندر اس کے داعی بن کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم انسان کے دل کو بھی اسی طرح کے ایک واقعہ نے فتح کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تہجد میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق تلاوت قرآن صرف اپنے ہی نفس کے تہذیب و تزکیہ کے لیے نہیں بلکہ بعض اوقات دوسروں کے ارواح و قلوب کو زندہ کر دینے کے لیے بھی ندائے غیب کی حیثیت رکھتی ہے خواہ وہ جنوں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے۔

قیام لیل کا وقت :
       قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا ہ نِّصْفَہٗٓ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا ہ اَوْ زِدْ عَلَیْہِ‘۔ رات سے یہاں ظاہر ہے کہ رات کا نصف آخر ہے، جب آدمی کچھ سو چکنے کے بعد اٹھتا ہے۔ اس کی وضاحت ’نَاشِئَۃَ الَّیْلِ‘ کے لفظ سے ہو رہی ہے۔ نَاشِئَۃٌ‘ ’نشأ‘ سے، جس کے معنی اٹھنے کے ہیں ’عَاقِبَۃٌ‘ اور ’عَافِیَۃٌ‘ کے وزن پر مصدر یا حاصل مصدر ہے۔ ’نَاشِئَۃَ الَّیْلِ‘ کے معنی ہوں گے قیام لیل یا شب خیزی۔ اس لفظ ہی سے یہ بات نکلی کہ تہجد کا وقت درحقیقت شب میں کچھ سو کر اٹھنے کے بعد یعنی پچھلے پہر کا ہے۔ اس وقت اٹھنا اگرچہ اس اعتبار سے ایک مشکل کام ہے کہ اس وقت کی نیند بہت محبوب ہوتی ہے لیکن *اس امتحان میں انسان اگر کامیاب ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی کتاب کے سمجھنے کے لیے اس سے زیادہ بابرکت وقت اور کوئی نہیں ہے۔* اللہ تعالیٰ جس کو اس ساعت میمون میں بستر سے اٹھنے کی توفیق دیتا ہے اول تو اس کو اپنے نفس کی خواہشوں پر غلبہ پانے کی ایسی قوت حاصل ہو جاتی ہے جو اس کے لیے اصلاح نفس کی راہ میں فتوحات کے بے شمار دروازے کھول دیتی ہے ثانیاً اللہ تعالیٰ نے، جو رات اور دن کو وجود میں لانے والا ہے، اس وقت کو اپنی رحمتوں کے نزول کے لیے مخصوص فرمایا ہے جن کے دروازے اس کے ان بندوں کے لیے کھلتے ہیں جو اس کی قدر و قیمت پہچانتے اور اس وقت اس کے دروازے پر سائل بن کر حاضر ہوتے ہیں۔
      تہجد کے لیے یہی وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ثابت ہے اور یہی اصل مقصد کے اعتبار سے سب سے زیادہ بابرکت بھی ہے۔ یہ وقت رات کے نصف کے بقدر بھی ہو سکتا ہے، اس سے کچھ کم بھی ہو سکتا ہے اور اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ شب کے پچھلے پہر میں اٹھنا ایک کٹھن کام ہے، اس میں دیر سویر کے ہوجانے کا امکان ہے، اس وجہ سے وقت کے معاملے میں وسعت رکھی گئی ہے تاکہ زیادہ مشقت کا موجب نہ ہو۔ اگرچہ الفاظ قرآن سے پوری نصف شب کے قیام کا اولیٰ ہونا نکلتا ہے لیکن کمی بیشی کی گنجائش الفاظ میں موجود ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے