یوم جمہوریہ کو جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں پروگرام اور تعلیمی و تفریحی ٹِرِپ
January 26, 2019
چھبیس جنوری کی صبح جامعہ میں اساتذہ نے یومِ جمہوریہ کی مناسبت سے طلباءِ جامعہ کے درمیان خطاب کیا۔ مولانا محمد اطہر ندوی صاحب نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ کے درمیان فرق کو واضح کیا اور بہترین تعبیر اختیار کی، کہا کہ 15/ اگست یومِ آزادی ہے جس دن ہم اہل وطن نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی اور 26/ جنوری یومِ جمہوریہ ہے جس دن ہم نے انگریزوں کے قانون سے آزادی حاصل کی (گرچہ ہمارا ملک اب بھی اسی ظالم و جابر اور عیار قوم کا غلام بنا ہوا ہے، اس کی تہذیب و کلچر کو اپنے دامن سے لگائے ہوئے ہے، ہمارا بھارت کا آئین بھی بیشتر انگریزی دور کے قوانین پر مشتمل ہے، دورانِ سفر مہتممِ جامعہ مولانا جمال عارف صاحب نے اس کی متعدد مثالیں پیش کی۔) پروگرام سے فارغ ہونے کے بعد طلبائے جامعہ، اساتذہ کرام کی رہنمائی میں بذریعہ winger گاڑی، گرنا ڈیم روانہ ہوئے، چونکہ تعطیلات میں تعلیمی ودعوتی اسفار جامعہ کی اہم خصوصیات میں شامل ہے۔
گرنا ڈیم پہنچنے کے بعد تمام طلباء کو اساتذہ و مہتممِ جامعہ نے گرنا ڈیم سے متعلق دیواروں پر چسپاں نقشہ جات پر متعلقہ معلومات فراہم کی۔
اس کے بعد طلبہ نے چند گھنٹے کھیل میں گزارے جس میں اساتذہ بھی شریک رہے، یہاں سے فارغ ہو کر ڈیم کے ساحل پر سبھوں نے اپنا کچھ وقت گزارا۔
ڈیم کے ساحل پر بیٹھے اس کی لہروں سے اٹھنے والے سریلے ساز و آواز سے لطف اندوز ہوتے رہے، موسم بھی خوشگوار و فرحت بخش تھا، ہلکی دھوپ میں سطحِ آب سے مَس ہو کر آنے والے ٹھنڈی ہوا مزے کو دوبالا کر رہی تھی، گرچہ ڈیم کا کنارہ دعوتِ تیراکی دے رہا تھا، ہمارا محتاط رہنا اسے کھَل رہا تھا، گویا کہہ رہا تھا۔
اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
یہ لوگ ابھی تک ساحل سے *گرنا ڈیم* کا نظارہ کرتے ہیں
لیکن یہ موجِ بلا کب موجِ حوادث میں تبدیل ہوجائے اس کا اعتبار نہیں، ان سے دوری بنائے رکھنے ہی میں عافیت محسوس ہوئی، خاموش نظروں سے خدا کی تخلیق کردہ چیزوں کا مشاہدہ {فَاعۡتَبِـرُوۡا يٰۤاُولِى الۡاَبۡصَارِ: لہذا اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو۔} کے نقطہ نظر سے کرنے لگے، کلامِ الٰہی کی طرف توجہ ہوئی تو بہت سی آیات کریمہ زبان پر آکر فکر و نظر کو جلا بخشتی رہی۔ چونکہ کائنات اللہ پاک کے کلام ہی کی تفسیر ہے، یہ کائنات صاحبِ کلام کی تخلیق کردہ شئے ہے، اسی لئے قرآن میں بار بار کائنات میں غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے۔
کچھ وقت گزارنے کے بعد یہاں سے ہم نے ڈیم سے متصل مچھلی بازار کا رخ کیا اور بازار بھاؤ معلوم کرتے ہوئے مچھلیاں خریدیں، طلبہ بھی تھک چکے تھے، مچھلیاں بنوانے کے لئے دے کر نماز ظہر ادا کیا، تب تک دسترخوان بھی سج چکا تھا، بھوک بھی چمک گئی تھی، ایسا خوشگوار موسم، ایسی کھلی جگہوں پر کھیل کود کر تھکنے کے بعد اگر تازہ تلی، بھنی مچھلیوں کا تکّا، سالن، باجرہ کی روٹیاں ہوں تو پھر کیا پوچھنا! تمام ساتھیوں نے شکم سیر ہوکر کام و دہن کا خوب لطف اٹھایا۔
قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِيۡنَةَ اللّٰهِ الَّتِىۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِؕ قُلۡ هِىَ لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا خَالِصَةً يَّوۡمَ الۡقِيٰمَةِؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ.
کھانے سے فارغ ہو کر عصر کی نماز پڑھ کر بعافیت واپسی ہوئی۔
➖➖➖➖
سفر میں طلبہ کے درمیان تعلیم و تربیت کی لائن سے جو باتیں ہوئیں، ان میں انہیں بطور خاص متوجہ کیا گیا کہ دیکھئے! یہ گرنا ڈیم جسے چھوٹا سا سمندر کہہ لیجئے، کتنے کام کرتا ہے، کتنے لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پوری کرتا ہے؟ اس ڈیم کے اطراف کے تمام شہروں، گاؤں، دیہات کے لئے میٹھے پانی کی ضروریات اسی سے پوری ہوتی ہیں، ڈیم میں مچھیرے مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں، مچھلی بازار کے دکانداروں کو فروخت کرتے ہیں ہم ان سے مچھلیاں خرید کر چھوٹے چھوٹے کھانا ولوں میں بنوا کر کھاتے ہیں، کتنے لوگوں کی روزی روٹی و معاش کا انتظام ہو جاتا ہے، انسانوں کے لئے تازہ مچھلیاں بہترین غذا ہے، جسے شوق سے کھایا جاتا ہے اور ہم نے بھی اسے خوب کھایا ہے، اسی طرح ان پانی کے ذخیروں اور سمندروں سے موتی نکالے جاتے ہیں جن سے زیورات بنائے جاتے ہیں، دنیا کی بڑی نہروں اور آبی گذرگاہوں جیسے نہر سوئیز، آبنائے ہرمز، آبنائے باسفورس وغیرہ میں تجارتی سامان سے لبریز، بڑی بڑی مال بردار کشتیاں چلتی ہیں جن سے انسان تجارتی فوائد حاصل کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان سمندروں کو، پانی کے اتنے بڑے بڑے ذخیروں کو کس نے اپنی قدرت سے بنایا، کس نے ان کو کام پر لگایا اور کیوں بنایا؟
اللہ پاک اپنے کلامِ پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:
وَهُوَ الَّذِىۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡكُلُوۡا مِنۡهُ لَحۡمًا طَرِيًّا وَّتَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡهُ حِلۡيَةً تَلۡبَسُوۡنَهَاۚ وَتَرَى الۡـفُلۡكَ مَوَاخِرَ فِيۡهِ وَلِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ.
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے سمندر کو کام پر لگایا، تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے وہ زیورات نکالو جو تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ اس میں کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں، تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو، اور تاکہ شکر گزار بنو۔ (النحل - آیت نمبر 14)
وَمَا يَسۡتَوِىۡ الۡبَحۡرٰنِ ۖ هٰذَا عَذۡبٌ فُرَاتٌ سَآٮِٕغٌ شَرَابُهٗ وَ هٰذَا مِلۡحٌ اُجَاجٌ ؕ وَمِنۡ كُلٍّ تَاۡكُلُوۡنَ لَحۡمًا طَرِيًّا وَّتَسۡتَخۡرِجُوۡنَ حِلۡيَةً تَلۡبَسُوۡنَهَا ۚ وَتَرَى الۡـفُلۡكَ فِيۡهِ مَوَاخِرَ لِتَبۡـتَـغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖ وَلَعَلَّـكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ.
ترجمہ: اور دو دریا برابر نہیں ہوتے۔ ایک ایسا میٹھا ہے کہ اس سے پیاس بجھتی ہے، جو پینے میں خوشگوار ہے اور دوسرا کڑوا نمکین۔ اور ہر ایک سے تم (مچھلیوں کا) تازہ گوشت کھاتے ہو، اور وہ زیور نکالتے ہو جو تمہارے پہننے کے کام آتا ہے۔ اور تم کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ وہ اس (دریا) میں پانی کو پھاڑتی ہوئی چلتی ہیں، تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو، اور تاکہ شکر گزار بنو۔ (فاطر - آیت نمبر 12)
تفسیر: لحم طری سے مچھلی کا گوشت مراد ہے اور سمندر سے موتی نکلتے ہیں جو زیورات میں کام آتے ہیں۔ آیت میں ہدایت ہے، سمندر میں تجارت کا سفر کر کے اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بنو۔
قرآن کریم نے ” اللہ کا فضل تلاش کرنے “ کی اصطلاح بہت سی آیتوں میں تجارت کے لیے استعمال فرمائی ہے۔ دیکھئے سورة بقرہ 198 سورة بنی اسرائیل 66، سورة قصص 73 سورة روم 46 سورة فاطر 12 سورة جاثیہ 12 سورة جمعہ 10 اور سورة مزمل 20 ۔ تجارت کو اللہ تعالیٰ کا فضل کہنے سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر تجارت شرعی احکام کی پابند ہو تو وہ ایک پسندیدہ چیز ہے۔ اور دوسری طرف اس اصطلاح سے تاجروں کو یہ تنبیہ بھی کی جارہی ہے کہ تجارت میں جو نفع حاصل ہوتا ہے، وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، کیونکہ انسان کوشش ضرور کرتا ہے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی لہذا اگر تجارت کے ذریعے مال و دولت حاصل ہوجائے تو انسان کو مغرور ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ سمندروں کو اللہ پاک ہی نے پیدا فرمایا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان ان کے تمام مادی فوائد کو حاصل کرکے بنانے والے خالق کا شکر گزار رہے اور اس کی اطاعت و فرماں برداری میں اپنے آپ کو لگائے رکھے۔
〰〰〰〰
*تفریحی و تعلیمی اسفار کے فوائد*
اس طرح کے تفریحی مقامات کی سیر و تفریح کے بہت سے محسوس و غیر محسوس فوائد ہیں اگر ان اسفار کو سیروتفریح کے ساتھ تعلیم و تربیت سے بھی جوڑ دیا جائے تو اس موقع کی تعلیم و تربیت طبیعتوں میں رچ بس جاتی ہے اور دیرپا ہوتی ہے انسان فطری انداز میں باتوں کو سیکھتا، سمجھتا اور عمل میں لاتا جاتا ہے، سفر میں عادات و اخلاق کھُلتے ہیں، طور طریقے سامنے آتے ہیں جو درسگاہوں میں اُتنے واضح نظر نہیں آتے۔
لیکن اسکولوں اور کالجز سے نکلنے والے مخلوط ٹورز کی حمایت ہم نہیں کرتے۔
تربیتی اسفار اور قرآنِ کریم:
قرآن کریم میں بھی ہمارے لئے اس طرف رہنمائی اور مثالیں موجود ہیں، حضرت موسی علیہ السلام، خضرؑ کے پاس حصولِ علم کے لیے تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو بیٹھا کر تعلیم نہیں دی بلکہ آپؑ کو لے کر سفر میں نکل پڑے، سورہ کہف میں پورا واقعہ موجود ہے:
وَاِذۡ قَالَ مُوۡسٰى لِفَتٰٮهُ لَاۤ اَبۡرَحُ حَتّٰۤى اَبۡلُغَ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَيۡنِ اَوۡ اَمۡضِىَ حُقُبًا.
ترجمہ: اور (اس وقت کا ذکر سنو) جب موسیٰ نے اپنے نوجوان (شاگرد) سے کہا تھا کہ : میں اس وقت تک اپنا سفر جاری رکھوں گا جب تک دو سمندروں کے سنگھم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ برسوں چلتا رہوں گا۔ ( الكهف - آیت نمبر 60)
⑴ فَانْطَلَقَا حَتّٰۤى اِذَا رَكِبَا فِى السَّفِيۡنَةِ خَرَقَهَا ؕ
(الكهف - آیت نمبر 71)
⑵ فَانْطَلَقَا حَتّٰۤى اِذَا لَقِيَا غُلٰمًا فَقَتَلَهٗ ۙ (الكهف - آیت نمبر 74)
⑶ فَانْطَلَقَا حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَيَاۤ اَهۡلَ قَرۡيَةِ ۨاسۡتَطۡعَمَاۤ اَهۡلَهَا. (الكهف - آیت نمبر 77)
حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی اپنے حواریوں کو تعلیم و تربیت کے لیے اپنے ساتھ لے کر مختلف مقامات کے اسفار فرمائے ہیں۔
آخری رسولﷺ نے تمام غزوات کے اسفار میں صحابہ کرامؓ کی اخلاقی و ایمانی تربیت فرمائی، آپﷺ کاموں کی تقسیم میں خود اپنے آپ کو بھی شریکِ کار فرماتے تھے، بہت سے احکامِ الہی و احادیث حالتِ سفر میں آئے ہیں۔ یعنی غزوات کے اسفار کردار و شخصیت سازی کا ایک کیمپ ہوا کرتے تھے، جس میں اصحابِ نبیﷺ کے سامنے ایک نبی کی چوبیس گھنٹے والی زندگی بطور نمونہ سامنے رہا کرتی تھی۔
دعوت و تبلیغ کی اثرانگیزی:
اسی طرح دعوت وتبلیغ کی اتنی اثرانگیزی کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں نے تعلیم و تربیت کی لائن سے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کی، تین دن، دس دن اور چلّے، چار مہینوں میں لوگوں کے عادات و اطوار میں تبدیلی آجاتی ہے، یہ سب اسی فطری طریقہٴ تعلیم و تربیت کے واضح اثرات ہیں۔ ہاں مدارس و خانقاہ کی اہمیت و ضرورت اپنی جگہ مسلَّم ہے کہ ان کا سلسلۂ نسب صفّہ و اصحاب صفّہ سے جا کر ملتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ
سننے والے کان، سمجھنے والے دل، یہ سفر کا ماحصل ہوتے ہیں۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:
اَفَلَمۡ يَسِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَتَكُوۡنَ لَهُمۡ قُلُوۡبٌ يَّعۡقِلُوۡنَ بِهَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ يَّسۡمَعُوۡنَ بِهَا ۚ.
ترجمہ: تو کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں جس سے انہیں وہ دل حاصل ہوتے جو انہیں سمجھ دے سکتے، یا ایسے کان حاصل ہوتے جن سے وہ سن سکتے ؟. (الحج - آیت نمبر 46)
آئیے! ہمارے ساتھ گنگنائیے!
بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
سفر زندگی کے لیے برگ و ساز
سفر ہے حقیقت، حضَر ہے مجاز
والسلام علیکم
نعیم الرحمان ندوی
26/جنوری 2019ء
تصویری جھلکیاں
0 تبصرے