مالیگاؤں سے شیرڈی و راحتہ کی طرف
نعیم الرحمان ندوی
مقصدِ سفر:
جامعہ ابوالحسن علی ندویؒ کے تعمیری چندے کے لئے بروز جمعہ (21/12/18) دو ساتھی راقم الحروف اور مولانا محمد اطہر ملی ندوی نے راحتہ اور شیرڈی کے لیے رخت سفر باندھا، رفیقِ سفر کی طبیعت کی ناسازی کے باوجود بھی ہم چل پڑے، دس بجے بس پر سوار ہو کر ساڑھے بارہ بجے کے بعد راقم الحروف شیرڈی اتر گئے اور مولانا اطہر صاحب راحتہ کے لئے آگے بڑھ گئے، بس کا سفر طبیعت پر بے حد بوجھ محسوس ہوتا ہے، سفر حد درجہ بے مزا ہو جاتا ہے اور یہی ہوا، منماڑ میں بس رکنے پر باہر نکلے اور طبیعت کچھ ٹھیک ہوئی۔
شیرڈی میں بیانِ جمعہ:
شیرڈی اترنے پر یہاں کے ساکن مفتی نعیم الظفر ملی رحمانی صاحب جو ہمارے میزبان تھے، تشریف لائے آپ کے ساتھ شیرڈی کی نورانی مسجد پہنچے، یہاں مفتی صاحب نے امامِ مسجد مولانا منصور صاحب اشاعتی سے راقم کے بیانِ جمعہ کیلئے بات کی، امام موصوف نے ڈیڑھ بجے بات ختم کردینے کی تاکید کے ساتھ موقع دیا، دعا سے قبل اعلان کے لئے مائک دینے کا کہا، بفضل اللہ بیس پچیس منٹ میں وقت مقررہ پر "ہم سفر میں ہمارے سفر کی ابتداء و انتہاء کیا ہے؟ " اس موضوع پر بیان ہوا، سامعین نے دلچسپی اور توجہ سے سنا، دعا سے قبل امام صاحب نے اپنی مسجد کا چندہ کیا اور بڑے انوکھے انداز میں چندہ کیا، بحیثیت امامِ مسجد (عثمان ابن عفان، مالیگاؤں) راقم الحروف کو بھی اس سے سیکھنے کا موقع ملا، پڑوسی گاؤں سے کچھ نوجوان بھی چندے کے لئے آئے تھے ان کے لئے بھی امام صاحب نے اپیل کی اور آخر میں راقم الحروف کو مائک دیا، ہم نے مختصرا اعلان کیا کہ جامعہ ابوالحسن علی ندویؒ، دیانہ، مالیگاﺅں سے آنا ہوا ہے، ایک بڑی زمین پر مدرسہ و مسجد دونوں کا تعمیری کام جاری ہے جس کا بجٹ تقریباً ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے ہے جو آپ مخیر حضرات کے تعاون سے پورا ہونا ہے، اس جامعہ کے کیمپس میں زبردست تعلیمی و تربیتی لائن سے کام کے عزائم اور منصوبے ہیں۔ اس تعمیری کام میں آپ کا جو حصہ لگے گا آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنے گا یعنی آپ کے بعد بھی جاری رہنے والا ثواب بنے گا، جب تک اس مسجد و مدرسے میں دینی تعلیم و تربیت کا کام ہوتا رہے گا آپ کو اس کا اجر ملتا رہے گا۔ ہمارے بعد امامِ مسجد نے بھی جامعہ کے مہتمم مولانا جمال عارف صاحب ندوی کے متعلق تعارف کرایا کہ یہ جامعہ مولانا موصوف کا ہے انہی کے مدرسے سے یہ آئے ہوئے ہیں، مولانا ہمارے شیرڈی میں اکثر پروگراموں میں تقریر و بیان کے لیے آتے رہتے ہیں، اس لئے آپ حضرات ان کا بھرپور تعاون کریں۔
دعا کے بعد مفتی نعیم الظفر صاحب بھی ہمارے ساتھ باہر چندہ گاہ پر کھڑے ہو گئے جس کے سبب اچھا چندہ ہوا، عمومی چندے کے علاوہ انفرادی طور پر رسیدیں بنوائی گئیں، بیشتر رسیدوں کی تشکیل مفتی نعیم صاحب نے بڑے اچھے انداز میں کی۔
مفتی نعیم الظفر صاحب کے مکان پر:
یہاں سے مفتی صاحب کے گھر آنا ہوا، یہاں ماشاءاللہ دسترخوان پر مالیگاؤں کے طرز پر کھانے کا اہتمام تھا، بہترین پلاؤ جو مالیگاؤں میں جمعہ کے روز ظہرانہ یا عشائیہ میں لازمی طور پر ہوا کرتا ہے سجا ہوا تھا، مفتی صاحب چونکہ مالیگاؤں کے مدرسے معہد ملت سے عالمیت میں فارغ التحصیل ہیں، اس سے خوب واقف ہیں۔ جزاھم اللہ، ملت سے فراغت کے بعد آپ المعہد العالی حیدرآباد افتاء کیلئے تشریف لے گئے تھے۔ دوران طعام مفتی صاحب کے والد بزرگوار حضرت مولانا اصغرعلی ملی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ ہوا، مولانا مرحوم کا گھرانہ شہر میں امتیازی مقام رکھتا ہے اور مولانا مرحوم کے چھ بیٹوں میں عصری تعلیم یافتہ بھی ہیں اور ماشاء اللہ مفتی، عالم اور حافظ بھی ہیں، شہر شیرڈی میں مفتی نعیم الظفر صاحب کا گھرانہ بلکہ آپ کا ددھیال و ننہیال بھی علم دین سے وابستگی رکھتا ہے اور بیشتر لوگ عالم و حافظ ہیں، اسی طرح ان کے والد حضرت مولانا اصغرعلی ملی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت علمی و فکری ہونے کے ساتھ، آپ کی سماجی و ملی زبردست خدمات ہیں، جسے مہتممِ جامعہ مولانا جمال عارف ندوی صاحب نے آپؒ کی وفات پر جامعہ ابوالحسن علی ندویؒ میں آپؒ کی تعزیتی نشست میں بھی تفصیل سے بیان فرمایا تھا جسے سن کر آپ رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات نہ ہوسکنے کا افسوس ہوا تھا اور آج جب کہ آپ کے گھر آپ کے بڑے صاحبزادے مفتی نعیم الظفر صاحب کے ساتھ ایک دسترخوان پر جمع ہیں، آپ کا تذکرہ ہونے پر وہ کسک جاگ اٹھی اور تشنگی بڑھ گئی، آپ کے حالات سے بصد شوق واقفیت حاصل کی اور شہر بھر میں ان کی خدمات کا آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ صاحبزادے کی زبانی آپؒ کی فکر و بصیرت اور حالات و خدمات سے آگہی ہوئی اور کافی فائدہ محسوس ہوا۔
ہفتہ واری خواتین کا اجتماع:
آج جمعہ کا دن تھا عام طور پر چھٹی ہوتی ہے لیکن آپ کے گھر میں خواتین کا ہفتہ واری دینی اجتماع تھا، مفتی صاحب کی دادی صاحبہ کی نگرانی میں تعلیم ہوا کرتی ہے، بڑی خوشی ہوئی، مفتی صاحب چونکہ راقم الحروف کے خواتین میں دینی کاموں سے واقف ہیں آپ نے راقم کو بات کرنے کا موقع دیا، ہم نے بخوشی قبول کیا اور خواتین میں پندرہ بیس منٹ بیان ہوا جس میں سماج و معاشرے اور گھروں کو خوشگوار و پرسکون بنانے میں اس روزانہ و ہفتہ واری تعلیم کے کردار اور اس کی دینی حیثیت کو اجاگر کیا، حوصلہ افزائی کرتے ہوئے روزانہ کی کتابی تعلیم اور ہفتہ واری اجتماع کو گھروں گھر جاری کرنے کی ضرورت و اہمیت بتائی، شہر بھر میں ہر مسلم محلوں، گلیوں میں جاری کرنے کی ترغیب دی اور دعا کرتے ہوئے اختتام ہوا۔
عہد نبویﷺ میں خواتین میں ارتداد ہوا؟:
ہم نے مفتی صاحب سے الگ سے کہا کہ خواتین میں دینی اعتبار سے علمی و تربیتی کام کی موجودہ حالات میں زیادہ ضرورت ہے، ہم نے بحیثیت مسلم قوم خواتین میں مطلوبہ درجہ کی دینی محنت نہیں کی جس کے سبب ملک بھر میں ارتدادی لہروں میں مسلم عورتیں اور بچیاں اس کا زیادہ شکار ہوئی ہیں، اگر ہم عہدِ نبویﷺ و عہدِ صحابہؓ کا مطالعہ کریں تو مرد صحابہؓ میں منافقین کے ارتداد کا واقعہ ملتا ہے لیکن ڈھونڈنے سے بھی خواتین صحابیاتؓ کے ارتداد کا واقعہ نہیں ملتا، دو باتیں ہیں، ارتدادی واقعات اگر صحابیاتؓ میں ہوئے ہوں گے تو وہ اتنے کمیاب ہیں کہ تاریخ کے اوراق میں جگہ نہیں ملی یا پھر ایسے واقعات ہوئے ہی نہیں۔ اس کی وجوہات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد صحابہؓ پر دینی محنتیں فرمائیں لیکن عورتوں کو نظر انداز نہیں فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین میں ہفتہ واری خطاب وہدایت کے لئے صحابیاتؓ میں ایک دن متعین کیا تھا، حتی کہ عیدین کی نماز کے بعد خواتین میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم علیحدہ سے خطاب فرماتے تھے، اسی طرح ازواج مطہراتؓ کے ذریعے خواتین صحابیاتؓ کی دینی رہنمائی کی فکر و کوشش فرماتے تھے۔ اس سنت کو زندہ کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔
مولانا ریحان ندوی کی عیادت:
یہاں سے فارغ ہوکر مفتی صاحب کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں کے لیے روانہ ہوئے، انفرادی ملاقاتوں میں بھی لوگوں نے تعاون کیا، عصر کے بعد رفیقِ سفر مولانا محمد اطہر ندوی صاحب راحتہ سے آگئے اور مفتی نعیم الظفر کے ہمراہ ہم تینوں کوپرگاؤں مولانا ریحان صاحب ندوی کی عیادت کے لئے روانہ ہوئے، مولانا ریحان صاحب معہد ملت سے فارغ ہونے کے بعد ندوۃ العلماء میں راقم الحروف کے خصوصی رفقاء میں شامل رہے ہیں، مرنجاں مرنج طبیعت و اخلاق کے مالک ہیں، ان کی ملاقات و عیادت کے لیے جانا ضروری معلوم ہوا۔ مولانا موصوف کا چند دنوں قبل ایکسیڈنٹ ہوا تھا، شکر ہوا زیادہ بڑا حادثہ نہیں ہوا، حادثے کا سبب اچانک کتے کا ٹوویلر سے بغلگیر ہو جانا ہے، پتہ نہیں کتوں کو ٹوویلر سے کیسی دیوانگی ہوگئی ہے، بیٹھے بیٹھے اچانک اٹھتے ہیں اور چلتی گاڑی سے دوڑتے ہوئے ٹکرا جاتے ہیں، اور خود مصیبت میں پڑنے کے ساتھ سوار کو بھی ہاسپٹل پہنچا دیتے ہیں، اس طرح کے حادثات آئے دن پیش آتے جارہے ہیں اور "شمع و پروانے کی آپسی دیوانگی" کی طرح "کتے اور ٹووہیلر سے بغل گیری" کی ایک نئی روایت قائم ہوتی جارہی ہے۔ اللہ پاک کتوں کے اس شوق کے عملی تجربے سے محفوظ فرمائے۔ آمین
واپسی:
کوپر گاؤں میں مولانا ریحان صاحب کے عیادت کرتے ہوئے مولانا محسن ملی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، ہدایہ کا تبادلہ ہوا، خیر خیریت دریافت کئے اور خوشگوار ملاقات کی یاد لئے بس اسٹینڈ روانہ ہوئے۔ دو گھنٹوں کے بس کے سفر نے طبیعت کو مکدّر کردیا، بس سے مالیگاؤں اترتے ہیں رفیقِ سفر مولانا اطہر صاحب نے دعا پڑھی "الحمدللہ الذی اذھب عنا الاذی وعافانا" دعا سنتے ہی بے اختیار ہنسی آگئی اور بڑی دیر تک معنیٰ و مطلب کے اعتبار سے بر مو قع اور بر محل دعا زبان پر آنے کیوجہ سے ہنسی آتی رہی اور بس کے سفر کے تکدّر کو کم کرتی رہی۔
ماشاء اللہ رفیقِ سفر مولانا اطہر صاحب ندوی یونہی خوش مزاج اور نکتہ سنج طبیعت کے مالک ہیں، آپ کے ساتھ سفر آسان ہو جاتا ہے، گاہے بگاہے "چٹکی بھر نمک" کا ذائقہ زبان وادب کے چٹکلوں کے ذریعے پیش کرتے رہتے ہیں اور بوریت کو لگام دے جاتے ہیں۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
آخر میں راقم الحروف مفتی نعیم الظفر صاحب ملی رحمانی کا بطورِ خاص ممنون و مشکور ہے کہ آپ نے ہمارا پورا تعاون کیا اور راحتہ کے مفتی شفیق ملی صاحب کے بھی ممنون ہیں، آپ مولانا اطہر ندوی صاحب کے میزبان تھے انہوں نے بھی اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اپنا قیمتی وقت دیا۔ دونوں ساتھیوں نے ہمارا خوب خیال رکھا، اللہ پاک آپ دونوں کو بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین
شیرڈی شہر:
شرڈی (انگریزی: Shirdi) بھارت کا ایک رہائشی علاقہ ہے جو مہاراشٹر میں واقع ہے۔ شرڈی शिर्डी. یہ ایک قصبہ ہے۔ جس کی سب سے مشہور چیز ہے "شرڈی والے سائی بابا یا شرڈی کے سائی بابا (انگریزی: Sai Baba of Shirdi)" یہ ایک ہندوستانی روحانی استاد تھا جسے اس کے عقیدت مندوں کی طرف سنت یا فقیر شمار کیا جاتا ہے۔ اسے ہندو اور مسلمان عقیدت مندوں کی طرف سے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کا اپنا مذہب ہندو یا مسلم اس کی زندگی کے دوران اور بعد میں بھی غیر یقینی رہا ہے۔ (شرڈی - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا)
ہم نے وہاں کے رہائشین میں مفتی صاحب وغیرہ سے ان کے تعلق سے بات کی تو معلوم ہوا کہ بابا جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے اور سانپ کے کانٹے وغیرہ کے علاج میں ماہر تھے، برادرانِ وطن چونکہ انتہائی خوش عقیدہ ہوتے ہیں اور "جہاں دیکھا چمتکار وہاں کرلیا نمسکار" ان کی بھی حیثیت ایک بھگوان کے اوتار کی ہوئی اور آگے چل کر بھگوان بنا لئے گئے۔ اور پھر سائی بابا تو ایک انسان تھے ورنہ برادرانِ وطن میں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پتھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ہے
شرط یہ ہے کہ سلیقہ سے سنوارا جائے
رفیقِ سفر مولانا محمد اطہر صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے زبردست بات کہی، انسان سب جگہ دوسروں کو بیوقوف بناتا ہے اور یہاں آکر خود بیوقوف بن جاتا ہے۔ تمام رونگ نمبرات کے آسانی سے شکار ہوجاتا ہے۔ قرآن پاک میں اس کے متعلق واضح بیان ہے۔
بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِنْهَا بَلْ هُمْ مِنْهَا عَمُونَ. ترجمہ: بلکہ آخرت کے بارے میں ان (کافروں) کا علم بےبس ہو کر رہ گیا ہے، بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں، بلکہ اس سے اندھے ہوچکے ہیں۔ (027:066)
اور واقعی مذہب و عقیدہ کے باب میں غافل انسان اندھا، بہرہ بن جاتا ہے، اپنی سوچ و فکر سے کوئی کام ہی نہیں لیتا، اس کے برعکس اہلِ ایمان کی صفت اللہ پاک نے بیان فرمائی ہے۔
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا. ترجمہ: اور جب انہیں اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر بہرے اور اندھے بن کر نہیں گرتے۔ (025:073)
(یعنی اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ان آیتوں کا شوق سے استقبال کرتے ہیں تو ان کے مضامین کو توجہ سے سنتے بھی ہیں، اور جن حقائق کی طرف وہ توجہ دلاتی ہیں، انہیں کھلی آنکھوں سمجھنے اور محسوس کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔)
والسلام علیکم
0 تبصرے