جمالِ عارف ذرا دیکھنا نکھار کے بعد



معہد کے کیمپس میں اگر یہ دو استاذ نہ ہوتے؟ 
(حصہ دوم) 

ان حضرات کی وہ خوبیاں جس نے بیشتر طلبہ کو تعلیم و تربیت کی لائن سے اس قدر نفع پہنچایا ہے کہ عقل و دل دونوں کو سنوارتے ہوئی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ یکے بعد دیگرے پیش ہے۔

گہوارۂ معہد کے سولہ (۱۶) سالہ مدتِ تدریس میں

٭ درسگاہ میں کتاب کا حق ادا کرنا، حاضری کا حد درجہ اہتمام کرنا، نصاب کی تکمیل کیلئے غیر درسی اوقات میں بھی معہد آنا، تعطیلات میں طلبہ کو تعلیمی و تفریحی ٹور میں لے جانا اور قدیم آثارِ اسلام اور مسلم حکمرانوں کی تاریخ سے آگاہ کرنا، یہ آپ ہی کے اوصاف تھے۔ 
٭ فراغت کے بعد بھی طلبا سے تعلق و رابطہ استوار رکھنا، ان کے علاقوں میں پہنچ کر اصلاح و دعوت کا فرض انجام دینا یہ آپ ہی کا خاصہ تھا۔
٭ طلبہ کو اپنی روحانی اولاد سمجھتے ہوئے ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، مالی تعاون میں پیش پیش رہنا یہ آپ ہی کی عادت شریفہ تھی۔
__ اور  _______ آج _______
٭ آپ اپنے بڑے علمی وفکری منصوبوں میں اپنے تلامذہ کو ساتھ لے کر چلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ 
٭ آپ مولانا نعمانیؒ ، مولانا حنیف ملیؒ اور قاضی صاحب کے طرزِ تربیت کو اپنانے والے ہیں۔
٭ آپ بانیینِ معہد ملت کے سے اوصافِ جمیلہ، افکارِ عالیہ کا نمونہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔
٭ آپ اپنے آپ میں اسم بامسمی ہیں؛ اپنی تدریس میں، جامعہ کے اہتمام میں، تقریر و خطابت میں، حقیقی معنی میں ایک *عارف شخص کا سا کمال و جمال* رکھتے ہیں۔ آپ کے کاموں کے بہترین نتائج و آثار کو چشم تصور سے دیکھتے ہوئے اس شعر میں خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔
 ابھی تو صبح کی پہلی کرن ہی پھوٹی ہے 
جمالِ عارف ذرا دیکھنا؛ نکھار کے بعد

حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب

کتاب کا حق ادا کرنا، نصاب کی تکمیل 
اور درسگاہ میں حاضری کا اہتمام 
طلبہ کی پسندیدگی اور ان میں مقبولیت کا آغاز درسگاہ ہی سے ہوتا ہے، استاد اپنے مضمون کا حق ادا نہ کرے یا مفوضہ کتاب کا اہل نہ ہو تو طلبہ میں اپنی وقعت کھو دیتا ہے، طلبہ کلاس روم میں اس سے متاثر نہیں ہوتے، دل میں توقیر کا جذبہ نہیں ابھرتا تو باہر اس سے کیوں قریب ہونگے اور کیسے عزت و احترام کریں گے؟ 
مولانا اپنے مضمون میں کامل دستگاہ رکھتے تھے جو کتاب دی جاتی اسے خوب اچھی تیاری کے ساتھ، مؤثر انداز و اسلوب میں پیش کرتے، مولانا کا خاص مضمون "حدیث" رہا ہے، آپ کو معہد میں "ریاض الصالحین" پڑھانے کا موقع ملا، راقم نے بھی اسے آپ ہی سے پڑھا، آپ کا یہ درس تمام طلبہ میں مقبول رہا، طلبہ بڑے اہتمام سے شریک ہوتے، توجہ سے سنتے اور بہت سے طلبہ لکھنے اور ریکارڈ کرنے کا بھی اہتمام کرتے۔ آپ پورے شرح و بسط سے لغوی تشریح سے لےکر حدیث کے تمام نکات اور آخر میں درس کا خلاصہ پیش کرنے کا اہتمام کرتے، طلبہ درس سے نہ صرف مطمئن ہوتے بلکہ بہت کچھ نیا سیکھنے اور نئی باتیں جاننے کا احساس ہوتا۔ چونکہ اپنے بڑوں کے حکم پر اور قومی وملی تقاضوں پر مولانا کے اسفار بھی دوسرے اساتذہ کی بنسبت زیادہ ہوا کرتے تھے لیکن آپ نصاب کی تکمیل کا اہتمام کرتے اور نصاب پورا کرنے کے لیے سال کے آخر میں چند مہینے خارجی اوقات میں پڑھاتے تھے، آپ کے درس کی افادیت کے پیش نظر طلبہ خوش دلی سے تیار رہتے۔ آپ کی عادت معمولی باتوں؛ طبیعت کی ناسازی، چھوٹی موٹی موسمی بیماری وغیرہ پر ناغہ کرنے اور رخصت لینے کی نہیں تھی، ابھی جلد ہی ایک مرتبہ اساتذۂ جامعہ کے درمیان فرمایا تھا "چھوٹی چھوٹی موسمی بیماری اور معمولی معمولی سی وجوہات پر رخصت لینا ٹھیک نہیں ہے، ہم نے اپنے 16 سالہ معہد ملت کی مدتِ تدریس میں کبھی بیماری وغیرہ کے سبب ناغہ نہیں کیا، جاکر جائزہ لیا سکتا ہے۔" واقعی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے، آپ لمبے لمبے سفر کے بعد رات گئے گھر پہنچے ہو لیکن صبح معہد ملت میں موجود ہوتے، کبھی آپ سفر سے واپس ہوتے ہوئے شہر پہنچتے اور معہد کا تعلیمی وقت ہوتا تو گھر نہ جاتے ہوئے سیدھے معہد ملت چلے آتے، جامعہ ابوالحسن میں بھی آپ کا آج بھی یہی معمول ہے۔ 

مطالعاتی رہنمائی کے ساتھ
 چھٹیوں میں تعلیمی و تفریحی ٹور  
معہد سے باقاعدہ اس طرح کا اہتمام تو نہیں کیا جاتا لیکن آپ طلبہ کیلئے اس کی افادیت کے پیش نظر ذاتی دلچسپی لیتے اور ششماہی و سالانہ چھٹیوں میں اپنے سے قریب طلبہ کو ایسے اسفار کیلئے ترغیب دیتے اور مقامی سمیت بیرونی طلبہ بھی ایسے اسفار میں بڑے شوق سے شرکت کرتے، مولانا پورے سفر میں ایک ایک چیز کی رہنمائی کرتے اور اس کی تاریخ سے واقف کراتے، مولانا کی تاریخی واقفیت اور حالات حاضرہ سے آگاہی اور بیک وقت انگریزی، عربی میں مہارت کے سبب ایسے تعلیمی و تفریحی ٹور انتہائی مفید ثابت ہوتے اور مدت العمر اس کی یاد باقی رہتی۔ راقم نے بھی ایسے بہت سے اسفار مولانا کی معیت و رہنمائی میں کئے ہیں اور اس کے ذہنی و طبعی، علمی و تاریخی بے شمار فوائد محسوس ہوئے۔ خاص قابل ذکر بات یہ ہے کہ مولانا اس پر بس نہیں کرتے بلکہ اس سے طلبہ میں اپنے مشاہدات کو قلمبند کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کا کام لیتے اور ان اسفار سے لوٹنے کے بعد بڑے اہتمام سے سفر کی روداد یا سفرنامچے لکھنے کا حکم فرماتے، راقم نے اس طرح بہت سے سفرنامے قلمبند کئے جس میں سے چند قابلِ ذکر ہیں؛ 1) حیدرآباد میں تین دن... 2) لو اب کے آگرہ بھی گھوم آئے... 3) اورنگ آباد کی سیر... 4) اجنتا ایلورہ کی غاریں... وغیرہ _______ انہیں قلمی کاوشوں کا فیض ہے کہ اب سے بارہ پندرہ سال پہلے کے؛ معہد ملت کے طالب علمی کے مشاہدات آسانی سے قلمبند ہوتے جارہے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور مولانا بذات خود جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں کے طلبہ کی تعلیمی و تفریحی ٹور کے ذریعے تربیت فرما رہے ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اسفار میں انسان کے اصل مزاج و مذاق سے آگاہی ہوتی ہے، اچھے برے اخلاق سامنے آتے ہیں، ابھرتے ہیں، اور مناسب روک ٹوک کے ذریعے بگڑے اخلاق سدھر جاتے ہیں؛ اچھی عادتیں نکھر جاتی ہیں، یہ حقیقت ہے کہ اسفار میں کی جانے والی تربیت درسگاہ سے زیادہ موثر و دیرپا ہوتی ہے۔ 

فراغت کے بعد بھی طلبہ سے تعلق و رابطہ
اور ان کے علاقوں میں افادۂ عام 
مولانا نے معہد ملت میں سولہ (16) سال فریضہ تدریس انجام دیا، اس درمیان سینکڑوں طلبہ مولانا سے پڑھ کر فارغ ہوئے، مولانا کی اردو، عربی، انگریزی زبانوں پر عبور اور بیک وقت بہترین خطابتی و تدریسی صلاحیت کے حامل ہونے کے سبب طلبہ آپ سے قریب ہوئے، مولانا نے بھی آگے بڑھ کر قدردانی کی، بطورِ خاص بیرونی طلبہ فراغت کے بعد بھی آپ سے رابطہ رکھتے، دینی خدمات کے سلسلے میں مشورہ لیتے، آپ کو اپنے علاقوں میں کبھی مکتب کے سالانہ جلسوں، کبھی اصلاح معاشرہ کے عوامی جلسوں اور کبھی پیام انسانیت کے اسٹیج سے ہندو مسلم مخلوط اجتماعات میں خطابات کے لئے مدعو کرتے، راقم بھی مولانا کے ایسے اسفار میں بار بار شرکت کرتا رہا، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے بلکہ قدرے اضافہ ہی ہوا ہے، اساتذۂ معہد میں مولانا محمد حنیف ملیؒ کے بعد یہ وصف آپ میں سب سے نمایاں نظر آیا، راقم نے ایک موقع پر لکھا تھا؛ "آزادی کے بعد ماضی قریب میں شہر مالیگاؤں کے جید عالم دین مولانا محمد حنیف ملی رحمۃ اللہ علیہ کی کوششیں قابلِ تقلید ہیں، آپؒ نے معہد ملت سے منسلک رہ کر بے مثال جدوجہد کی اور خاندیش و مراٹھواڑہ کے علاقوں میں گاؤں، گاؤں پہنچ کر مقامی مسلمانوں سے ملنا، وہاں مکاتب و مدارس کا قیام کروانا، مساجد کی آبادی کی فکر دلانا اور مقامی مسلمانوں کے بچوں کو مدرسہ معہد ملت مالیگاؤں لاکر ان کو عالم و حافظ بنانا، یہ آپ کی زندگی کا بے مثال کارنامہ ہے آپ نے اُس وقت کے سفر کی تمام مشقتوں کو برداشت کیا، اُس وقت آج کی طرح سواریاں نہیں تھی، سڑکیں بھی پختہ نہیں تھیں، اتنے بڑے عالمِ دین ہوکر بھی آپ بیل گاڑیوں پر کچے راستوں سے سفر کیا کرتے تھے، کبھی ٹریکٹر کے ذریعے بھی سفر کیا، اور آج اسی کا نتیجہ ہے کہ مادر علمی مدرسہ معہدِ ملت کا فیض مراٹھواڑہ و خاندیش کے علاقوں میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔" 
عہد طالبعلمی میں مشاہدہ کیا کہ یہ وصف اور ایسی سرگرمی مولانا حنیف ملیؒ کے بعد اساتذۂ معہد میں آپ میں سب سے زیادہ پائی گئی، اس کا نفع معہد کے ساتھ آپ کو اور آپ سے منسلک تمام دینی خدمات کو پہنچا، چنانچہ آپ نے جس دینی کام کیلئے آواز لگائی اطراف و اکناف میں پھیلے آپ کے شاگردوں نے اس میں بھرپور تعاون کیا۔ اب بھی سینکڑوں فارغین معہد آپ سے بڑا قریبی تعلق رکھتے ہیں اور فقط آپ سے ملاقات کے لئے مالیگاؤں تشریف لاتے رہتے ہیں۔ 

مالی تعاون میں سبقت 
آپ میں یہ چیز سب سے بڑھ کر دیکھی کہ طلبہ اگر مالی اعتبار سے کسی مشکل میں پڑگئے، بیرونی طلبہ میں کوئی کسی بڑی بیماری کا شکار ہوگیا، علاج معالجہ میں مالی تعاون کی ضرورت پیش آگئی ہو تو آنکھوں نے؛ بڑھ کر سبقت کرنے والا اور خاطر خواہ رقم پیش کرنے والا، دواخانوں تک پہنچ کر تسلی دینے والا آپ ہی کو دیکھا، یہ چیز اسی وقت ممکن ہے جب طلبہ کو اپنی اولاد سمجھا جائے اور ان کی تکلیف کو اپنی اولاد کی تکلیف سمجھی جائے، طلبہ کو یہ سلوک بہت متاثر کرتا تھا۔ اسی طرح اگر کوئی غریب طالبعلم اعلیٰ دینی تعلیم کیلئے ندوۃ العلماء لکھنؤ ، المعہد العالی حیدرآباد وغیرہ جانا چاہتا اور مالی کمزوری پیروں کی زنجیر بن جاتی تب بھی آپ ہی کو پیش پیش دیکھا، فقط اس ایک موقع پر تعاون کرکے بس نہیں کرتے بلکہ جب تک وہ تعلیم حاصل کر رہا ہے تب تک اس کی خبرگیری کرتے رہتے؛ یہ وصف نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ 

مولانا نعمانی، مولانا حنیف ملی اور قاضی صاحب
 کا معہد کے کیمپس میں دن و رات کے قیام کا نمونہ 
کسی بھی تعلیمی ادارے میں کسی باوزن مربی شخص کی ہمہ وقتی نگرانی طلبہ کی اچھی تربیت کے لئے ناگزیر ہے، یہی چیز طلبہ کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے، معہد ملت میں یہ چیز بہت واضح نظر آتی ہے کہ یہاں 68 سالہ ہر دور میں ایسی شخصیات معہد کے کیمپس میں ہمہ وقتی قیام کرکے نگرانی کے فرائض انجام دیتی رہی ہے، راقم کے زمانے میں حضرت قاضی صاحب (حضرت مولانا عبدالاحد ازہری صاحب دامت برکاتہم) ہمہ وقتی قیام فرمایا کرتے تھے اور جب تک آپ نے قیام فرمایا اس کے بہترین اثرات طلبہ کے اخلاق و کردار پر پڑتے رہے۔ "مولانا جمال عارف ندوی صاحب" اب چونکہ کہ معہد کے سابق استاد ہوگئے اور جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں کے مہتمم؛ لیکن آپ میں قاضی صاحب و نعمانی صاحب کی یہ صفت موجود ہے۔ آپ جامعہ ابوالحسن کے کیمپس میں 24 گھنٹہ قیام پذیر ہیں اور ہمہ وقتی نگرانی کرتے ہوئے طلبہ کی تعلیم و تربیت کے فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں، جامعہ ابوالحسن کے طلبہ کی موجودہ کھیپ بڑی خوش قسمت اور قابل رشک ہے کہ انہیں ایسے اوصاف کا حامل معلم و مربی نگراں 24 گھنٹے میسر ہے، ان کی تعلیم و تربیت میں منہمک ہے۔ راقم السطور نے ان طلبہ سے متعدد مرتبہ کہا کہ "آپ لوگ فراغت کے بعد اپنے آپ پر فخر کرو گے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر کرو گے کہ تمہیں مہتمم جامعہ کی ہمہ وقتی تربیت میسر آئی۔
 آپ اُسی طرح جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں چوبیس گھنٹے قیام کرتے ہوئے ہوئے بچوں کی تعلیم و تربیت میں لگے ہوئے ہیں جس طرح قاضی صاحب اور آپ سے پہلے مولانا حنیف ملیؒ اور مولانا عبدالحمید نعمانیؒ وغیرہ حضرات طلبہ کے درمیان رہے ہیں، آپ سے امید ہے اور بہت قوی امید ہے کہ جس طرح ان حضرات کی ذاتِ مبارکہ قوم و ملت کے حق میں نافع رہی ہے، آپ کی ذات سے بھی ایسی ہی نافعیت ظاہر ہوگی اور جس طرح معہد ملت سے؛ اپنے آغاز سے اب تک قوم کو فائدہ پہنچ رہا ہے جامعہ ابوالحسن سے بھی اللہ پاک ایسا ہی فائدہ قوم کو پہنچائے، امید کے ساتھ دعا بھی ہے کہ اللہ پاک جامعہ ابوالحسن اور اس کے مہتمم کے ذریعہ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے "علمی و فکری فیض" کو جاری و ساری فرمائیں، اس لیے کہ پورے شہر میں جس شخصیت کو سب سے زیادہ "صحبتِ علی میاںؒ" کی سعادت حاصل ہے وہ آپ ہی کی ذاتِ والا صفات ہے پھر کیوں نہ آپ مرکزِ امید نہ بنیں اور پھر آپ کو بھی مفکر اسلام رحمتہ اللہ علیہ سے ایسی مناسبت اور ایسا تعلق ہے کہ آپ نے اپنے جامعہ کا نام بھی انہی کے نام پر رکھا، ان سے وہ محبت ہے کہ آنکھوں نے بارہا دیکھا کہ مفکر اسلامؒ کے ذکر خیر پر دلگیر ہوتے ہوئے آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ اللہ پاک اس امید کو بر لائے اور ان دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشیں۔ آمین یا رب العالمین

بانیین معہد ملت کے ایک اہم وصف کا نمونہ 
بانی جامعہ ابو الحسن، مالیگاؤں 
معہد ملت ساتویں دہائی میں اپنی اڑسٹھ سالہ عمر سے گزر رہا ہے، معہد ملت کی تاریخ رہی ہے کہ معہد اپنے تعلیمی نصاب و نظام میں، اپنے معلمین و اساتذہ کی ضرورت میں خودکفیل رہا ہے، اسے دوسرے تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل مدرسین کی ضرورت نہ کے برابر رہی ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ معہد ہی کے فارغین اساتذہ اپنے اساتذہ کی فکر و تربیت اور موثر انداز و اسلوبِ تدریس کو اپنا کر اس کا تسلسل برقرار رکھے ہوئے ہیں، اسے مزید جلا بخشتے ہیں اس طرح معہد کے تعلیمی و تربیتی امتیاز کو اب تک بقا و تسلسل حاصل ہے۔ اس کا راز اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ معہد کے بانیان اور بزرگ اساتذہ کی دوراندیشی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ رجالِ کار تیار کرنے میں جہاں قوم وملت کی ضرورت کو پیش نظر رکھا وہیں درسگاہِ معہد کے لیے باصلاحیت افراد کو تیار کرنے سے غفلت نہیں برتی، اگر یہ نہ ہوا ہوتا تو یہ چشمۂ علم و عرفاں چند سال زور و شور سے بہتا اور پھر بہت سے دوسرے مدارس و جامعات کی طرح چند دہائیوں میں جمود و انحطاط کی طویل خاموشی اس پر طاری ہو جاتی، لیکن اب بھی اس دریائے معہد سے ایسی تیز و تند موجیں اٹھتی ہیں کہ نہ صرف پورے شہر بلکہ ریاست اور ملک بھر میں اس کی اٹھان محسوس کی جاتی ہے، اور اس شعر کا عملی مصداق بنتی ہے؛
 اسی دریا سے اُٹھتی ہے وہ موجِ تُند جولاں بھی
نَہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا
ساتھ ہی ایسی موجوں کو اٹھانے والے، پروان چڑھانے والے معلمین و مدرسین، معہد کی مسندِ درس کی زینت بنتے ہیں جن کی فکر و تربیت ایسے افراد کو جنم دیتی ہے، یہ چیز کسی بھی ادارے کو طویل عمر دیتی ہے، بانیین کے چلے جانے کے بعد بھی اس کے خیر کو باقی رکھتی اور قومی و ملی ضرورت کو پورا کرتے ہوئے انہیں تسلسل سے بھرپور نفع پہنچاتی رہتی ہے۔

 بانی و مہتمم جامعہ ابو الحسن میں بھی ایسی دوراندیشی بہت واضح انداز میں محسوس ہوتی ہے، آپ کی خاص بات یہ ہے کہ آپ ٹیم ورک کا مزاج رکھتے ہیں جو اس زمانے کا تقاضا بھی ہے، آپ نے اپنے ہم عصر، ہم عمر، ہم درس رفقاء کے ساتھ بھی مل کر کام کیا اور قلبِ شہر میں مولانا علی میاں ندویؒ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی، جامعہ ابوالقاسم ﷺ کو وجود بخشنے میں اہم کردار ادا کیا، اس کے بعد بتوفیق اللہ انہوں نے اپنے تلامذہ کو اپنے ساتھ لیا، ایک ٹیم بنائی، راقم بھی آغاز سے اس ٹیم کا حصہ رہا اور سید احمد شہید اسلامک اکیڈمی مالیگاؤں کی بنیاد رکھی، اس ٹیم کے افراد کی ایک طویل مدت تک علمی و فکری تربیت فرمائی، جامعہ ابوالحسن کے قیام کا منصوبہ بنایا، مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے اس کا قیام عمل میں لایا، اپنے تیارکردہ ٹیم کے اساتذہ کو جامعہ میں تعلیم و تربیت کے لیے لگایا، سالوں ملک بھر کے "مؤثر تدریس کے تربیتی ورکشاپ" میں بار بار شرکت کروائی، بیشتر خود بھی شامل رہے۔ یہ چیز بہت امید افزا ہے کہ معہد ملت ہی کی طرح جامعہ اور اس کے بانی کی فکر اور کام کو بقا حاصل ہوگا اور (اللہ پاک آپ کی عمر کو طویل رکھے) آپ کے بعد بھی آپ کے کاموں کو سنبھالنے اور باقی رکھنے کے لئے آپ کی تیار کردہ "آپکے تلامذہ کی ٹیم" موجود ہوگی۔ ان شاء اللہ العزیز 
یہ وصف بانیین معہد اور بزرگ اساتذہ کے بعد آپ ہی میں نمایاں نظر آتا ہے۔ اللہ پاک اس امید کو پورا فرمائیں، اور تا دیر و تا دور جامعہ اور اس کے بانی کے کام و فکر کو باقی رکھیں۔ آمین یارب العالمین  
آخر میں عرض ہے کہ یہ تو آپ کے کاموں کا آغاز ہے اور صبح کی پہلی کرن کی حیثیت رکھتے ہیں، جب اللہ پاک محض اپنی شانِ عزیزی و شانِ رحیمی سے ان کاموں کے اثرات و نتائج ظاہر فرمائیں گے اُس وقت آپ کے کاموں کی قدر و قیمت ظاہر ہوگی۔ ان شاء اللہ العزیز الرحیم 
آپ کی کاموں کو یہ کہتے ہوئے خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں؛ 
ابھی تو صبح کی پہلی کرن ہی پھوٹی ہے 
جمالِ عارف ذرا دیکھنا نکھار کے بعد 
_____________________ 
جاری _______________
(پیشکش بموقع 68 سالہ اجلاس برائے جمیع فضلاء معہد ملت 23 ستمبر 2021 بروز جمعرات)
_____________________

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے