قاری نظر آتے ہیں حقیقت میں ہیں قرآن!



معہد کے کیمپس میں اگر یہ دو استاذ نہ ہوتے؟ (تیسرا حصہ)

٭ درسگاہ میں طلباء کو الفاظِ قرآن کے ساتھ اخلاقِ قرآنی سے آراستہ کرنے والے۔ ٭ طلبہ کو واقفِ فن ہی نہیں ماہرِ فن بنانے والے، انتقالِ فن کی صلاحیت پیدا کرنے والے۔ ٭ اپنے اساتذہ و مربی کا غائب درجہ اہتمام کرنے والے۔ ٭ ماہر فن معلم ہوتے ہوئے مخلص مربی کے اوصاف رکھنے والے۔ ٭ طلبہ کے لئے شفیق ومہربان والد کا کردار نبھانے والے۔ ٭ سینکڑوں طلبہ کے دلوں کی محبوب ہستی اور ہزاروں عوام کے مرجع بننے والے۔ ٭ سینکڑوں فارغین کو معلمِ قرآن، مجودِ قرآن بنا کر درسگاہوں کی زینت بنانے والے۔ ٭ درجنوں مساجد کو تربیت یافتہ امام فراہم کرنے والے۔
 ان اوصاف و کمال کے حامل ہیں حضرت قاری الطاف حسین ملی صاحب دامت برکاتہم 
آپ کی ان خوبیوں کا مختصر سا جائزہ پیش ہے۔

      قاری نظر آتے ہیں حقیقت میں ہیں قرآن!

     اُس سچے مومن کے لئے جو اخلاقِ قرآنی سے مزین ہو یعنی قرآنی اخلاق کے پیکر؛ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے سیرت و اخلاق کا حامل ہو، وہ جسے ام المؤمنين حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے چھوٹے سے لیکن بلیغ ترین فقرے میں یوں بیان کیا کہ " کان خلقہ القرآن : نبیؐ کے اخلاق؛ قرآن تھے۔" ____ ایسے متبعِ سنت مومن کے لئے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے کہا ہے؛
 یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
 قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن 
اس شعر کا پس منظر سامنے رکھتا ہوں اور حضرت قاری صاحب کی ذات والا صفات کو سامنے لاتا ہوں تو آپ اس شعر کا کامل مصداق نظر آتے ہیں۔ 
     راقم نے مدتوں گہرا مشاہدہ کیا، لمبی صحبت اٹھائی، سفر میں بھی ساتھ رہا، آپ کی جلوت مع الأنام کے ساتھ خلوت مع الرحمن کا بھی مُشاہِد و امین ہے، آپ سے کتابیں پڑھی، قرآن بالتجوید سیکھا، آپ کی ذات میں اخلاق و کردار اور تقوی و طہارت کے وہ اعلی نمونے دیکھے کہ اب نگاہوں میں کوئی اَور بمشکل جچتا ہے اور طبیعت غیر شعوری طور پر اَوروں کا آپ سے موازنہ کرنے پر اتر آتی ہے۔ ان تمام باتوں کی روشنی میں کہتا ہوں کہ "قاری صاحب الفاظ کے قاری و مُقری ہی نہیں، اخلاق سے بھی آراستہ ہیں، کلام الٰہی کے عالمِ ظاہر ہی نہیں، معانئ قرآن کے بھی غوَّاص ہیں۔ نکات قرآنی کا موقع بموقع وہی فیضان؛ زبانِ حق ترجمان سے جاری ہوتا ہوا کانوں سے سنتا آنکھوں سے دیکھتا آرہا ہوں جو آپ کے مرشدِ گرامی حضرت إلٰہ آبادی ہی کی خصوصیت ہے۔ آپ اس بات کے کہے جانے کا پورا استحقاق رکھتے ہیں؛"
یہ بات ہرکسی کو نہیں معلوم کہ *"الطاف"*
قاری نظر آتے ہیں؛ حقیقت میں ہیں قرآن!
(روح اقبالؒ سے معذرت کے ساتھ)
_________________________

__2) حضرت قاری الطاف حسین ملی صاحب دامت برکاتہم__

٭ قاری صاحب کے درس کی خصوصیت  
     اپنے مضمون اور فن میں آپ کو اس درجہ درک اور مہارت حاصل ہے کہ آپ اپنے طلباء کو فقط پڑھنے والا نہیں پڑھانے والا بنا دیتے ہیں، صرف قاری نہیں مُقری بنا دیتے ہیں یعنی انتقالِ فن کا اچھا ملکہ پیدا کر دیتے ہیں، آپ کے طلبہ کی اکثریت بہترین مُجوِّدِ قرآن بن کر شہر و اطراف شہر میں خدمتِ قرآن میں لگی ہوئی ہے، آپ کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ طلباء کی تعلیم کے ساتھ تربیت کی ضرورت کا خوب ادراک و احساس رکھتے ہیں اور درسگاہ کے علاوہ خارج میں طلبہ کو سب سے زیادہ وقت دیتے ہیں، ان کو خارج میں بھی قرآن کے علم تجوید سے بہرہ ور کرتے ہیں، ساتھ اخلاق قرآنی سے بھی مزین کرتے ہیں، اصلاحِ الفاظِ قرآن میں نوک و پلک درست کرنے کے ساتھ اصلاحِ کردار کے لیے بھی حکمت بھرے انداز میں روک ٹوک کرتے ہیں۔

٭ رجالِ کار تیار کرنے کی فکر و کوشش 
     قاری صاحب اپنے شاگردوں میں منصبِ امامت کی ضروری صلاحیت پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں، انہیں قرآن پاک بالتجوید کی اچھی مشق کراتے ہوئے مسجد کے مصلّے کا اہل بناتے ہیں اور منبر و محراب سے جوڑتے ہیں، ساتھ ہی اپنے ائمہ شاگردوں کو عوام الناس کی اصلاح و تربیت کے لیے مفید رہنمائی بھی فرماتے ہیں۔ آپ کے درجنوں شاگرد منصبِ امامت سے جڑے ہوئے ہیں، مالدہ شیوار، گلشن مالک، گلشیر نگر، ہیرا پورہ کے علاقوں میں بیشتر ائمۂ مساجد آپ کے تربیت یافتہ فارغینِ معہد ہیں اور الحمدللہ سب کے سب اپنی جگہ اطمینان بخش طریقے پر فرائضِ امامت انجام دے رہے ہیں۔ 

٭ شیخ إلٰہ آبادی سے تعلق 
 شیخ سے جو پایا وہ لوٹایا  
      اللہ پاک نے آپ کو کم عمری و طالب علمی کے زمانے ہی سے مرشد إلٰہ آبادی سے جوڑ دیا تھا، مرشد گرامی کے ہاں جو قرب و نزدیکی آپ کو حاصل ہے شاید شہر بھر میں اور کوئی شخص آپ کا ثانی ہو، سبب یہی شیخ سے قلبی محبت و طبعی مناسبت اور کامل درجے کا احترام و انقیاد ہے۔ 
      آپ کی تربیت کا اہم پہلو یہ ہے کہ طلبہ کو اساتذہ کے احترام کی تلقین کرتے ہیں، اپنے محسن اساتذہ و مربیین کی تعظیم و تکریم کی تاکید کرتے ہیں اور خود آپ میں بھی اپنے اساتذہ و مرشد کا حددرجہ اکرام موجود ہے، آپ اپنے شاگردوں کی موجودگی میں بلا جھجک اپنے اساتذہ کے لئے احترام و توقیر کا رویہ اپناکر ان کے لئے عملی نمونے قائم کرتے ہیں، اساتذہ بھی اپنے لائق فائق، معزز و مکرم شاگرد کی اس درجہ تکریم سے متاثر ہوتے ہوئے اپنے ہاں بھی اسی درجے کا تقرب عطا کئے ہوئے ہیں۔ ھل جزاء الاحسان الا الاحسان۔

٭ طلبہ کے ساتھ حقیقی شفقت و مہربانی  
     قاری صاحب طلبہ سے انتہائی مہر و محبت سے پیش آتے ہیں، یہ آپ کا عمومی رویہ ہے لیکن آپ سے قدیم اصلاحی تعلق رکھنے والے طلبہ آپ کی "روحانی اولاد" کا درجہ رکھتے ہیں آپ کی طبعی لطف و مہربانی لفظ ندا "بیٹے!" سے کم پر راضی نہیں ہوتی، آپ ایسے محبت بھرے لب و لہجے میں، ناصحانہ و خیرخواہانہ انداز میں تکلم و خطاب فرماتے ہیں جو حقیقی معنوں میں "از دل خیزد بر دل ریزد" کا مصداق ہوتا ہے، باتیں آپ کی زبان سے نکلتے ہی مخاطب کے دل میں اتر جاتی ہیں، طبیعت فوری عمل پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ سینکڑوں طلبہ آپ کے اس حسنِ سلوک کے دلدادہ ہیں اور آپ ان کے دلوں میں بسے ہوئے ہیں، راقم بھی عرصۂ دراز سے آپ سے اپنا اصلاحی تعلق رکھتا ہے، اپنے لیے بھی ہمیشہ شفقت بھرا لفظِ تخاطب "بیٹے" ہی سنا، ہاں بوقت ضرورت عرفی نام بھی پکارتے ہیں، اس سلوک و رویے نے دل کو موہ لیا، طبیعت کو بڑا متاثر کیا اور آپ اپنی کم عمری کے باوجود ہمیشہ ایک "شفیق و مہربان والدِ بزرگوار" کے مقام پر محسوس ہوئے۔ اس مہر و محبت  نے دل میں ایسا گھر کیا، طبیعت میں تابعداری کا ایسا جذبہ پیدا کیا اور آپ سے اس قدر طبعی مناسبت پیدا ہوئی کہ یاد نہیں پڑتا کہ آپ کی طرف سے کوئی کام ہو، کوئی حکم ہو اور اس کے پورا کرنے میں طبیعت نے إبا  کیا ہو یا دل میں انکار کے جذبات اٹھے ہوں! آپ پر صادق آتا ہے؛
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے 
پر نہیں؛ طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے 

٭ قاری صاحب بہترین معلم بھی مربی بھی 
( آپ کی تربیت کے عمومی اثرات)   
    اللہ پاک نے آپ کو تربیت کا خصوصی ملکہ عطا فرمایا ہے، عوام و خواص، طلبہ اور فارغین کا آپ کی طرف بڑا رجوع ہے، آپ کی حکمت بھری تربیتی کوششوں سے بڑا نفع پہنچ رہا ہے، طلبہ کی اخلاقی و روحانی تربیت کا خصوصی نظام قلعہ جھونپڑے کی مسجد، خانقاہ حسینیہ (واقع خالد بن ولیدؓ مسجد) اور "خانقاہ دارالتقوی" میں مؤثر انداز میں جاری ہے، راقم ان میں بھی شرکت کرتا رہا ہے۔ ان میں انفرادی و اجتماعی عبادتوں کا اہتمام، اخلاق و کردار کی درستگی، معاملات کی صفائی، معاشرے و معاشرت کی اصلاح کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ بہتوں کی زندگی میں زبردست تبدیلی ہوئی اور ہو رہی ہے، بطور خاص شہر کا نوجوان طبقہ آپ سے بہت مستفیض ہورہا ہے، آپ بھی ان کی سہولت کیلئے عشاء بعد کا بڑا وقت صرف کرتے ہیں، بہتوں نے اپنی زندگی کی خوشگوار تبدیلی کو بیان کیا اور آنکھوں نے کچھ کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔

آپ کی تربیت کا ذاتی تجربہ
      حضرت قاری صاحب کی رہبری میں نفس کا تزکیہ، قلب کا تصفیہ اور صفائی معاملات و حسنِ معاشرت کی فکر اور عملی کوششیں راقم سے بھی ہوئی اور اب بھی جاری ہیں، بتوفيق اللہ اس میں کامیابی مل رہی ہے، اچھا نتیجہ ظاہر ہورہا ہے، بطور تحدیث بالنعمت "وأما بنعمۃ ربک فحدث" عرض کرتا ہوں کہ اِس وقت محض اللہ پاک کے فضل اور رحمت سے (ولولا فضل الله علیکم ورحمتہ ما زکی منكم من أحد أبدا ولكن اللہ یزکی من یشاء) "دل کو یہ دولت اور نعمت" حاصل ہے کہ کسی سے کوئی جھگڑا نہیں، کسی کا مالی حق بندے پر نہیں، نہ کسی سے معاصرتی منافرت ہے نہ ہی رشک و حسد محسوس ہوتا ہے، اس طرح کے جذبات پیدا ہونے پر مثبت سوچ اسے اندر ہی اندر ختم کر دیتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ گھر والوں میں کوئی شاکی ہے نہ دوست و احباب میں کسی سے قطع کلامی ہے نہ ہی رشتے داروں میں کسی سے قطع رحمی ہے۔ اسی دولت سے رب کے حضور مغفرت و نجات کی امید بھی ہے کہ ... يَوۡمَ لَا يَنۡفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوۡنَۙ ۞ اِلَّا مَنۡ اَتَى اللّٰهَ بِقَلۡبٍ سَلِيۡمٍؕ ۞ _____ اِذۡ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلۡبٍ سَلِيۡمٍ ۞
ورنہ تو حقیقت یہ ہے کہ راقم کے پاس "بارگاہِ صمدیت" میں پیش کرنے کے لائق نہ التحیات (قولی عبادتیں) ہیں، نہ الطیبات (مالی عبادتیں)، نہ ہی الصلوات (بدنی عبادتیں) ہیں، ہے تو بس یہی اک دل ہے جسے آپ کی رہبری میں بنانے سنوارنے کی کوشش جاری ہے۔
      تزکیۂ قلب اور صفائی معاملات کی یہ دولت، دل کی یہ کیفیت، طبیعت و مزاج میں یہ تبدیلی حضرت قاری صاحب کی اصلاح و تربیت ہی کا اثر ہے، ہاں یہ ہے کہ یہ صرف "فیضِ الطافی" نہیں بلکہ یہ "فیض إلٰہ آبادی" بھی ہے جو آپ کے واسطے سے ناچیز ہی کو نہیں، آپ سے منسلک سینکڑوں طلبہ اور ہزاروں عوام کو پہنچ رہا ہے۔ والحمد للہ علی ذلک 

_________ آخری بات  _________

ہر دو کیلئے رب کی عطا  
      اپنے ان دونوں محسن استاذ اور شفیق مربی کے تعلق سے سوچتا ہوں، ان کے حالات، ان کی دینی سرگرمیوں، ان کی خدمات کو دیکھتا ہوں تو دل کو بڑی خوشی ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے ان دونوں حضرات کو ان کے کاموں کے اعتبار سے بہترین میدانِ عمل اور یکسوئی کی جگہ عطا فرما دی ہے جہاں پوری دلجمعی سے دونوں حضرات دینی خدمات انجام دے رہے ہیں اور راقم الحروف کو دونوں کے یہاں ان کے کاموں کا شریک و معاون بنایا، ایک دیانہ شیوار میں زبردست منصوبہ بندی کے ساتھ "جامعہ ابوالحسن علی ندوی" قائم کر چکے ہیں تو دوسرے کے لیے مالدہ شیوار میں "خانقاہ دارالتقوی" کا قیام عمل میں آچکا ہے، اس طرح دونوں کے فیوض و برکات شہر کے کناروں سے قلبِ شہر تک پہنچ رہے ہیں اور مستقل پہنچتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ العزیز 
 اللہ پاک نے چاہا تو راقم تاحیات ان سے منسلک رہ کر ان کے کاموں کو آگے بڑھانے کا فریضہ انجام دیتا رہے گا۔ ان شاء اللہ العزیز الرحیم 
__________ 

اے کاش!
    کچھ اَور وقت اور کچھ خانگی یکسوئی مزید ملتی [1] تو "کیا دیکھا کیا پایا؟" کے ضمن میں اپنے بقیہ تمام باکمال و باکردار اساتذہ مولانا مقبول اختر قاسمی صاحب، مفتی حامد ظفر رحمانی صاحب، مولانا یاسین احمد ملی صاحب، مولانا فضیل احمد ندوی صاحب، قاری محمد نعیم صاحب، مولانا اقبال آصف ملی صاحب، مرحوم و مغفور مولانا نہال احمد ملی صاحبؒ، مولانا جاوید احمد ملی صاحبؒ، اسی طرح منتظمین و مربیین میں حضرت قاضی صاحب، مولانا ازہری صاحب، مرحوم و مغفور و کرم فرما مولانا عبدالمتین ملی صاحبؒ اور عباس سر ؛ ان حضرات کی سیرت و اخلاق، صالحیت و صلاحیت، امتیازات و خصوصیات پر لکھتا؛ بے شک ان کا اپنے پر حق سمجھتا ہوں کہ ان حضرات کی خدمات کا اعتراف بھی کروں اور ان کے کمال سے دوسروں کو متعارف بھی کراؤں۔ 
     الحمدللہ خوشی ہے کہ دوسرے أبناء معہد اپنے ان تمام محسنین کا ذکر جمیل، دل کی محبتوں سے، بلند الفاظ میں کر رہے ہیں۔  فجزاہم اللہ خیر الجزاء 
([1] مضمون شہر سے باہر ہاسپٹل میں بیٹھ کر قلمبند ہورہا ہے اور پھر "یوم الاجتماع" بھی قریب ہے)
_____________________ 
(پیشکش بموقع 68 سالہ اجلاس برائے جمیع فضلاء معہد ملت 23 ستمبر 2021 بروز جمعرات)
_____________________ 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے