یہاں کی خاک سے انساں بنائے جاتے ہیں



بسم اللہ تعالیٰ 
*مادر علمی معہد ملت؛ کیا دیکھا کیا پایا؟ [3]*
نعیم الرحمن ملی ندوی (استاذ جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں) 
⬆️ گذشتہ سے پیوستہ... تیسری قسط
========================

یہاں کی خاک سے انساں بنائے جاتے ہیں 

〰️ معہد کے کیمپس میں 
〰️ اگر یہ دو استاذ نہ ہوتے؟ (حصہ اول) 

راقم الحروف نے سبھی اساتذہ سے استفادہ کیا، اس سلسلے میں ایک بات ہمیشہ ذہن میں رہی کہ ہر استاذ میں کوئی نہ کوئی امتیازی خوبی ہوتی ہے اور کچھ نہ کچھ نمایاں اخلاقی اقدار ہوتے ہیں، طالبعلم کو یہی خوبیاں اور اخلاق ان سے اخذ کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے؛ شہد کی مکھی کی طرح کہ وہ پھولوں پر بیٹھتی ہے اور میٹھا رس چوس لیتی ہے نہ کہ گھریلو مکھی کی طرح جو زخموں پر بیٹھتی ہے اور فاسد مواد، کچ لہو، پیپ وغیرہ سے اپنے کو آلودہ کرتی ہے۔ اس لئے راقم کو بھی خوبیاں ہی یاد رہیں، خامیاں نظرانداز بلکہ دل انداز کرتا رہا، راقم نے ہمیشہ شہد کی مکھی کی طرح خوبی کے پھولوں کا انتخاب کیا اور اپنے علمی و تربیتی سفر میں انہیں اکٹھا کرتے ہوئے چلا، اس طبیعت و مزاج نے بتوفیق اللہ تمام اساتذہ سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے اور عملی زندگی کا حصہ بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ لیکن عرض کرتا چلوں کہ دو اساتذہ سے سب سے زیادہ علمی و تربیتی فائدہ اٹھانے کی توفیق ہوئی، ان میں سے ایک *حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب* ہیں تو دوسرے *حضرت قاری الطاف حسین ملی صاحب* ہیں، ان دو شخصیتوں میں ایک نے تعلیمی رہنمائی فرمائی تو دوسرے نے خوب اچھی تربیت کی، ایک نے تعلیم میں اس درجہ باصلاحیت بنانے کی جدوجہد کی اور کامیاب ہوئے کہ استاذ تفسیر و حدیث کی حیثیت سے ممتاز دینی درسگاہ جامعہ ابو الحسن مالیگاؤں کے مسندِ درس پر بیٹھنے کا استحقاق حاصل ہوا تو دوسرے نے اخلاقِ قرآنی سے مزین کرنے کے ساتھ قرأتِ قرآن کی درستگی فرمائی اور منصبِ امامت کے لائق بنا کر مسجد عثمان بن عفانؓ کے منبر و محراب تک پہنچایا، ایک نے تحریر و تقریر کے ذریعے اچھا لکھنا بولنا سکھایا، تو دوسرے نے اس کے پیچھے اخلاقی جرات پیدا کی، ایک نے زبان کی اصلاح کی تو دوسرے نے قلب و روح کو مجلی و مصفی کیا، ایک نے درسگاہ صفہ کے معلم سے رشتہ جوڑتے ہوئے تعلیماتِ صفہ کا امین بنایا اور معلم کے مقامِ بلند پر فائز کیا تو دوسرے نے مسجدِ نبوی کے امام ﷺ سے متعلق کرتے ہوئے، منصب امامت سے مربوط کیا اور نائبینِ رسول ﷺ میں شامل کر دیا۔ ______ جس طرح بلند پرواز عقاب کے دو مضبوط بازو ہوتے ہیں جن کے سہارے وہ کھلی فضاؤں میں پرواز کرتا ہی چلا جاتا ہے، مخالف ہوائیں اس کے حوصلوں کو نہیں توڑتی، ان کی تیزی سے وہ نبرد آزما ہوتا ہے، وہ مضبوط پروں اور بازوؤں پر اعتماد کرتے ہوئے زبان حال سے اقبال کا یہ شعر گنگناتا ہے ‍‍؎
تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب 
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے 
اور مزید اونچی اڑان بھرتا چلا جاتا ہے بالکل ہی ایسے ہی یہ دونوں حضرات میری زندگی کی فضاؤں میں، میری پروازِ ترقی کے دو مضبوط بازو ہیں جن کے سہارے بلا خوف و خطر؛ فکر و نظر کی وادیوں پر بھی اڑان بھرتا جارہا ہوں اور تزکیے و سلوک کی منزلیں بھی طے ہوتی جارہی ہیں۔ فللہ الحمد والشکر علی ذلک ______ 

دعاءِ نعیم اور عطاءِ کریم :
جہاں تک یاد پڑتا ہے وہ یہ کہ یہ دونوں شخصیتیں ناچیز کی قبولیتِ دعا کا اثر ہیں، سال سوم، چہارم تک پہنچتے پہنچتے کامیاب شخصیتوں کی سیرت و اخلاق کا اور ان کی علمی و عملی ترقیات کا مطالعہ کرنے کی توفیق ہو چکی تھی، اُس وقت بات کھلی کے کامیاب شخصیتوں کے پیچھے کسی کی مستقل تعلیمی رہنمائی اور کردار کی دائمی اصلاح کی تربیت ہوتی ہے۔ یہ احساس دل میں رہ رہ کر اٹھتا تھا کہ کوئی مربی کوئی تعلیمی مشیر میرا بھی ہوتا، کوئی مخلص و خیرخواہ اس سفرِ علم و عمل میں رہبری و رہنمائی کرتا، ہوتے ہوتے یہ احساس دعا بنتا گیا اور اللہ پاک کے حضور راقم نے متعدد بار دعائیں کیں کہ اللہ پاک اپنے کسی بندے کی تربیت و رہنمائی عطا فرما۔ ذکر کرتا چلوں کہ ناچیز پر فضل رحماں رہا کہ جو بھی قابلِ ذکر نعمت ملی دعا کے راستے ہی ملی، جس سے نگاہ ہمیشہ اصل معطی کی طرف رہی اور شکر کے جذبات ہر موقع پر پیدا ہوتے رہے، رب سے بے مانگی و بے طلبی کی نعمت غفلت میں ڈال دیتی ہے اور ناشکری میں بھی مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ والحمد للہ علی ذلک... قصہ مختصر یہ کہ اس کے بعد آہستہ آہستہ بارگاہ کریمی سے مجھ ایسے حقیر سے بندے کے لیے بھی قبولیتِ دعا کی شکل بنتی گئی، سوم چہارم میں مولانا کی طرف رغبت بڑھی، مولانا کی توجہ حاصل ہوئی اور تعلقات روز بروز بڑھتے گئے، مولانا مطالعے کیلئے کتابوں کی رہنمائی فرماتے اور ناچیز امتثال امر میں جلد از جلد مطالعہ کرتا اور اس کا خلاصہ لکھ کر پیش کرتا رہا۔ مختصر یہ کہ تمام اساتذہ میں تعلیمی لائن سے مولانا جمال عارف صاحب ندوی سے قریب ہوا اور اپنا تعلیمی مشیر بناتے ہوئے آپ ہی کی رہنمائی میں کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا، آگے آپ بذات خود ندوۃ العلماء لے گئے اور وہاں سے واپسی کے بعد دوسالہ قرآن و حدیث کا خصوصی مطالعہ اپنی نگرانی میں کروایا اور آج جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں استاد تفسیر و حدیث کی حیثیت سے منسلک ہوں، یہاں تک پہنچنے میں مولانا کا سب سے بڑا کردار ہے۔
انہیں ایام میں قاری صاحب سے بھی قربت بڑھی، جھونپڑے کی مسجد میں آپ کی ہفتہ واری اصلاحی مجلس میں پابندی سے شرکت کرتا رہا اور آہستہ آہستہ خط و کتابت کرتا ہوا اپنی اصلاح کیلئے آپ کی طرف رجوع ہوا۔ مختصر یہ کہ تربیتی لائن سے قاری صاحب سے منسلک رہا، معہد کے کیمپس اور دوسرے مقامات پر آپ کے پاس بیٹھنے، آپ کے ساتھ رہنے سے بڑا نفع ہوا اور آگے چل کر اصلاح کا تعلق قائم کرتے ہوئے خط و کتابت اور ملاقاتیں تا حال جاری ہیں گویا راقم میں علم و عمل کے اعتبار سے جو بھی ترقی ہوئی انہیں دو اساتذہ کا فیض سب سے زیادہ رہا۔ اللہ پاک انہیں جزائے خیر دے اور تا دیر ان کا سایہ میرے سر پر قائم رکھے۔ 
کسی بھی ادارے کے کیمپس میں ایسے معلم و مربی اساتذہ کا ہونا بہت ضروری ہے، جو طلبہ کی زندگیوں کو صحیح رخ دیتے ہیں، ان کے لئے آئیڈیل بنتے ہیں اور ان کی زندگیوں میں علم و عمل کا انقلاب برپا کردیتے ہیں۔ راقم یہ تو نہیں کہتا کہ اگر یہ دونوں بافیض حضرات معہد کے کیمپس میں نہ ہوتے تو کیمپس اور طلباء معہد میں کیسا خلا رہ جاتا اور کیسی کمی، کسر ہوتی؟ لیکن اپنے بارے میں ضرور کہتا ہوں اور برملا کہتا ہوں، اُسی تعبیر میں جس میں ابوحنیفۃَ النعمانؒ کا یہ جملہ مشہور ہے؛ "لولا السنتانْ، لھلک النعمانْ" راقم بھی اپنے ان دو اساتذہ کے تعلق سے کہتا ہے؛ "لولا الاستاذان لضاع النعیم، ولا یعلم فی ای وادٍ یہیم" (کہ اگر یہ دو اساتذہ نہ ہوتے ، ان سے قریب نہ ہوتا ، ان سے تعلیم و تربیت نہ پاتا تو پتہ نہیں ابھی کہاں ہوتا اور کس حال میں ہوتا!) 
________________________
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان حضرات کی وہ کن سی خوبیاں ہیں جو مجھ سمیت طلبہ کو تعلیم و تربیت کی لائن سے اس قدر نفع پہنچاتی ہیں،عقل و دل دونوں کو سنوارتی ہوئی زندگیوں میں زبردست انقلاب برپا کردیتی ہیں؟ 
انہیں باتوں کا جائزہ آئندہ سطروں میں مختصراً پیش ہے۔
_____________________ 
جاری _______________
(پیشکش بموقع 68 سالہ اجلاس برائے جمیع فضلاء معہد ملت 23 ستمبر 2021 بروز جمعرات)
_____________________ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے