اساتذۂ معہد کی مفوضہ تدریس کے ساتھ مزید (ایکسٹرا) کاوشیں



*مادر علمی معہد ملت؛ کیا دیکھا کیا پایا؟ [2]*
نعیم الرحمن ملی ندوی 
استاذ جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں 
⬆️ گذشتہ سے پیوستہ ⬇️.⬅️ دوسری قسط

میں اِس کے سوا کس پہ فدا ہوں یہ بتادے 
لا مجھ کو دکھا! کوئی اگر اِس کی طرح ہے

*〰️ اساتذۂ معہد کی مفوضہ تدریس کے ساتھ* 
*〰️ مزید (ایکسٹرا) کاوشیں 
     کسی بھی ادارے کو اس کے مخلص اور محنتی اساتذہ ہی بامِ عروج تک پہنچاتے ہیں، اپنی محنتوں کو فقط درسگاہ اور کتابوں تک محدود رکھنے والے اساتذہ اپنے ادارے کی ترقیات کو محدود کردیتے ہیں، معہد ملت صرف مالیگاؤں ہی نہیں؛ آسمانِ مراٹھواڑہ و خاندیش پر چمکتا دمکتا روشن ستارہ ہے، لیکن اس کی چمک دمک کے پیچھے کس قسم کی محنتیں اور کن لوگوں کی جگر سوزی رہی ہے؟ یہ دیکھنا، دکھانا ضروری ہے۔ راقم الحروف نے اپنے عہدِ طالب علمی (2004 تا 2011) میں جو دیکھا بطور "مشتے نمونہ از خروارے" پیش ہے۔ 

1) *عربی کی پختہ استعداد* : 
(حضرت مولانا اشتیاق ضمیر ملی ندوی دامت برکاتہم) 

     معہد ملت اپنے فضلاء و فارغین میں عربی زبان و ادب کی امتیازی صلاحیت پیدا کرتا رہا ہے، عربی زبان میں تکلم کی مشق سے آغاز کرتے ہوئے، بے تکلف عربی لکھنے، بولنے کی صلاحیت اور عربی تقریر و خطابت کا ملکہ پیدا کرتا رہا ہے، راقم الحروف نے اپنے طلَب علمی کے زمانے میں ایسے طلبہ کی متعدد مثالیں دیکھیں، ایسے طلبہ کا تیار ہونا کسی خاص قابل استاذ کی خصوصی توجہ کے بغیر مشکل ہے۔ معہد میں اسی معہد کے فیض یافتہ و بافیض، قدیم و تجربہ کار استاد *"حضرت مولانا اشتیاق ضمیر ملی ندوی دامت برکاتہم"* کو راقم نے اس وصف سے متصف پایا، آپ نے طلباء معہد میں عربی زبان و ادب کی صلاحیت پیدا کرنے میں بنیادی و اہم ترین کردار ادا کیا ہے، آپ طلبہ پر عمومی محنت فرماتے، اس کے بعد عربی کا شوق رکھنے والے محنتی طلبہ پر خصوصی توجہ صرف کرتے، اسے مزید آگے لے جاتے، اس طرح افراد سازی کرتے ہوئے عربی زبان میں مضبوط استعداد اور اچھی صلاحیت رکھنے والے متعدد قادر الکلام طلبہ؛ معہد کے ذریعے قوم و ملت کو دیئے۔ راقم کو آپ سے بطورِ خاص "کفاک علما باللغۃ العربیۃ الثانی" پڑھنے اور درجہ میں آپ کی موجودگی میں ہفتہ واری "تدریب المحادثۃ العربیۃ : عربی گفتگو کی مشق" میں شامل ہونے کا موقع ملا، طلبہ کو اس کا انتظار رہا کرتا تھا، طلبہ پورے جوش و خروش سے اس میں حصہ لیتے، راقم بھی پیش پیش رہنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ الحمدللہ اسی مشق و مزاولت کا نتیجہ تھا کہ ندوۃ العلماء کے طلبہ سے بھی بلا جھجھک عربی میں روانی سے گفتگو کرلیا کرتا تھا۔ اور اس کے بعد جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں عربی ادب کی کتابوں کے "عربی میں درس دینے" میں یہ مشق کام آئی۔ 
     *عربی درس* کی تفصیل یہ ہے کہ تعلیمی و تربیتی نظام سے استفادہ کی غرض سے، فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کی ایما پر جامعہ ابوالحسن کا تدریسی عملہ مہتمم صاحب کے ساتھ جامعۃ العلوم (گڑھا، گجرات) گیا، وہاں ہم نے مشاہدہ کیا کہ عالمیت کے اونچے درجات میں عربی زبان و ادب کی کتابوں کا درس "مکمل عربی" میں ہوتا ہے اور تجربے سے اس کے بہتر نتائج حاصل ہوئے، مہتمم جامعہ مولانا جمال عارف ندوی صاحب نے ہم اساتذہ سے کہا کہ آپ لوگ بھی عربی ادب کی کتابوں "القراۃ الراشدہ، قصص النبیین، منثورات و مختارات وغیرہ" کو اسی نہج پر پڑھانا شروع کریں، سردست دو تہائی درس اردو میں اور ایک تہائی درس 10-15 منٹ عربی میں ہو۔ شروع کرنے سے پہلے تھوڑا تردد ہوا لیکن چند ہی دنوں میں ندوے، ملت کی عربی تکُّلم کی صلاحیت عود کر آئی اور رہ رہ کر احساس ہوا کہ یہ" استادِ گرامی مولانا اشتیاق ضمیر ملی ندوی دامت برکاتہم" کی محنت اور آپ ہی کا فیضان ہے جو درسگاہِ جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں زبانِ راقم سے جاری ہوا۔ 
     آپ کا *"نرالا طریقہٴ تدریس"* بھی عربی میں پختہ استعداد پیدا کرنے کیلئے منفرد اور انتہائی مفید و مؤثر پایا، آپ معہد کے ممتاز اور اپنے مضمون میں اطمینان بخش درس دینے والے کامیاب مدرسین کی صف میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو مضمون "اساتذۂ معہد کے مؤثر طریقہائے تدریس" میں تفصیل سے پیش کروں گا۔ ان شاء اللہ العزیز 
     دعا ہے کہ اللہ پاک مجھ سمیت آپ کے تمام شاگردوں کو دنیا میں آپ کی نیک نامی کا ذریعہ اور آخرت کیلئے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین 


2) *عالمیت کے طلبہ کو حفظ کی تاکید* : 
(مولانا زبیر احمد ملی ندیمی دامت برکاتہم) 

     ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچھی استعداد کا عالم دین ہے، تقریر و بیان بھی خوب کرلیتا ہے، اب اسے منصبِ امامت تفویض کیا جاتا ہے لیکن حضرت مولانا علامہ؛ حافظِ قرآن نہیں ہیں، نہ ہی نمازوں کی مسنون سورتیں اوساط و طوالِ مفصل یاد ہیں۔ ایسے میں فریضہ امامت بڑی مشکل میں پڑ جاتا ہے اور کچھ من چلے مصلیان بھی وہی سورتیں جو ان کو بھی یاد ہوتی ہیں بار بار سن کر کہتے ہیں کہ "امام صاحب وہی چھوٹی چھوٹی سورت بار بار پڑھاتے ہیں، یہ تو ہم بھی پڑھا لیں گے، لگتا ہے نا ان کو قرآن؛ کچھ یاد واد نہیں ہے۔" ایسے حالات نہ پیش آئیں اس کیلئے ضروری ہے کہ عالمیت کے طلبہ کو آخر کے چند پارے یاد کرنے کا پابند کیا جائے۔ اس نقطہ نظر سے استاذ محترم *"مولانا زبیر احمد ملی ندیمی دامت برکاتہم"* غیر حافظ طلبہ کو بڑی سورتوں کے ساتھ 29 _ 30 پارہ تجوید سے حفظ کرنے کی تاکید فرماتے، اوپر کی جماعتوں پنجم، ششم، ہفتم کے طلبہ کو نہ صرف ترغیب دیتے بلکہ اہمیت کے پیش نظر کبھی سننے کا اہتمام بھی کرلیتے تھے۔ بہت سے فارغین معہد اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آج امامت سے وابستہ ہیں اور بڑی سہولت سے فجر و عشاء میں بڑی مسنون سورتیں بھی پڑھا لیتے ہیں یہ مولانا زبیر صاحب کی برکت ہے، ان کا فیضان ہے، آپ نے ہمیں تاکید کرکر کے بڑی سورتیں اور آخر کے پاروں کو یاد کرایا ہے۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے، آپ کو صحت و سلامتی کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 

3) *خارجی اوقات میں بھی کلاسز* : 
(مولانا جمال عارف ندوی صاحب... مولانا سعید احمد ملی قاسمی صاحب... قاری الطاف حسین ملی صاحب...) 

     معہد کے اساتذہ میں ایسے اساتذہ بھی ہیں جو سال کے آخر میں طلبہ کے ذوق و شوق کے پیشِ نظر تعلیمی اوقات کے علاوہ دیگر خارجی اوقات میں عصر بعد، مغرب بعد ،عشاء کے بعد معہد تشریف لاتے اور باقاعدہ کلاسیں لگاکر درس دیا کرتے ہیں۔ 
     ایسے اساتذہ جن سے عصر اور عشاء کے بعد بھی پڑھنے کی سعادت ملی ان میں تین نام نمایاں ہیں، *مولانا جمال عارف ندوی صاحب* جن سے عشاء کے بعد حدیث کی کتاب "ریاض الصالحین" پڑھی، *مولانا سعید احمد ملی قاسمی صاحب* جن سے عصر کے بعد "ہدایہ" اور غالباً فارسی کتاب "گلستاں بوستاں" بھی پڑھی۔ اور تیسرے *قاری الطاف حسین ملی صاحب* ہیں جن سے سال دوم، سوم میں مسجد خالد بن ولیدؓ میں عصر کے بعد تجوید کی کچھ اہم کتابیں پڑھی اور عشاء کے بعد مشقیہ سورتیں سناتا رہا، یہ سلسلہ طویل عرصہ جاری رہا، اِس وقت آپ کے لئے فقط ایک جملہ کہوں گا کہ "آپ صرف قاری ہی نہیں قاری گََر بناتے ہیں (بروزن کاریگر) یعنی قرآن بالتجويد سیکھنا ہی نہیں سکھانے کا ہنر بھی دیتے ہیں ایسی تربیت کا گُر اساتذۂ معہد میں آپ میں سب سے فوق و بالا نظر آیا۔ (تفصیلی تذکرہ اگلی قسط میں ان شاء اللہ) 
      دوسرے اور بھی اساتذہ خارجی اوقات میں پڑھاتے رہے ہیں۔ معہد ملت شہر کے مضافاتی علاقے میں ہے، مقامی طلبہ (راقم بھی مقامی ہی تھا) صبح دوپہر سائیکل سے لمبی مسافت طے کرکے معہد آتے اور پھر عصر اور عشاء کے بعد سہ بارہ اور چوبارہ بھی طلب علم کا شوق طلبہ کو کھینچ لاتا، اساتذہ بھی طلبہ کے اشتیاق کو دیکھتے ہوئے گھر بار، اہل و عیال کی دوسری ضروریات نظرانداز کرتے ہوئے کشاں کشاں معہد تشریف لے آتے، الگ ہی کیف و سرور اس مشقت میں، اس تگ و دو میں پنہاں تھا جو حصولِ علم کے سفر میں تھکنے نہیں دیتا تھا۔ اللہ پاک اساتذۂ معہد کو دارین میں خوب اچھا بدلہ دے۔ 

4) *علمی و روحانی تربیت کا نظام* : 
(قاری الطاف حسین ملی صاحب... مولانا جمال عارف ندوی صاحب...)

     کہا جاتا ہے کہ "تعلیم کی کمی ذاتی مطالعہ سے پوری کی جاسکتی ہے لیکن تربیت کی کمی پوری کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔" کہنے والوں نے سچ ہی کہا ہے۔ اس لئے کہ ساری دنیا کے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح؛ مساجد میں جماعت کے تبلیغی نظام سے جُڑ کر اور مدرسے و خانقاہوں کے ماحول میں آکر ہوجاتی ہے لیکن اگر کوئی اس نظام میں رہ کر بھی نہ سدھر سکا تو کہا جاتا ہے کہ "یہاں کا بگڑا؛ کہیں نہیں سدھرتا" یقیناً یہ بھی سچ ہی کہا جاتا ہے۔ اس بات کا احساس، اس درد کی چبھن اصلاح و تربیت کے نظام سے خصوصی تعلق رکھنے والے حساس طبیعت صلحاء کو بخوبی ہوتی ہے۔ معہد کے کیمپس میں یہ احساس بہت واضح طور پر جس شخصیت میں تھا، جسے طلبہ کی اصلاح و تربیت کی فکر بے چین رکھتی تھی وہ ہیں استاذ گرامی *حضرت قاری الطاف حسین ملی صاحب حفظہ اللہ ورعاہ،* اس سلسلے میں آپ کی فکر و کڑھن اور جہد پیہم ناقابل فراموش ہیں، اس سلسلے میں خاص قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ آپ نے *"معہد کے کیمپس میں اہل اللہ کی آمد اور طلبہ کے تربیتی نظام کے ساتھ ان کے چند روزہ قیام کرتے رہنے کی"* عملی کوششیں فرمائی اور متعدد مرتبہ روحانی شخصیتوں کے قیام کروانے کی کوششیں کامیاب ہوئیں جن کا بڑا فائدہ طلبہ اور اساتذہ نے اٹھایا، راقم کے زمانہ طالب علمی میں جامع شریعت و طریقت، علوم اسلامیہ کے بحر ذخار *"حضرت مولانا قمرالزماں صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم"* کی تشریف آوری ہوئی، راقم کو بھی خدمت کے ساتھیوں میں شامل کیا گیا تھا، حضرت کے انتہائی قریب رہنے اور _صلوا *کما رایتمونی* اصلی_ کے پس منظر میں "دیکھتے رہنے؛ سیکھتے رہنے" کی سعادت حاصل ہوئی، معہد میں ذکر و فکر اور روحانی و اخلاقی تربیت کے نظام میں نئی جان پڑگئی، اس کے خوشگوار اثرات کیمپس کی فضا میں محسوس ہوئے، نہ صرف طلباء نے ان کی ذات بابرکات سے اکتسابِ فیض کیا بلکہ کبار اساتذۂ معہد کا آپ سے اصلاحی تعلق ایسا مضبوط ہوا کہ چند سالوں ہی میں حضرت الہ آبادی کی طرف سے انہیں اجازت و خلافت سے سرفراز کیا گیا۔ معہد کے کیمپس میں متعدد "مُجازِین و خلفائے مولانا قمر الزمان الہ آبادی" موجود ہیں۔ اللہ پاک معہد کے تئیں قاری صاحب کی مساعی جمیلہ کو شرفِ قبولیت بخشے اور بہترین جزا عطا فرمائے۔ آمین 
بالکل اسی نہج پر علمی شخصیات کا بھی ایسا ہی قیام انتہائی مفید ہے، اس سلسلے میں ملک کے مایہ ناز عالم دین، شیخ الحدیث و صدر مفتی ندوۃ العلماء لکھنؤ *"حضرت مولانا نیاز احمد ندوی صاحب دامت برکاتہم"* کی معہد ملت آمد بخوبی یاد ہے استاذِ محترم *حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب دامت برکاتہم* کی کوششوں اور محبتوں نے آپ کو معہد لے ہی آیا تھا۔ آپ نے پورے دس روز قیام فرماکر معہد کے اونچے درجات کے طلبہ کو "بخاری شریف، ترمذی شریف، نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر" وغیرہ حدیث کی کتابوں اور عربی کتابوں کا درس دے کر مستفیض فرمایا تھا، بلا ریب طلبہ کے ساتھ اساتذہ نے بھی علمی استفادہ کیا، مؤثر درس دینے کے اسلوب و انداز کو دیکھا اور اپنایا۔ اللہ پاک استاذ گرامی کو بھی شایانِ شان اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین 

5) *اساتذہ کا اپنے طلبہ سے تعلق* : 
     کوئی استاذ فقط درسگاہ تک اپنی تعلیم و تربیت کو محدود رکھتا ہے تو یہ *"نبوی شانِ معلمی"* نہیں، آپ ﷺ معلمِ أصحابِ صفہ تھے لیکن صحابہ طلبہؓ کو ساتھ رکھ کر، قریب کرکے تربیت بھی فرماتے، کبھی اپنے ساتھ لیکر تعلیمی گشت کرتے اور راہ میں آنے والی چیزوں سے بروقت و برمحل بلیغ مثالیں بھی پیش کرتے جیسے ایک مرتبہ چند صحابہ کرامؓ کے ساتھ ایک کوڑے دان سے گزرے تو ایک مُردار بکری پر نگاہ پڑی، آپ ﷺ نے؛ اللہ کے ہاں دنیا کی بے حقیقتی کو، اِس مردہ بکری کے اُس کے مالک کے نزدیک اُس کی بے قیمتی سے مثال دی اور اپنی تعلیم کو صحابہؓ کی آنکھوں کے راستے دل میں اتار دیا۔ اسی طرح موسیؑ اور خضرؓ کے واقعہ میں *"تربیتی شانِ خضری"* اس بات کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ استاد؛ طالبعلم کو کس درجہ قریب رکھے اور کس انداز میں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کرے۔ معہد کے کیمپس میں ایسے اوصاف کے حامل اساتذہ بھی اچھی تعداد میں ہیں جو درسگاہ کے علاوہ بھی، اپنی عوامی ملاقاتوں کے مقامات تک طلبہ کو رسائی دیتے ہیں، ان پر اپنی بزرگانہ شفقت و مربیانہ نگاہ رکھتے ہیں، بغرض اصلاح اپنے سے جوڑے رکھتے ہیں، یقیناً ایسے استاد؛ طلبہ کے دلوں میں اپنی جگہ بنالیتے ہیں بلکہ اپنے کو بسالیتے ہیں، طلبہ کے قلوب ان کی عقیدت و محبت سے بھر جاتے ہیں۔ راقم الحروف ایسے متعدد اساتذہ سے قریب ہوا اور ان سے استفادہ کرتا رہا، فراغت کے بعد بھی ان سے راہ عمل میں درپیش مسائل کے حل اور ان کے بیش بہا تجربات سے فائدہ اٹھاتا رہا؛ انہیں میں ایک نام *"شفیق و بزرگ استاذ حضرت مولانا ادریس عقیل ملی قاسمی دامت برکاتہم"* کا ہے، آپ سے درجہ ہفتم میں بخاری و مسلم شریف پڑھنے کی سعادت ملی۔ آپ کی بزرگانہ شفقت اور حکیمانہ تربیت سے راقم نے اپنے ظرف کے بقدر گاہے بگاہے فائدہ اٹھایا، حضرت مولانا عصر بعد کی ملاقاتوں میں راقم کو حاضرِ خدمت ہونے کا موقع عنایت فرماتے، مسجد و مدرسہ کی کارکردگی اور حالات سنتے اور باتوں باتوں میں بڑے تجربے اور کام کی باتیں اپنے اس چھوٹے سے شاگرد کو بتادیتے۔ اللہ پاک آپ کو صحت و عافیت کے ساتھ تادیر ہمارے درمیان رکھے۔ آمین یا رب العالمین 
     یہی شانِ تربیت بلکہ کچھ اس سے سِوا دو اساتذہ مولانا جمال عارف ندوی اور قاری الطاف حسین ملی صاحبان میں پائی جاتی ہے جن سے راقم نے سب سے زیادہ علمی و روحانی کسبِ فیض کیا اور میری طرح سینکڑوں طلبہ ان دونوں حضرات سے جڑے ہوئے ہیں۔ دونوں حضرات کا تفصیلی تذکرہ ان شاء اللہ العزیز اگلی قسط میں 
جاری ______________ 

(پیشکش بموقع 68 سالہ اجلاس برائے جمیع فضلاء معہد ملت، 23 ستمبر 2021، بروز جمعرات)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے