مادر علمی معہد ملت؛ کیا دیکھا کیا پایا؟ [1]



نعیم الرحمن ملی ندوی 
(استاذ جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں) 

*الہٰی یہ کیا نصیبہ ہے!*
       ٹھوڑی پر ہاتھ دھرے، نظریں زمین پر گاڑے، اپنے ماضی میں جھانکتا ہوں، اپنے عہد طالبعلمی پر نظر ڈالتا ہوں، تو فخر سے گردن اٹھتی چلی جاتی ہے، پھر یہ فخر؛ شکر کے جذبات میں بدلتا ہے اور گردن اس اظہارِ تشکر سے رب کے حضور ڈھلک جاتی ہے کہ "اللہ پاک نے مجھ ناچیز کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے جس ادارہ کا انتخاب فرمایا وہ صرف مسجدوں، میناروں، مدارس و خانقاہوں کے شہر مالیگاؤں میں ہی ممتاز نہیں بلکہ پورے مراٹھواڑہ و مہاراشٹر کی ممتاز ترین درسگاہ معہد ملت ہے۔ جن میں ان قابل و مخلص اساتذہ کی تربیت و تعلیم میسر آئی جو بیشتر صلاحیت و صالحیت کو جمع کرنے والے ہیں۔" الحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات: شکر اللہ کا جس کے ارادہ خیر سے بھلی چیزیں کمال کو پہنچتی ہیں۔ 

        اس معہد ملت کی چار دیواری کے علمی ماحول اور اساتذہ کی تعلیم نے ملک کی ممتاز درسگاہ ندوۃ العلماء لکھنؤ تک پہنچایا، اسی کی نسبت نے وہاں کے ممتحن حضرات سے لیکر آگے درس دینے والے اساتذہ تک کے درمیان قدردانی بخشی۔ ممتحن حضرات نے سوال کیا؛ کس مدرسہ سے آئے ہو؟ کہا: معہد ملت مالیگاؤں سے... اچھا! مولانا نعمانی ،مولانا محمد حنیف ملی کے مدرسہ سے؟ مولانا جمال عارف صاحب لائے ہیں؟ کفاک پڑھ کر آئے ہو! قاضی صاحب کیسے ہیں؟ وغیرہ 
       اس کے بعد معتمد و ذی استعداد طالبعلم سمجھ کر مرحلہ امتحان سے گذارا گیا۔ بعد میں بھی مولانا نذر الحفیظ، مولانا عبدالقادر صاحب جیسے دوسرے اساتذۂ ندوہ سے معہد و استاذ معہد مولانا جمال عارف ندوی صاحب کی نسبت سے اچھی علمی و مطالعاتی رہنمائی ملتی رہی۔ 
دل سے صدا نکلتی ہے سبحان اللہ! الہٰی یہ کیا نصیبہ ہے!

*یادِ ماضی کا نشاط :*
       انسان اگر غور کرے تو اسے احساس ہوگا کہ شیرینی و نشاط کسی چیز میں سب سے بڑھ کر ہے تو وہ ہیں *ماضی کی یادیں* بطور خاص شفیق و مہربان ماں سے جڑی ہوئی یادیں؛ چاہے وہ مادرِ جسمی ہو یا مادرِ علمی..... کسی نے کیا خوب کہا ہے  ¬ یادِ ماضی نشاط ہے یا رب  ___ بخش دے مجھ کو حافظہ میرا
       23 ستمبر 2021 ابنائے قدیم معہد ملت کے اجتماع کی مناسبت سے کچھ باتیں، کچھ خوشگوار یادیں ذہن کے پردوں پر نمودار ہورہی ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انہیں *"مادر علمی معہد ملت؛ کیا دیکھا کیا پایا؟"* کے عنوان سے سپرد قرطاس کردوں، چنانچہ مضمون سلسلہ وار پیش خدمت ہے۔ امید ہے یہ سلسلہ دوسرے ابنائے قدیم و جدید کو مہمیز کرے اور وہ بھی اپنے فیضِ معہد و فیضانِ نعمانی کو سامنے لائیں۔
_____________________ 

*معہد ملت میں داخلہ کیوں؟:* 
       والد بزرگوار مولانا ابواسامہ یوسفی أطال اللہ بقاءہ مدرسہ اسلامیہ (واقع بڑا قبرستان) میں تدریس سے وابستہ تھے، اور قدیم اساتذہ میں گنے جاتے تھے، وہاں عربی اول تک کی تعلیم حاصل کی، کم عمری کے سبب والد صاحب نے حفظ قرآن کیلئے مدرسہ تعلیم الفرقان (واقع بھاؤ میاں مسجد) میں داخل کردیا، چند سالوں میں تکمیل حفظ قرآن کے بعد شہر بھر کے دوسرے تمام مدارس کے ہوتے ہوئے بشمول اپنے مدرسے کے انہوں نے *"بہترین نصاب و نظام، قابل اساتذہ اور عربی زبان و ادب میں نتیجہ خیز تعلیم"* کے سبب معہد ملت کو ترجیح دی اور 2005 میں راقم الحروف کا شعبۂ عالمیت میں داخلہ کرادیا۔ سات سال یہاں تعلیم حاصل کی، اساتذہ کی توجہات و رہنمائی کے سبب ہر درجہ میں ممتاز رہا، حتی کہ آخری درجے سالِ ہفتم میں شہر و بیرون شہر کے 52 طلبہ میں اول نمبر سے کامیابی ملی۔ الحمدللہ توقع سے بڑھ کر تعلیمی و تربیتی ماحول ملا، قابل و مخلص اساتذہ ملے، بتوفيق اللہ ہر اعتبار سے خوب استفادہ کیا۔ والحمد للہ علی ذلک
جاری ______________ 

(بموقع 68 سالہ اجلاس برائے جمیع فضلاء معہد ملت 23 ستمبر 2021 بروز جمعرات) 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے