کھلونا بندوق 🔫 سے کتے بلیوں کا شکار

نعیم الرحمن ندوی
راقم الحروف ابھی گھر سے مٹی دینے بڑا قبرستان گیا؛ بچشم خود قریب ہر گلی محلے میں بچوں کو کتے، بلی کا شکار کرتے دیکھتا رہا، آنکھوں والے اسے محسوس بھی کر رہے ہیں، آخر واپسی میں کتے کو نشانہ بناتے ہوئے بچوں کے ایک گروپ کو بلاکر ناصحانہ انداز میں سمجھایا کہ
دیکھو بیٹے! جانور بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، بے زبان ہوتے ہیں، ان کو تکلیف دینا کوئی معمولی گناہ نہیں ہے، کبھی جانوروں کے ساتھ بے رحمی پر جہنم کا فیصلہ کردیا جاتا ہے تو کبھی ان سے رحمدلی کے برتاؤ پر جنت میں ڈال دیا جاتا ہے۔
وہ واقعہ یاد ہے نا؟
ایک عبادت گزار نیک عورت نے بلی کو گھر میں باندھ کر بھوکا پیاسا رکھا تو بے چاری مرگئی، اس کو جہنم میں ڈالے جانے کا حکم ہوا اور ایک بہت بری عورت نے پیاسے کتے کو پانی پلایا اس کو جنت میں ڈالا گیا۔
یہ دیکھو! وہاں بند گھر کا تالا 🛅 دکھ رہا ہے ایسی کسی چیز کو ٹارگٹ کرکے نشانہ پکا کرنا سیکھو۔ سمجھے؟ بچوں نے باتوں کو دلچسپی سے سنا اور قبول کیا۔
 
 اسی طرح حدیث کی روشنی میں ہم اپنے نونہالوں کے کھیل کو صحیح رخ دے دیں اور انہیں رحمدل بہادر بنائیں، اس نقطہ نظر سے کہ کھلونے بھی بچوں کے مستقبل کو رخ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ موضوع سے متعلق دونوں حدیث ملاحظہ فرمائیں۔

*کتے کو پانی پلانے والی / پلانے والا:*
            عَنْ اَبیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ رَجُلًا رَاٰی کَلْبًا یَأْکُلُ الثَّریٰ مِنَ العَطَشِ فَاَخَذَ الرَّجُلُ خُفَّہٗ فَجَعَلَ یَغْرِفُ لَہٗ بِہٖ حَتّٰی اَرْوَاہُ فَشَکَرَ اللّٰہُ لَہٗ فَاَدْخَلَہُ الْجَنَّۃَ۔ (بخاری، ج۱، باب اذا شرب الکلب فی الاناء، ص۲۹)
            ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور نبی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ایک آدمی نے ایک کتے کو دیکھا جو پیاس کی و   جہ سے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا تو اس شخص نے اپنا موزہ لیا اور اس میں چلو سے پانی بھر کر اس کتے کو پلایا یہاں تک کہ وہ سیراب ہوگیا تو  اللہ   تَعَالٰی  کو اس کا یہ کام پسند آیا اور اس کو جنت میں داخل کردیا۔

یہ حدیث مسلم شریف میں ’’باب الحیوان‘‘ میں اور بخاری شریف کی ایک روایت میں یوں بھی آیا ہے کہ اس حدیث کو سُن کر صحابہ کرام رَضِیَ  اللہ عَنْہُم نے عرض کیاکہ یا رسول  اللہ!  کیا چوپایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں بھی ہم کو ثواب ملے گا؟ تو ارشاد فرمایا کہ ہاں ’’فِیْ کُلِّ کَبِدٍ رَطْبَۃٍ اَجْرٌ ‘‘  ہر گیلے جگر میں یعنی ہر جاندار کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں ثواب ہے۔(قسطلانی ، ج۱، ص۴۴۲)
______________ 
جبکہ ایک عورت کو جہنّم میں اس لئے عذاب دیا جا رہا تھا کہ اس نے بلی کو باندھ کر رکھا، کھانے پینے کو نہ دیا یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی۔

 ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهُ أَعْلَمُ لَا أَنْتِ أَطْعَمْتِهَا وَلَا سَقَيْتِهَا حِينَ حَبَسْتِيهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أَنْتِ أَرْسَلْتِهَا فَأَكَلَتْ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ. (صحیح بخاری حدیث نمبر: 2365) 
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا، ایک عورت کو عذاب، ایک بلی کی وجہ سے ہوا جسے اس نے اتنی دیر تک باندھے رکھا تھا کہ وہ بھوک کی وجہ سے مرگئی۔ اور وہ عورت اسی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوئی۔ نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا تھا اور اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جاننے والا ہے کہ جب تو نے اس بلی کو باندھے رکھا اس وقت تک نہ تو نے اسے کھلایا نہ پلایا اور نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتی۔


*گذشتہ سال کے واقعات کو یاد کریں* 
پچھلے سال لال مسجد کے پاس ایک بچے کی آنکھ پھوٹی تھی بندوق سے؛ دو روز تک جھگڑا چلا تھا۔
ناندیڑی اسکول کے پاس چند بچوں نے ایک کتے کو گھیر کر بندوق سے اتنے چھرے مارے کہ وہ مرگیا واٹس ایپ پر فوٹو آیا تھا۔ مجرمانہ نفسیات اس طرح کہ *آج کتا مارے ہیں کل بڑے ہوکر آپسی جھگڑوں میں انسان ماریں گے۔*

 اسی طرح ایک ستر سالہ بزرگ کو کسی بچے نے بندوق سے نشانہ بنایا، موتی تیز رفتاری کے ساتھ سیدھا ان کے سینے پر جاکر لگا، وہ دل کے مریض تھے، اگر موتی براہ راست دل پر لگتا تو بڑے نقصان کا اندیشہ تھا، یہی موتی بچوں اور راہ گیروں کی آنکھ اور دیگر نازک جگہوں پر بھی لگ کر ان کو بڑے نقصان سے دوچار کرسکتا ہے، جس سے زندگی بھر بینائی سے محرومی بھی ہوسکتی ہے۔ مزید ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے اور زیر کرنے کا یہ کھیل بچوں کے مزاج حصہ بنے گا تو لازما ان میں تحمل اور برداشت کا مادہ ختم ہو جائے گا، جس کی روک تھام کے لئے والدین کو اپنا کردار نبھانا ہوگا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے