عائشہ؛ جہیز کی ستائی ہوئی اور ایک بغیر جہیز کا نکاح



عائشہ؛ جہیز کی ستائی ہوئی
اور ایک بغیر جہیز کا نکاح 
نعیم الرحمن ندوی 

     اب جبکہ اُس حادثہ جاں گُسِل جس نے ملت کے ہر حساس فرد کو دہلا دیا تھا، دردمندوں نے زبان و قلم سے دل کے حزن و غم کو بہایا، اور خوب بہایا کہ ہر طرف اسی واقعہ کا چرچا رہا یعنی احمد آباد کی عائشہ کی خودکُشی جو شوہر کی محبت کی ماری اور ہوسِ جہیز کی ستائی ہوئی تھی۔ اس حادثے کو گزرے قریب ہفتہ عشرہ ہونے کو ہے، ذہن و دل نے کچھ سوچنا شروع کیا تو کچھ باتیں ذرا الگ انداز میں خیال میں آئیں۔

     عائشہ کے وہ الفاظ جو اس نے وفورِ جذبات میں آخری ویڈیو میں کہے، پھر اگلی چند ساعتوں میں مردہ نعش کی تصویریں گردش میں آئیں، ان سب کے پس منظر میں راقم کو ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو ایک صحابیہؓ کے ساتھ نبی علیہ السلام کی موجودگی میں پیش آیا۔
واقعہ یہ ہے کہ 
     ایک غزوہ سے واپسی کے وقت صحابیاتؓ اپنے عزیزوں کے استقبال کے لئے کھڑی ہیں، انہیں میں حمنہ بنت جحشؓ بھی ہیں، انہیں خبر دی گئی کہ تمہارے بھائی عبداللہؓ بن جحش شہید ہوگئے۔ انہوں نے انا للہ.... پڑھا اور رحمت و مغفرت کی دعا کی، کچھ دیر کے بعد ان کے ماموں حمزہؓ بن عبدالمطلب کی شہادت کی اطلاع دی گئی، سن کر انا للہ..... پڑھا، رحمت و مغفرت کی دعا کی۔ اس کے بعد کسی نے ان کے شوہر مصعبؓ بن عمیر کی شہادت کی خبر دی۔ سن کر انتہائی غم و اندوہ کے عالم میں انا للہ... کہنا بھول گئیں، رحمت و مغفرت کی دعا بھی یاد نہ رہی اور شوہر کی جدائی کے غم میں زبان سے نکلا "يا حَرَباه" ہائے جنگ کی مصیبت! ... ایک روایت میں ہے ... "واحُزُنَاه" ہائے میرا حزن و ملال ______ یہ ساری کیفیات و کلام سن کر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : إنَّ للزَّوجِ مِنَ المرأةِ لشُعبةً ليستْ لِشيءٍ ..... بلاشبہ بیوی کو شوہر سے جو محبت و تعلق ہے وہ کسی سے نہیں ہے۔ ایک روایت میں ہے؛ آپ ﷺ نے فرمایا : إن للمرأةِ لشُعبةً من الرجلِ ما هي له في شيء. (عربی عبارت مع حوالہ بلاگر پر) 

     درج بالا واقعے میں خاتون کو بھائی کی موت سنائی گئی، ہوش و حواس باقی رہے، ماموں کی شہادت کا بتایا گیا برداشت کر گئی لیکن شوہر کے انتقال کی خبر پر حواس باختہ ہوگئی، اس سے معلوم ہوا کہ 
*بیوی کے دل میں شوہر کیلئے جو محبت ہوتی ہے وہ کسی اور کے لیے نہیں ہوتی چاہے وہ باپ ہو، بھائی ہو یا اور کوئی رشتہ رکھنے والا .....* 
______________________ 
     اب احمد آباد کی اس بیٹی کے *اہم فقرے* سنیے! ______ میرا نام ہے عائشہ *عارف خان* ______ پیارے ابو! کہاں تک لڑیں گے *اپنوں سے،*..... کیس واپس لے لو، ... نہیں لڑنا، عائشہ لڑائیوں کے لئے نہیں بنی، ..... *پیار کرتے ہیں عارف سے، پریشان تھوڑی نہ کریں گے، اگر اسے آزادی چاہیے تو ٹھیک ہے وہ آزاد رہے* چلو ______ 
عائشہ کے یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ شوہر کی محبت اس کے رگ و ریشہ میں اتر چکی تھی، صرفِ نظر اس سے کہ اسکی محبت کا آغاز قبل نکاح ہوا یا بعد میں لیکن بے حس شوہر نے بحیثیت بیوی اسکی محبت کی قدر نہیں کی جیسے اسکے سینے میں دل نہیں پتھر کی سِل ہو، یا مادی چیزوں کی ہوس نے اس کے انسانی احساس کو مار دیا کہ ایسی محبت کرنے والی شریکِ حیات کے چلے کے بعد بھی اسے کھودینے کا اب بھی کوئی ملال نہیں...... 
وائے ناکامی متاعِ خانداں جاتا رہا 
خانداں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا 
....................... 

لیکن اصل بات یہ ہے کہ 
    یہ صرف عائشہ کی خصوصیت نہیں تھی بلکہ ہر بیوی اپنے شوہر کو ایسا ہی ٹوٹ کر بکھر کر پیار کرتی ہے، گرچہ اس کے اظہار کو اکثر حیا حائل ہوجاتی ہے لیکن بیوی کا پیار شوہر کیلئے بے مثال ہوتا ہےـ افسوس ہوتا ہے کہ بے حس لوگ مال و دولت اور صوفے فرنیچر جیسی حقیر مادی چیزوں کی ہوس میں اسے محسوس نہیں کرتے اور محبت سے بھرے نازک آبگینوں کو چکنا چور کر دیتے ہیں۔ جہیز کا مطالبہ کرنے والے حقیقت میں اپنی اگلی شادی شدہ زندگی کا بہت بڑا نقصان کرتے ہیں، بیوی اور سسرال میں اپنی عزت کھوتے ہیں ساتھ ہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ناراض کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ "بے مانگا جہیز" بھی نہیں لیتے وہ اسی دنیا میں بڑی خیر و برکات کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کرتے ہیں۔  

میرا بغیر جہیز کا نکاح 
     اللہ پاک اجر ضائع نہ فرمائیں، ذاتی واقعات کی اپنی تاثیر ہوتی ہے، نوجوانانِ ملت کے مفاد میں کچھ ذاتی باتیں بہت سمیٹ کر پیش کرتا ہوں۔ اس امید پر ______ شاید کہ اتر جائے کسی دل میں مری بات ______ 
     راقم الحروف کو نیک لوگوں کی صحبت اور اللہ پاک کی توفیق تھی، ایک جذبہ تھا کہ نکاح میں حتی الامکان ہر چیز سنت کے مطابق ہو، "مسنون نکاح کی کتابوں" کو پڑھا، اور گھر والوں کے سامنے طاقت و دلیل سے یہ بات رکھا کہ نکاح میں ہر چیز سنت کے مطابق کروں گا، نبی علیہ السلام نے گیارہ نکاح فرمائے کسی میں جہیز کا لین دین نہیں ہوا، چار بیٹیوں کا نکاح کیا کسی کو جہیز نہیں دیا، یہ چیز اسلام میں ہے ہی نہیں، حضرت فاطمہؓ کو جہیز نہیں دیا بلکہ حضرت علیؓ کی کفالت کی تھی، بیٹے کی جگہ پالا تھا تو بیٹے کا گھر بسانے کے لئے باپ کی حیثیت سے سامانِ ضرورت کا انتظام کیا۔ الحمد للہ گھر والے مطمئن ہوگئے، سسرال میں اطلاع دی وہ بھی بخوشی مان گئے۔ 2014 میں نکاح ہوا الحمد للہ جہیز نہیں لیا، گھر والوں پر بوجھ بھی نہیں ڈالا، مہر کی رقم بھی والد سے نہیں لی، اپنی جیب سے دی، مختصر سا ولیمہ کرکے گھر بسالیا۔ ضرورت کے برتن ایک ایک کرکے خریدتا گیا، میری کم معاشی کا اندازہ لگانے کے لئے یہ استعارہ کافی ہوگا کہ ناچیز مولوی ابن مولوی ہے اور مسجد، مدرسہ سے ہی منسلک رہا ہے لیکن اس معاملے میں "ہمتِ مرداں مددِ خدا" کی مَثَلْ مجھ پر اَصَلْ ہوگئی۔ اور الحمدللہ آج گھر شاد و آباد ہےـ بغیر جہیز کے مسنون نکاح کی برکت ہے کہ سات سال ہی ہورہا ہے اللہ پاک نے مادی و قلبی ہر قسم کی نعمتوں سے مالا مال فرما دیا ہے، ہم میاں بیوی کے آپسی محبتانہ برتاؤ کو دو جملوں میں سمیٹوں تو وہی کہوں گا جو اکثر رشتہ داروں میں خیریت دریافت کئے جانے پر زبان سے نکلتا ہے کہ *"اللہ کا فضل ہے دنیا ہی میں چھوٹی سی جنت میں ہوں اور یہ میری بیوی اس جنت کی حور ہے جس میں حوروں کی سی صفات و اخلاق جلوہ گر ہےـ"*
     درج بالا پیراگراف سے معلوم ہوتا ہوگا کہ اگر قوم کے نوجوان سنت و شریعت پر آنے کی ٹھان لے تو پھر نہ سماج آڑے آئے گا نہ گھر کے لوگ اور اللہ پاک کی مدد کھلے طور پر محسوس ہوگی۔ ان شاء اللہ 

بیوی کی محبت کا احساس 
     بیوی کی محبت و مودت کا اظہار عام حالات میں مخفی ہوتا ہے لیکن اس کا احساس بار بار ہوسکتا ہے بس ذرا سا __ غور و فکر __ اور مثبت سوچ سے کام لینے کی ضرورت ہے، جسمانی و جنسی راحت سے بڑھ کر روحانی و قلبی سکون کا احساس ہوگا اور بار بار ہوگا۔ اور کیوں نہ ہو کہ اللہ پاک نے میاں بیوی کے رشتے کی کیفیتوں کو اپنی تخلیق کی اہم نشانی قرار دیا ہے، ساتھ غور و فکر کی دعوت دی ہے، ارشاد فرمایا؛ وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكُمۡ مَّوَدَّةً وَّرَحۡمَةً ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ *لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ* ۞ - - - اور اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کے جذبات رکھ دیئے، یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو *غور و فکر* سے کام لیتے ہیں۔
      ہمیں اپنی بیویوں کے ان جذبات کی قدر کرنی چاہیے بدلہ میں گھر؛ جنت کا سکون دے گا اور بیوی؛ حوروں کی سی راحت فراہم کرے گی۔ طبعی کراہتوں اور مزاج کی ناہمواری کو نظرانداز کرنا ہوگا یہ سوچتے ہوئے کہ اس دنیا میں یہی فطرت کا تقاضا ہے اور اسی ناگواری کی چیز سے دل کی محبوب چیز اولاد ملتی ہے، عقل کی کمی؛ جذبات کی زیادتی یہی اس صنفِ نازک کی خوبی اور ساتھ رہنے کا حقیقی مزا ہےـ 

اللہ پاک کی تاکید 
     ہمیں اپنی بیویوں، بہوؤں کی قدر کرنا اور ان کے حقوق کا ازحد خیال رکھنا چاہیے، سوچنا چاہیے کہ یہ عورتیں ہماری بیویاں بہوؤیں بعد میں ہیں پہلے پیدا کرنے والے؛ اللہ کی بندیاں ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ پاک نے عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی گویا سفارش کی ہے اور مردوں کو مخاطب کرکے ایسے بلیغ انداز میں ان کی خوبیوں اور خامیوں کو بیان کردیا ہے کہ سمجھنے والے اچھے سے سمجھ لیں، ارشاد ہے؛ وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ ۚ فَاِنۡ كَرِهۡتُمُوۡهُنَّ فَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡـئًـا وَّيَجۡعَلَ اللّٰهُ فِيۡهِ خَيۡرًا كَثِيۡرًا ۞ - - - اور ان (عورتوں) کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو، پھر اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔
     بھلا جن کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کی ہدایت و تاکید اللہ پاک فرماتے ہوں اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا رویہ کیسا بڑا ظلم ہوگا! 

      چلتے چلتے آخری بات عرض ہے کہ جہیز کی لعنت جب اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ بہن بیٹیاں خودکشی اور ارتداد کی طرف جارہی ہیں تو کیوں نہ اس رسمِ جہیز کو ہی سابرمتی ندی میں ہمیشہ کیلئے ڈبو دیا جائے تاکہ ہماری ملت کی بہن بیٹیاں خودکشی اور ارتداد کی طرف جانے کا سوچیں بھی نہ، اور بچیوں کی ایسی اچھی تربیت کریں کہ وہ اس امتحان گاہ میں رب کی طرف سے شکر و صبر ہر دو امتحانی حالات میں کامیابی سے گزریں۔ مشکل حالات میں جینا سیکھیں نہ کہ بزدلی و مایوسی میں پڑ کر اپنی دنیا، آخرت دونوں خراب کرلیں۔ رب توفیق بخشے۔ 
______________________ 

حوالہ جات
1 - [عن حمنة بنت جحش:] عن حمنةَ بنتِ جَحشٍ أنَّها قيلَ لَها: قُتِلَ أخوكِ، فقالَت: يرحَمُهُ اللَّهُ إنّا للَّهِ وإنّا إليهِ راجعونَ ، فقيلَ لَها: قتلَ خالُكِ حمزةُ، فقالت: رحمَهُ اللَّهُ إنّا للَّهِ وإنّا إليهِ راجعونَ ، فقيلَ لَها: قُتِلَ زوجُكِ ، فقالَت: واحَرباهُ ، فقالَ النَّبيُّ ﷺ:إنَّ للزَّوجِ منَ المرأةِ لشُعبةً ليست لشيءٍ
الذهبي (ت ٧٤٨)، المهذب ٣‏/١٤١٣ • غريب

2 - في سيرة ابن هشام:

لما نُعِي إلى حَمْنَة بنت جحش أخوها الذي قتِل في أُحُد، فاسترجعت واستغفرت، ثم نعي إليها خالها حمزة بن عبدالمطلب، فاسترجعت واستغفرت، ثم لَمَّا نُعِي إليها زوجها مصعب بن عمير، فصاحت وبكت، فقال النبي - صلى الله عليه وسلم -: ((إن زوج المرأة منها بمكان))، والحديث بتمامه عند ابن ماجه بسند فيه مقال، وفيه: "أن النساء قُمن حين رجع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من أُحد يسألن الناس عن أهلهن، فلم يُخبَّرن، حتى أتين رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فلا تسأله واحدة إلا أخبرها، فجاءته حَمْنَة بنت جحش، فقال: ((يا حَمْنَة، احتسبي أخاك عبدالله بن جحش))، قالت: إنا لله وإنا إليه راجعون، رحمه الله وغفر له، ثم قال: ((يا حَمْنَة، احتسبي خالك حمزة بن عبدالمطلب))، قالت: إنا لله وإنا إليه راجعون، رحمه الله وغفر له، ثم قال: ((يا حَمْنَة، احتسبي زوجك مصعب بن عمير))، فقالت: يا حرباه"، وفي رواية أنها قالت: "واحزناه"، قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: ((إن للمرأة لشعبة من الرجل ما هي له في شيء))، وفي رواية: ((إن زوج المرأة منها لبمكان))؛ ضعيف الجامع (1960).





ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے