مروجہ جہیز پر علمائے کرام کے تاثرات



#دس روزہ آسان اور مسنون نکاح مہم
14 تا 23 مارچ 20121ء  
سلسلہ 11) آخری قسط __________

 مروجہ جہیز پر
 علمائے کرام کے تاثرات

 ٭مولانا منت اللہ رحمانیؒ نے فرمایا: 
    "مسلمانوں نے شادی بیاہ کو اتنا مشکل بنادیا ہے کہ حرام آسان ہوگیا ہے، حلال مشکل ہوگیا۔" 

 ٭حضرت مولانا مجاہد الاسلام صاحب قاسمیؒ( قاضی شریعت ،پٹنہ ،بہار) فرماتے ہیں :
       ’’میں جانتا ہوں کہ کس طرح ایک باپ نے اپنی بیٹی کو قتل کیا ہے، اس لئے کہ وہ داماد کی فرمائش کو پورا نہیں کرسکا، میں جانتا ہوں کہ باپ نے اپنے آپ کو قتل کرلیا کیوںکہ بیٹیوں کا نکاح نہ کراسکا۔ میں جانتا ہوں کہ کس طرح بیٹی نے خودکشی کی ہے، کہ میرا باپ دس برس سے میرے شوہر کیلئے پریشان ہے، داماد کی فرمائش پوری نہ کرسکا، اگر ہم نے آج کنڑول نہیں کیا تو آپ بھی اس عذاب میں مبتلا ہوں گے، جو ہندوستان کے بڑے معاشرے کو تباہ کر رکھا ہے اور علماء سے کہتا ہوں کہ ایسی شادی میں نہ شریک ہوں جو خلاف شرع ہو ، اہل مدارس کی یہ ذمہ داری ہے کہ جمعہ کے خطبہ میں نکاح ، مہر، جہیز کی شرعی حقیقت بتائیں، اگر ہمارے معاشرے میں جہیز کی لعنت ختم ہوتی ہے تو وہ ہندو عورتیں جو خود کشی کرلیتی ہیں جو باپ خود کشی کرلیتا ہے وہ اسلام کی آغوش میں آئیں گےـ ‘‘

 ٭ حضرت مولانا مجیب اللہ ندوی صاحب (ایڈیٹر الرشاد، بنگلور) فرماتے ہیں:
       ’’حضور ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو جہیز دیا ہی نہیں، حضورﷺ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ تمہارے پاس مہر دینے کیلئے کیا ہے؟ حضرت علیؓ نے کہا کہ میرے پاس ایک گھوڑا اور زرہ ہے، آ پ نے فرمایا گھوڑا جنگ کیلئے کام آئے گا، زرہ حضرت عثمانؓ نے 480 درہم میں خرید لی، آپ ﷺ نے اس رقم سے سامان تیار فرمایا، آپ بتایئے، شادی کس کے پیسے سے ہوئی، حضور ﷺ کے یا حضرت علیؓ کے پیسے سے؟ جہیز کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، ناجائز ہے۔ شادی کے اخراجات لڑکے والوں کی ذمہ داری ہے، اس ملک میں قانون بن رہا ہے لیکن کوئی قانون کی گرفت میں نہیں آرہا ہے، ہم ایسے تھے کہ اگر ہم مثال پیش کرتے تو ہندوؤں کیلئے رحمت بنتے ان کی زحمت میں کمی کرتے، افسوس کہ ہم بھی اس زحمت میں گرفتار ہیں۔

 ٭حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب (سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) فرماتے ہیں:
     ’’یہ جہیز گھر برباد کرنے کیلئے ہے، جہیز کے بوجھ سے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ادھر لڑکی کی ڈولی اٹھی، دو تین دن کے بعد لڑکی کے والد کا بھی جنازہ اٹھ جاتا ہے، کیوں کہ اتنے سامان دینے پڑتے ہیں کہ لڑکی کا باپ برداشت نہیں کرسکتا، اللہ نے اگر ہم کو لڑکا دیا ہے تو لڑکی بھی دی ہے، آج لڑکے کی شادی کرنی ہے، کل لڑکی کی بھی کرنا ہوگی، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ نکاح میں دینداری کو بنیاد بناؤ، ہم نے معیار حسن کو اور مالداری کو بنایا، وعدہ کرو کہ مطالبے نہیں کریں گے، جہیز نہیں لیں گے، وہ جہیز جو دوسروں کیلئے تکلیف کا سبب بنے۔‘‘

 ٭مولانا برہان الدین سنبھلی صاحب ( استاذ تفسیر وحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) فرماتے ہیں:
      ’’ مطالبۂ جہیز اور طلب مال وغیرہ کی موجودہ شکل شرعاً رشوت، حرام خوری اور اکل المال بالباطل (باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانا) جیسے کبیرہ گناہوں میں شامل ہیں اور عقلا اسلامی معاشرے کیلئے تباہی کا موجب ہےـ ‘‘

٭ مفسر قرآن مولانا خورشید عالم صاحب (رفیق درالافتاء دیوبند) فرماتے ہیں کہ:
    ’’اس زمانہ میں جہیز کا لین دین چل پڑا ہے، ایسا طریقہ نہ تو رسول اکرم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ صحابہ کرام ؓ سے، در حقیقت یہ ایک بدعت ہے اور رشوت ہے جو کہ شوہر بیوی سے ظلم کے طور پر طلب کرتا ہےـ ‘‘

٭ حضرت مولانا ابو السعود صاحب ( مہتمم دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور امیر شریعت کرناٹک) فرماتے ہیں:
    ’’ فتنہ ٔ جہیز مسلمانوں میں غیرمسلموں کے رواج سے متاثر ہوکر پھیلتا جارہا ہے، اس فتنہ کے سد باب کیلئے منظم کوشش ضروری ہے تاکہ معصوم لڑکیاں اس قبیح رسم ورواج کی نذر ہوکر تباہ وبرباد نہ ہوں‘‘۔

٭ حضرت مولانا محمد یونسؒ صاحب ( پونہ امیر جماعت مہاراشٹر) نے فرمایا: 
      ’’جتنی بڑی ڈگری اتنا بڑا بھکاری، آج کے زمانے میں جہیز مانگنے والا شریعت کی نگاہ میں چور اور ڈاکو ہے بمبئی شہر میں ایک لاکھ ماؤں نے بچیوں کو ضائع کیا ، کیوں کہ اگر بچی ہوگئی تو جہیز کا انتظام کرنا ہوگا۔

٭ حضرت مولانا عبدالجلیل چودھری صاحب (امیر شریعت آسام) نے فرمایا:
     ’’اب آہستہ آہستہ آسام بھی فتنۂ جہیز کی لپیٹ میں آرہا ہے، اس ظلم کے خلاف کمر بستہ ہوکر لڑنے کی ضرورت ہے‘‘۔

 ٭حضرت مولاناقاضی عبدالاحد ازہری صاحب (ناظم معہد ملت،مالیگاؤں) فرماتے ہیں: 
     ’’جہیز کا مطالبہ اور تِلَکْ کا تقاضا یہ ایک لعنت ہے، اس کا اقدام وہی کرے گا، جس کے دل میں خباثت اور حرام خوری کوٹ کوٹ کر بھری ہوگی، لیکن جس کے دل میں ذرہ برابر بھی انسانیت اور اسلام سے محبت ہوگی وہ اس کا مطالبہ ہرگز نہ کرے گا‘‘۔

 ٭حضرت مولانا محفوظ الرحمن قاسمی (سابق شیخ الحدیث بیت العلوم، مالیگاؤں) فرماتے ہیں:
      ’’شیطان نما انسانوں نے شادی کو مہنگا کردیا، مشرق سے لیکر مغرب تک، سلف سے لیکر خلف تک کے علماء سب اس بات پر متفق ہیں کہ جہیز کا کوئی ثبوت نہیں، مسلم معاشرے میں یہ ہندوؤں کی رسم ہے کہ ان کی لڑکیوں کو میراث میں سے کچھ نہیں ملتا، خیر ان کی یہ مجبوری تھی، آپ کو کیا مجبوری ہے؟ آپ کو کیا ضرورت تھی؟ بدکاری نہیں ہوگی تو کیا ہوگا؟ حرام کو آسان کردیا ، حلال کو مشکل کردیا اور پھر کہتے ہو کہ عرب آتے ہیں ان کو بیاہ کر لے جاتے ہیں، مسلم معاشرے کو برباد کردیا، حضور کا دین برباد ہوا، شیطان کا طریقہ ہے دجالوں کاطریقہ ہے اور یہ تعلیم یافتہ لوگوں نے جاری کر رکھا ہے، ایک مرتبہ مولانا عثمان فارقلیطؒ ’’الجمعیۃ‘‘ کے اداریہ میں لکھا کہ
’’ایک مرتبہ مجھے امروہہ کے دوست مل گئے، ان کی تین بیٹیاں تھیں، دریافت کرنے پر انہوں نے مجھے بتایا میری تین بیٹیاں بہت کوشش کی کہ ان کا نکاح کرادوں مگر لڑکے والے بہت جہیز مانگتے ہیں، اتنی طاقت نہیں، لڑکیوں کیلئے دوسرا راستہ اختیار کیا ہوں، چرچ ، گرجا جارہا ہوں ان کا عیسائیوں سے نکاح ہوجائے گا، عزت سے زندگی گزارسکیں گے۔ ______ اور میر تقی میرؔ کا انتقال کیسے ہوا؟ ان کی ایک ہی لڑکی تھی، سینکڑوں رشتوں میں ایک پسند کر ہی لیا، لیکن ہائے بدنصیبی کہ شادی سے قبل ہی مطالبات کی بھرمار شروع ہوگئی، میرؔ نے گھر کا سارا اثاثہ بیچ کر ان کے مطالبات کو پورا کردیا، لڑکی بھی حساس دل واقع ہوئی، اسے دلی صدمہ پہنچا، چنانچہ شادی کے دوسرے ہی دن اس کا انتقال ہوگیا، بیٹی کی لاش پر آئے، رونے اور چیخنے کی تمام قوت مفقود ہوچکی تھی، اسی دیوانگی کی حالت میں انہوں نے اپنی ناز پروردہ جواں سال لڑکی کی میت پر حسرت ناک نگاہ ڈالی اور کہا:
اب آیا ہے خیال آرامِ جاں اس نامرادی میں 
کفن دینا تجھے بھولے تھے ہم اسبابِ شادی میں
     
       اس واقعہ نے میرؔ کو زندہ لاش میں تبدیل کردیا جس کی وجہ سے وہ بقیہ زندگی مسکرا بھی نہ سکے، کیسے روح فرسا واقعات ہورہے ہیں۔ اللہ رب العزت نے حضور اکرمﷺ کے صدقے میں ایک سماج اور پاک معاشرہ عطا فرمایا، جس کے طفیل میں انسانی زندگی کو روحانی فکری اور معاشرتی سیاسی اور اقتصادی ہر لحاظ سے اقوام عالم پر فوقیت اور عظمت حاصل تھی اور رہے گی، کیوں کہ ان کا فرمان "إنَّ الدّینَ عِنْدَ اللہ الاسلام، دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے، مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم نے ان تمام اسلامی روایات کو فراموش کر رکھا، اسلام نے جس رسم ورواج کو ختم کیا تھا، آج دولت کے پجاری ، مفاد پرستوں نے انہیں رسموں کو قوم کے اوپر مسلط کر رکھا ہے، ہمارے دل اتنا مردہ ہوچکے ہیں، اور اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ اللہ اور رسول کے صاف صاف حکم مِلنے کے باوجود علمائے کرام کی دلیلوں سے بھری تقریر سننے کے بعد بھی رسم و رواج کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں، شاید علامہ اقبالؒ نے انہیں چیزوں کو دیکھ کر بڑے درد سے فرمایا تھا:
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
 کچھ بھی پیغام محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں

      مسلم معاشرے میں سینکڑوں مشرکانہ رسمیں ہیں ، جن کی تقلید مسلمان کررہے ہیں، ان میں سب سے بدترین اور منحوس رسم جہیز کی لعنت ہے، جہیز کی اس بدترین رسم نے عورت کو ایک مرتبہ پھر اس کو اس مقام پر ڈھکیل دیا جہاں وہ طلوعِ دینِ محمدی سے پہلے تھیں، جہیز عورتوں کیلئے ایک مصیبت بن گیا ہے، ہندوستان میں ایک عوامی تنظیم ہے (عوامی یونین برائے جمہوری حقوق) اس تنظیم نے آزاد ہندوستان کے گذشتہ چالیس سالہ دور میں عورتوں کے اپنے ہاتھوں آگ سے جل کر مرجانے اور دیگر طریقوں سے خود کشی کرلینے کے اعداد وشمار جمع کرکے بتایا ہے کہ آزاد ہندوستان میں اس مدت میں بہتر ہزار 72,000 نوجوان عورتیں جہیز کے جھگڑوں کی وجہ سے جلا کر مارڈالی گئیں ہیں۔ (ہفت روزہ’’نقیب‘‘ پھلواری شریف، ۱۶، جنوری 1989ء ، بحوالہ روزنامہ بنگلور)
      ہندو معاشرہ سے جہیز کی رسم آئی تھی، وہ تو اس بھیانک انجام کو دیکھ کر پابندیاں لگا رہے ہیں اور عورتوں کو کثرت سے جلائے جان کے واقعات ہورہے ہیں، ۱۰؍اکتوبر۱۹۹۱ء؁ کی رپورٹ کے مطابق اس سال 100 خواتین جہیز کیلئے نذر آتش کردی گئیں، جس میں 40؍مسلمان تھیں۔ (شامنامہ ،مالیگاؤں) جہیز کی وجہ سے نکاح مہنگا ہورہا ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں بیٹھی ہوتی ہیں، اخبار شامنامہ مالیگائوں ۸۷ء؁ کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ساڑھ سترہ لاکھ طوائفیں ہیں، دلی میں ایک کوٹھا چلانے والی کا نام آمنہ ہے، دلی میں دو لاکھ طوائفیں ہیں۔
     ذرا غور سے دیکھیں تو جہیز کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت کی یاد تازہ ہورہی ہے، جب ذلت اور رسوائی کے نام پر معصوم بچیوں کو ماں باپ کے ہاتھوں زندہ درگور کیا جاتا تھا، ایک سروے کے مطابق ملک میں سات لاکھ ماؤں نے اپنا حمل ضائع کیا، کیوں کہ لڑکی پیدا ہوگی تو جہیز کا انتظام کرنا ہوگا، وہی عورت جس کو اسلام نے رحمت قرار دیا، جس کی پرورش کا شرف خاتم النبیین ﷺ کو حاصل ہے، جن کی اچھی تعلیم وتربیت پر حضور ﷺ کی جانب سے بشارت ہے، لیکن آج اسی عورت کی عزت جہیز کی چوکھٹ پر کیا ہے یہ اہل دنیا پر عیاں ہے۔ 
     (بشکریہ قاری حفیظ الرحمٰن شمسی)

______________________ 
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت 
 جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️

نوٹ : الحمد للہ اس گیارہ قسطوں میں مسنون نکاح اور جہیز کی لعنت کے عنوان سے تقریباً تمام ضروری اور اہم باتیں پیش کردی گئیں، سنت و شریعت پر چلنے والوں کیلئے یہ ساری باتیں کافی سے زیادہ ہیں، اس لیے سلسلہ وار مراسلات موقوف کئے جاتے ہیں۔ اللہ پاک امت مسلمہ کی اصلاح فرمائیں اور سنت و شریعت کی اتباع کی توفیق بخشے۔ آمین یاربّ العٰلمین


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے