لڑکی کے گھر دعوت کی شرعی حیثیت



#دس روزہ آسان اور مسنون نکاح مہم
14 تا 23 مارچ 20121ء  
سلسلہ 9) __________

لڑکی کے گھر دعوت کی شرعی حیثیت
افادات مولانا محفوظ الرحمٰن قاسمیؒ

 دوسرا کام اصلاح کا یہ کرنا چاہئے کہ لڑکی کے گھر دعوتِ طعام سے احتراز کرنا چاہئے اگرچہ یہ کڑوی دوا ہے، حلق سے جلدی نہیں اترے گی اور ایسی رسموں کے خلاف بولنا طعن و تشنیع کو دعوت دینا ہے، بے آبرو ہونا ہے؛ مگر اس لئے عرض کررہا ہوں تاکہ آپ غور کریں اور یہ معلوم کرلیں کہ شریعت کا حکم کیا ہے، "ألحَقُّ أحَقُّ أنْ یُتَّبَعَ: حق اس کا مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے۔" مجھے اس کا احساس ہے کہ یہ بات کہہ کر میں ہدفِ تنقید بنوں گا۔ مگر ایک بات پر آپ غور کرلیں ہم فخر سے کہتے ہیں اور واقعی اس کہنے میں ہم حق بجانب ہیں کہ حضور ﷺ نے ہماری ہر معاملے میں رہنمائی فرمائی ہے، مہد سے لحد تک زندگی گزارنے کا طریقہ بتلایا ہے، زندگی کی تمام جزئیات کا آپ کی تعلیم احاطہ کیے ہوئے ہے۔ طہار ت و نجاست تک کے مسائل ، سر کے بال سے لے کر پیر کے ناخن تک ہر چیز کی رہبری إرشاداتِ نبوت میں موجود ہے، نسائی شریف کی روایت ہے کہ کفار مکہ نے حضرت سلمان فارسیؓ سے کہا : یعلمکم نبیکم کل شییء حتی الخراءۃ: تمہارے نبی تو تم کو ہر بات سکھلاتے ہیں یہاں تک کہ استنجاء اور بیت الخلاء جانے کا طریقہ بھی بتلاتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے بطور طنز کے کہی تھی لیکن حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا: أجل : کیوں نہیں! ہمارے نبی ہم کو ہر بات سکھلاتے ہیں گویا یہ بات تو ہمارے لئے فخر و اعتزاز کی ہے کہ زندگی گزارنے کے معاملے میں ہم خود کفیل ہیں کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ تو آپ بتائیے! کہ شادی کے معاملے میں نعوذ باللہ کچھ بتلانے سے کوتاہی کی گئی ہے۔ جس کی تلافی ہم اپنی طرف سے کچھ بڑھا کر کررہے ہیں۔ 

ولیمہ سنت ہے دعوت طعام نہیں 
     پورے ذخیرہ حدیث کو آپ پڑھ جائیے، دعوت ولیمہ کی تو تاکید ہے، عبدالرحمن بن عوفؓ کو آپ ﷺ نے تاکید کی "اولم ولو بشاۃ. (صحیح بخاری) :ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ہی تمہیں میسر ہو۔" اذا دعی احدکم الی الولیمۃ فلیاتھا، فمن لم یات الدعوۃ فقد عصی ﷲ ورسولہ. (صحیح مسلم) دعوت ولیمہ کے لئے جو بلائے چلے جاؤ ، جو ایسی دعوت میں شریک نہ ہو گویا اس نے اللہ اور رسول کی نافرمانی کی، مزید آپ نے فرمایا: بئس طعام الولیمۃ یدعی الیہ الاغنیاء ویترک الفقراء. (بخاری) ایسے ولیمہ کی دعوت بدترین دعوت ہے جس میں چن چن کر امراء، اغنیاء اور مالداروں کو بلایا جائے اور فقراء و مساکین کو فراموش کردیا جائے۔ تو اگر لڑکی کے یہاں دعوت کسی بھی حیثیت سے مستحب یا واجب اور ضروری ہوتی تو آپ ﷺ اس کی تاکید فرماتے، درجہ وجوب میں نہ سہی بلکہ درجہ استحباب میں فرمادیتے مگر احادیث مبارکہ میں اس کا کوئی ذکر نہیں اور اگر اس دعوت کے ذریعہ امداد و تعاون کا کوئی تصور ہے تو مخلص مسلمانوں کو چاہئے کہ جب اپنے بھائی کے گھر لڑکی کا نکاح ہے اور وہ تمہاری امداد و تعاون کا مستحق ہے تو زندگی کے دیگر معاملات میں جس طرح تم مدد کرتے ہو اس موقع پر بھی اسی طرح اخلاص کے ساتھ مخفی طور سے اس کی مدد کرو۔ اس میں دعوت طعام کی کیا تخصیص؟ کھانا کھا کر فیس اور کفارہ ادا کرنے کا تصور ختم کرو۔ شریعت پر چلوگے تو ﷲ تمہیں اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے گا۔ 

دعوت طعام اور ولیمہ کافرق
    آخر میں یہ کہہ دوں کہ تنقید کے نقطہ نظر سے سوچنے کی بجائے افادیت کے نقطہ نظر سے سوچو۔
من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم
کہ بامن ہرچہ کرد آں آشنا کرد
 پھر اس مسئلے پر اس طرح بھی غور کیا جاسکتا ہے کہ شریعت نے شوہر کو دعوت کی تاکید کی ہے ، مگر لڑکی کو ، بیوی کو اس کے افراد خاندان کو ادنیٰ سی ترغیب نہیں دی۔ لڑکی کی شادی کا معاملہ ویسا نہیں ہے جیسے لڑکے کا ، خوشی کا اصل موقع لڑکے والے کے لئے ہے۔ دعوت کی تاکید اس لئے ان ہی کو کی گئی ہے۔ یہ شادی لڑکے کے لئے خانہ آبادی ہے ، گھر میں مزید ایک فرد کا اضافہ ہورہا ہے۔ لڑکی والوں کے لئے اگرچہ اس پہلو سے اطمینان ہوتا ہے کہ ایک فرض سے سبکدوش ہورہے ہیں مگر جس کی جان و دل سے پرورش کی، ناز و نعمت سے پالا، آنکھوں کی ٹھنڈک ، دیگر بھائی بہنوں کی منظور نظر اس کو رخصت یا الوداع کہتے ہوئے اکثر پورا کا پورا گھر اشکبار ہوتا ہے اس پر مستزاد مستقبل کے اندیشے، اندیشہائے دور دراز، پتہ نہیں مزاج ملے یا نہ ملے، الفت و مودت ہو یا نہ ہو۔ نباہ ہوسکے یا نہ ہوسکے۔ اس لئے کچھ زیادہ خوشی کا یہ موقع نہیں۔ غالباً شریعت نے اسی لئے کسی دعوت طعام (لڑکی کے گھر دعوت) کی ترغیب نہیں دی۔
______________________ 
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت 
 جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری............................................*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے