بیجا رسوم کے خاتمہ کے لیے تین اہم باتیں



#دس روزہ آسان اور مسنون نکاح مہم
14 تا 23 مارچ 20121ء  
سلسلہ 8) __________

بیجا رسوم کے خاتمہ کے لیے تین اہم باتیں
افادات مولانا محفوظ الرحمٰن قاسمیؒ

     اگر تین باتیں اپنالی جائیں تو بہت حد تک اصلاح کی توقع ہے۔
۱) نکاح مسجدمیں کیاجائے۔
۲) لڑکی والوں کے یہاں دعوتِ طعام نہ رکھی جائے۔
۳) بارات ختم کردی جائے۔
    اب پہلی بات کو آپ جان لیں جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نکاح مسجد ہی میں کیا جائے اسی بات کی لوگوں کوفہمائش کی جائے اسی کی ترغیب دی جائے۔
     اس کی پہلی وجہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ "اعلنواھذا النکاح واجعلوہ فی المساجد.(ترمذی) نکاح کا اعلان کرو، اس کی تشہیر کرو تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے اور نکاح مسجد میں کرو-" لہٰذا ہر مسلمان کو، آپ ﷺ کے ہر امتی کو اس کا لحاظ کرنا چاہئے اور آپ کے اس حکم کی بجاآوری اور اس کی فرماں برداری کرنا چاہئے۔
     دوسری وجہ یہ ہے کہ سید الاولین و الآخرین اشرف الانبیاء والمرسلین ﷺ کی لخت جگر ، دختر نیک اختر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مسجد میں ہوا جنہیں حضور ﷺ نے "بضعۃ منی" فرمایا (بخاری) یعنی جگر کا ٹکڑا، یہ وہی ہیں جو ’’ سیدۃ نساء اہل الجنۃ ‘‘ کے لقب سے ملقب ہیں، یعنی جنتی عورتوں کی سردار، آپ ﷺ کو ان سے بڑی محبت اور انسیت تھی ، حضور ﷺ سفر سے آتے، مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرتے اور پھر سیدھے سیدہ فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے۔ علامہ اقبال نے فرمایا:
مریم از یک نسبتے عیسی عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
   مریم تو دنیا میں صرف ایک نسبت سے پیاری ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں، مگر حضرت فاطمہ زہراءؓ کو تین تین نسبتیں حاصل ہیں پھر کیوں نہ وہ دنیا کو محبوب ہوں۔ پہلی نسبت تو یہ ہے کہ وہ امام الاولین والآخرین، اشرف الانبیاء والمرسلین کی لخت جگر اور نور نظر ہیں۔ دوسری نسبت حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا کی بیوی ہیں۔ تیسری نسبت سالارِ کاروانِ عشق حضرت حسن، حسینؓ کی والدہ محترمہ ہیں۔ ایسی محبوب خاتون کا نکاح اگر آقا و مولیٰ مسجد میں ہی کریں تو آخر مسلمان اس اسوہ نبی کی پابندی کیوں نہیں کرتے؟؟؟
     تیسری بات جسے کہتے ہوئے ہمیں غیرت بھی آتی ہے اور شرم بھی ، اے اللہ کے بندو! عیسائیوں کا اپنے مذہب سے لگاؤ نہ ہونے کے برابر ہے، کبھی وہ اپنے گرجا کو بیچ کر پیسہ وصول کرلیتے ہیں، کبھی اسی میں رقص و سرود کی مجلس بھی منعقد کرتے ہیں اور کبھی عریانیت اور فحاشی کے ساتھ دعوت بھی دیتے ہیں۔ مولانا نور محمد ٹانڈوی نے جنگ آزادی کے موقع پر جلسے میں یہ شعر پڑھے:
الٰہی خانۂ انگریز گرجا
یہ گرجا گھر یہ گرجا گھر یہ گر۔ جا
گویا نیست و نابود ہونے کا مفہوم اور گرجانے کا اشارہ خود اس کے نام میں پوشیدہ ہے مگر تاحال کلیسا کا درجہ انہوں نے اس قدر رکھا ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں حاضر ہوتے ہیں اور نکاح وہیں ہوتا ہے اور دوسری طرف مسجد میں نکاح کرنے سے ہمارے امراء عار محسوس کریں اور مجلس نکاح گھر پر ہی منعقد کریں، یا پھر بڑے بڑے شادی ہال بک کروائیں، یہ بہت افسوس کی بات ہے جب کہ شریعت نے ہمارے لئے راستہ بھی کھول دیا ہے کہ لڑکی کا مجلس نکاح میں موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کی طرف سے وکیل کافی ہے اور جب مجلس نکاح میں اس کا ہونا ضروری نہیں ہے تو آخر نکاح کا اس کے گھر میں منعقد کرنا کیا ضروری ہے؟ لہٰذا ہم تمام مسلمانوں سے یہ عرض کریں گے کہ اسے مسجد میں ہی منعقد کرنے پر اصرار کریں۔ اس سے ویڈیو اور فلم کشی اور عریانیت اور فحاشی کے بہت سے مظاہر ختم ہوکر رہ جائیں گے۔
    چوتھی وجہ جس کی وجہ سے نکاح مسجد میں ہونا چاہئے یہ ہے کہ نکاح کے بعد جو دعا کی جاتی ہے دولہا دلہن کی مودت و محبت کے لئے ان کی کامیابی و کامرانی کے لئے؛ اس کے لیے مسجد ہی زیادہ موزوں ہے۔ گھر کی ہنگامہ خیز فضا، طوفانِ محشر کا شور ، ہنسی مذاق کے فوارے ، شربت پینے پلانے بلکہ پھینکنے کا ہنگامہ، سگریٹ کا کَش لیتے ہوئے نوجوان، دھوئیں کے مرغولے ، یہ فضا اس اہم دعا کے لئے جو زندگی کا ایک نازک موڑ لئے ہوئے ہے، مناسب نہیں بلکہ ان کی خانہ آبادی ، خوش حالی، دین وایمان کی سلامتی، باہمی الفت و محبت کی دعا کے لئے مسجد ہی زیادہ موزوں ہے۔ مسجد میں ﷲ پاک کے فرشتے آتے ہیں، جہاں نبی کریم ﷺ پر درود پڑھا جاتا ہے، وہاں نورانی مخلوق حاضر ہوتی ہے، ان کا آمین کہنا کتنی برکت کی با ت ہے۔
     پانچویں وجہ مسجد میں نکاح کرنے کی ایک برکت یہ بھی ہوگی کہ بہت سارے اخراجات کم ہو جائیں گے، شادی کے موقعہ پر جو رنگا رنگی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں، اور ان پر بہت سارا پیسہ خرچ کردیا جاتا ہے مثلا ً شامیانوں، قالینوں ، صوفوں ، کرسیوں کا انبار اور اس پر خرچ آرائش و زیبائش کا اور رنگ و نور کا خرچ ، اگر ان پر خرچ نہ کیاجائے تو یہ پیسے اعلیٰ مقاصد اور دیگر امورِ خیر میں کام آئیں گے اور دنیا و آخرت کی سرخروئی کا سبب بنیں گے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب نکاح مسجد میں کیاجائے۔

______________________ 
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت 
 جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری............................................*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے