اسلام نے ذات پات کی حد بندیوں کو توڑا



#دس روزہ آسان اور مسنون نکاح مہم
14 تا 23 مارچ 20121ء  
سلسلہ 4) __________

اسلام نے ذات پات کی حد بندیوں کو توڑا
افادات مولانا محفوظ الرحمٰن قاسمیؒ

      نکاح میں دوسری بڑ ی رکاوٹ وہ ہے جس کو ذات پات کا نظام کہتے ہیں۔ یہ طبقاتی حد بندیاں اتنی شدید تھیں کہ ایک ذات کی شادی دوسری ذات سے ہو ہی نہیں سکتی تھی آپ ذرا بتادیں اسی دنیا میں بڑے بڑے اصلاح کرنے والے انسانیت میں مساوات و برابری کے نام پر اٹھے۔ گرجے اور برسے کہ وہ دنیا سے طبقاتی نظام کا خاتمہ کردیں گے۔ مگر اس نظام کو توڑنے کے لئے کوئی اسوہ کوئی نمونہ ان کاموجود ہے؟ گاندھی جی نے مدت تک دلتوں اور پچھڑے سماج کے لیے آواز اٹھائی، لیکن کیا گاندھی جی نے اپنے خاندان کی کوئی لڑکی ہریجن کے نکاح میں دی یا کوئی ہریجن لڑکی سے اپنے خانوادے کا رشتہ کیا؟ ہرگز نہیں۔ لیکن جب حضور ﷺ نے مساوات کی تعلیم دی، طبقاتی حد بندیوں کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا، جب آپ نے دنیا کو یہ تصور دیا کہ سارے انسان برابر ہیں تو اپنے خاندان قریش کی لڑکی زینب کا نکاح زید بن حارثہؓ سے کردیا؛ جو ایک غلام تھے۔ اس تعلیم کا کتنا عمیق اور گہرا اثر معاشرے پر پڑا کہ جب حضرت بلال حبشیؓ نے شادی کا ارادہ کیا تو اکابر صحابہؓ نے اپنے خانوادوں کی پیش کش کی۔ علامہ شبلی نعمانیؒ نے بہترین انداز میں اس کو نظم کی شکل میں پیش کیا ہے۔

جب یہ چاہا کہ کریں عقد مدینے میں کہیں
جا کے انصار و مہاجرسے کہا یہ کھل کر

میں غلام حبشی اورحبشی زادہ بھی ہوں 
یہ بھی سن لو کہ مرے پاس نہیں دولت و زر

ان فضائل پہ مجھے خواہش تزویج بھی ہے
ہے کوئی جس کو نہ ہو میری قرابت سے حذر

گردنیں جھک کے یہ کہتی تھیں کہ دل سے منظور
جس طرف اس حبشی زادہ کی اٹھتی تھی نظر

نکاح کی بنیاد کیا ہو؟
      اسلام نے دین و دیانت، تقویٰ و پرہیز گاری کو فوقیت دی ہے حسب نسب وغیرہ کو اتنی اہمیت نہیں دی کہ نکاح اس پر موقوف ہو۔ "اتفقوا علی ان الدین معتبر فی ذالک" علماء کا اس بات پر اجماع اور اتفاق ہے کہ نکاح کے معاملے میں دین اور دیانت ہی کا لحاظ کیاجائے گا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: تنکح المرأۃ لاربع لمالھا ولحسبھا ولجمالھا ولدینھا فاظفر بذات الدین تربت یداک. (بخاری) کسی عورت سے شادی کبھی اس کے مال کی وجہ سے ، کبھی حسب و نسب کی وجہ سے اور کبھی حسن و جمال کی وجہ سے اور کبھی اس کی دین داری کی وجہ سے کی جاتی ہے تو تم اس کی دینداری کو دیکھو۔ اسلام میں دین کے سوا جمال اور مال اور حسب، نسب ثانوی ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: لاتزوجوا النساء لحسنھن فعسی حسنھن أن یردیھن ولا تزوجوھن لاموالھن فعسی اموالھن ان تطغیھن ولکن تزوجوھُن علی الدین ولأمۃٌ سودائُ خرماء ذاتُ دینٍ افضلُ. (سنن ابن ماجہ) حسن و جمال کی وجہ سے عورتوں سے شادی مت کرو، بہت ممکن ہے ان کا حسن ان کو تباہی و بربادی تک پہنچا دے اور نہ ان کے مال کی وجہ سے ان سے شادی کرو، بہت ممکن ہے ان کا مال انہیں سرکشی پر آمادہ کردے اور وہ تمہاری اطاعت و فرمانبرداری نہ کریں، البتہ دین کو ترجیح دو، ایک کالی کلوٹی دیندار باندی، حسن و جمال والی عورت سے افضل ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے "من نکح امراۃ لعزھا لم یزدہ اللّٰہ الا ذلا ومن نکح لمالھا لم یزدہ اللہ الا فقرا. (کنزالعمال)" جس کسی نے مال و دولت دیکھ کر نکاح کیا اللہ اس کے فقر و محتاجگی میں اضافہ کرے گا، عزت و شہرت کو نگاہ میں رکھا تو اللہ اسے ذلیل کرے گا، حسب و نسب کو منظورِ نظر بنایا تو بدنامی کے سوا کچھ نہ ہاتھ آئے گا، ہاں اگر شادی اس نیت سے کی کہ اللہ اس کے ایمان اور دین و دیانت اور اس کی نگاہوں کی حفاظت فرمائے تو اللہ ایسے نکاح میں برکت عطا کرے گا۔ اسلام کا نقطہ نظر مال کے سلسلے میں یہ ہے کہ "المال فانٍ" مال و دولت آنی جانی چیز ہے۔
من کی دنیا ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دنیا چھائوں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن

حسن و جمال بھی سدا باقی رہنے والی چیز نہیں ہے، آج خوبصورتی ہے کل نہیں رہے گی، ایک بیماری حسن و جمال کے زوال کا سبب بن سکتی ہے، ایک حادثہ شکل و صورت بگاڑ سکتاہے، اصل خوبصورتی تو اعمال و اخلاق کی ہے، اصل مہک تو انسان کے کردار کی ہے، جو دوسروں کیلئے دل کی خوشی اور شادمانی کا ذریعہ ہے۔
حسن صورت چند روزہ حسن سیرت مستقل
اس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں اُس سے خوش ہوتا ہے دل

حسن و جمال کی حقیقت مشہور شاعر اصغر گونڈوی نے یوں کھولی ہے ؎
ہے یہ حقیقت؛ مجاز اب کھلا ہے جا کے راز
سب ہے فریبِ آب و گل حسن و جمال کچھ نہیں

______________________ 
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت 
 جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری............................................*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے