دوسری زندگی اور وقت کا احساس
نعیم الرحمن ملی ندوی
اگر کوئی ہم سے کہے کہ ہوسکتا ہے کل کے روز ہم میدان حشر میں پہنچ جائیں یا ہوسکتا ہے اگلا لمحہ قیامِ قیامت کا ہو ۔۔۔ تو ہمیں بڑی حیرت ہوگی لیکن حقیقت کے اعتبار سے یہ کوئی بہت بعید اور انہونی بات نہیں ہے اس لئے کہ ---- لمحاتِ وقت، وقتی ہیں ابدی نہیں، فانی ہیں باقی نہیں، عارضی ہیں دائمی نہیں، تیزی سے گزر جانے والے ہیں رہ جانے والے نہیں؛
وقت کا ہر لمحہ یہ کہتا ہوا گذرا مجھ سے
ساتھ چلنا ہے تو چل، میں تو چلا جاؤں گا
یہ وقت اللہ پاک کی انوکھی تخلیق ہےـ اسی کے ساتھ یہ بھی کہ رات دن کی موجودہ گردش اور صبح و شام کا آنا جانا بڑی نعمت و غنیمت ہے، اس کی قدردانی پر بڑا انعام ہوگا تو وہیں ناقدری پر بڑی بدنصیبی بھی ہوگی۔ آخرت یعنی دوسری دنیا کی دائمی زندگی میں ہم وقت کی موجودہ بندشوں سے آزاد ہوچکے ہونگے جہاں اسی دنیا کے ان گزرتے لمحات میں کئے ہوئے اچھے برے اعمال کا اچھا برا بدلہ دیا جائے گا۔
کلام الٰہی میں بہت سی آیات وقت کی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور کچھ آیتوں میں صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ یہ دنیوی زندگی دھوکہ کا سامان ہے، اور زندگی کے دن مختصر، عارضی اور فانی ہیں، جو وقت ابھی گذر رہا ہے وہ امتحان کا مرحلہ ہے، اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (آل عمران:185)۔۔۔ لوگوں کیلئے ان کے حساب کا دن قریب آپہنچا ہے اور وہ ہیں کہ غفلت کی حالت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ (الانبیاء :1) ۔۔۔ قسم ہے (گزرتے) زمانے کی! سارے انسان خسارے میں پڑے ہوئے ہیں ، سوائے ان کے جو ایمان کے ساتھ نیک اعمال میں لگے ہوئے ہیں اور حق و صبر کی تلقین کرتے ہوئے اس پر ثابت قدم ہیں۔ (العصر)
دنیو ی زندگی اور وقت کی حقیقت:
دنیوی زندگی بس چند روزہ ہے، اور مرتے ہی ہم عالم آخرت کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں، عمل کا وقت ختم ہو کر جزاء و سزا کا وقت شروع ہوجاتا ہے، اور عالم برزخ میں کچھ ہی عرصہ قیام کرکے حشر میں داخل ہوجائیں گے، اس وقت وقفۂ برزخ اتنا کم محسوس ہوگا گویا مرتے ہی قیامت قائم ہوگئی ہے اور یہ دنیوی اور برزخی زندگی کی گذران بس ایک صبح یا ایک شام کے بقدر رہی ہے۔ (كَاَنَّهُمۡ يَوۡمَ يَرَوۡنَهَا لَمۡ يَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا عَشِيَّةً اَوۡ ضُحٰٮهَا. النازعات:46)
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وقت ایک ایسا احساس ہے جو جسم اور روح دونوں کے اکٹھا ہونے پر ہوتا ہے؛ اگر روح بدن سے دائمی طور پر جدا ہوجائے تو دائمی اور کچھ عرصہ کیلئے جدا ہو تو عارضی طور پر ہم وقت کے احساس کو کھو دیتے ہیں۔ عارضی طور پر احساسِ وقت کھو دینے کو رات کے سونے اور صبح کے بیدار ہونے سے سمجھا جاسکتا ہے؛ اگر ہم ایسے کمرے میں سوئے ہوں جہاں دن کی آمد کا پتہ نہ چلے، روشنی نہ ہو، وقت بتانے کا آلہ نہ ہو اور گہری نیند سے بیدار ہوئے ہوں تو ہمیں وقت کے گذرنے کا درست اندازہ نہیں ہوسکے گا۔ اسی طرح اگر نیند کا دورانیہ طویل ہوجائے یعنی صدیوں پر محیط ہو تب بھی بالکل یہی کیفیت ہوگی۔ اس کی نظیریں قرآن مجید میں ملتی ہیں کہ ایک نبیؑ جو سو سال سوکر اٹھتے ہیں وقت کا درست اندازہ نہیں کرپاتے اور کہتے ہیں کہ شاید سوتے ہوئے ایک آدھ دن گذرا ہے؛ (اَوۡ كَالَّذِىۡ مَرَّ عَلٰى قَرۡيَة .......) اسی طرح تین سو نو سال (309) تک غار میں سوتے رہنے کے بعد اصحابِ کہف بیدار ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاید ایک دن یا اس سے بھی کم وقت سوئے ہیں۔ ( وَلَبِثُوۡا فِىۡ كَهۡفِهِمۡ ثَلٰثَ مِائَة ........ قَالُوۡا لَبِثۡنَا يَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ يَوۡمٍ .......) یہ احساسِ وقت کھودینے کی دو قرآنی مثالیں ہیں جس میں دوسرے بہت سے نُکات واضح ہونے کے مذکورہ بالا احساسِ وقت کھودینے کا نُکتہ بھی صاف سمجھ میں آتا ہےـ بالکل اسی طرح روح کی جسم سے مستقل علیحدگی پر بھی یہی کیفیت ہوگی اور قیامت میں یعنی دوبارہ اُٹھ کھڑے ہونے کے دن، موت کے بعد سے عالمِ برزخ اور قیامت تک کی زندگی یوں محسوس ہوگی کہ بس چند گھنٹے گزرے ہیں۔ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر یہ مضامین بیان ہوئے ہیں۔ (وَيَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَةُ يُقۡسِمُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ. مَا لَبِثُوۡا غَيۡرَ سَاعَةٍ ؕ..... وغیرہ)
اسی کے ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ
جب تک ہم انسان جسم اور روح کے ساتھ زمین کی گردش میں مقید ہوتے ہیں تب تک وقت کا احساس ہم پر طاری ہوتا ہے، اگر اس گردش سے باہر نکل جائیں تو یہ احساس ہم پر طاری نہ ہو جیسے زمین کی گردش رک جائے تو وقت تھم جائے گا اور دن ہمیشہ دن اور رات ہمیشہ رات ہی رہے گی۔ لیکن وقت کی گردش تھام لینے پر فقط اللہ پاک ہی قدرت رکھتے ہیں اور اپنے پاکیزہ کلام میں اپنے خاص اسلوب میں اس بات کا اعلان بھی فرما دیا ہےـ (قصص :71) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا سے رخصت ہوجانے اور دوسری دنیا میں چلے جانے کے بعد قیدِ وقت سے آزادی کے ساتھ احساسِ وقت سے بھی آزادی ہوسکتی ہےـ
______
خلاصہ کلام یہ کہ جس طرح ہم سوتے ہوئے وقت کا احساس کھو دیتے ہیں اسی طرح جب ہم مر جاتے ہیں تب بھی یہ احساس ہم سے گم ہو جاتا ہے یعنی ہم نیند یا موت کے بعد وقت کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں؛ ہماری روح ہمارے پیدا کرنے والے کے قبضے میں ہوتی ہے، وہ جس طرح ہر رات ہمیں سُلا کر وقتی موت دیتا ہے اور ہر صبح بیدار کرکے عارضی زندگی دیتا ہے بالکل اسی طرح زندگی کے خاتمے پر دائمی موت دے کر قیامت کے دن دوبارہ دائمی زندگی بھی دے گا اس میں کوئی شک نہیں اور یہ اس کا وعدہ ہےـ اس لئے قیامت کو بہت دور نہ سمجھا جائے اور زندگی کو غیر فانی نہ خیال کیاجائے۔ اور دلچسپ بات یہ کہ سوتے وقت اور سوکر اٹھتے وقت کی دعاؤں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سونے اور بیدار ہونے کو مرنے اور زندہ ہونے سے تعبیر کیا ہےـ
اس سارے مضمون کو راست آیاتِ قرآنی سے سمجھا جاسکتا ہےـ ذیل میں انہیں کچھ تفصیل سے ملاحظہ کیجئے۔
______________________
... موجودہ دنیا میں وقت کا احساس ...
نیند میں روح کا سفر :
نیند کی حالت میں بھی کسی درجے میں روح قبض ہوتی ہے، لیکن اس طرح کہ جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں، واپس آجاتی ہے اور اگر موت کا وقت آچکا ہو تو اسے پوری طرح قبض کرلیا جاتا ہے۔ جیسے بہت سے لوگ نیند ہی میں اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں اور سوتے سوتے آخرت کے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ (اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الۡاَنۡفُسَ حِيۡنَ مَوۡتِهَا وَالَّتِىۡ لَمۡ تَمُتۡ فِىۡ مَنَامِهَا ۚ .... الزمر 42) اللہ تمام روح کو ان کی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے، اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی، ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں (قبض کرلیتا ہے،) پھر جن کے بارے میں اس نے موت کا فیصلہ کرلیا۔ انہیں اپنے پاس روک لیتا ہے، اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہےـ
ایک اور آیت میں نیند میں قبضِ روح کا بیان ہے؛ (وَهُوَ الَّذِىۡ يَتَوَفّٰٮكُمۡ بِالَّيۡلِ .... الأنعام:60) اور وہی ہے جو رات کے وقت (نیند میں) تمہاری روح (ایک حد تک) قبض کرلیتا ہےـ
ایک نبیؑ کا 100 سال تک موت سے دو چار ہونا :
ایک پیغمبرؑ کا ایک بستی سے گزر ہوا جو مکمل طور پر تباہ ہوچکی تھی اس کے تمام باشندے مرکھپ چکے تھے اور مکانات چھتوں سمیت گر کر مٹی میں مل گئے تھے تو انہوں نے دل میں سوچا کہ اللہ تعالیٰ اس ساری بستی کو کس طرح زندہ کرے گا، بظاہر اس سوچ کا منشاء خدانخواستہ کوئی شک کرنا نہیں تھا بلکہ حیرت کا اظہار تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت کا مشاہدہ اس طرح کرایا جس کا اس آیت میں ذکر ہےـ (اَوۡ كَالَّذِىۡ مَرَّ عَلٰى قَرۡيَةٍ وَّ هِىَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوۡشِهَا ۚ قَالَ اَنّٰى يُحۡىٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعۡدَ مَوۡتِهَا ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ ؕ...... البقرة:259) - - - - - یا (تم نے) اس جیسے شخص (کے واقعے) پر (غور کیا) جس کا ایک بستی پر ایسے وقت گزر ہوا جب وہ چھتوں کے بل گری پڑی تھی؟ اس نے کہا کہ : اللہ اس بستی کو اس کے مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا ؟ پھر اللہ نے اس شخص کو سو سال تک کے لیے موت دی، اور اس کے بعد زندہ کردیا۔ (اور پھر) پوچھا کہ تم کتنے عرصے تک (اس حالت میں) رہے ہو ؟ اس نے کہا : ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ۔ اللہ نے کہا : نہیں بلکہ تم سو سال اسی طرح رہے ہو۔ ........ چنانچہ جب حقیقت کھل کر اس کے سامنے آگئی تو وہ بول اٹھا کہ : مجھے یقین ہے اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
غار والے 309 سال تک سوتے رہے :
وَلَبِثُوۡا فِىۡ كَهۡفِهِمۡ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيۡنَ وَازۡدَادُوۡا تِسۡعًا. الكهف:25) - - - اور وہ (اصحاب کہف) اپنے غار میں تین سو سال اور مزید نو سال (سوتے) رہے۔ - - - اور (جیسے ہم نے انہیں سلایا تھا) اسی طرح ہم نے انہیں اٹھا دیا تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کریں۔ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا : تم اس حالت میں کتنی دیر رہے ہوگے ؟ کچھ لوگوں نے کہا : ہم ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم (نیند میں) رہے ہوں گے۔
______________________
..... دوسری دنیا (آخرت) میں وقت کا احساس .....
_ مجرمین تعجب سے سرگوشی کریں گے:
آپس میں اندازہ لگاتے ہوئے کہیں گے؛ (يَّتَخَافَـتُوۡنَ بَيۡنَهُمۡ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا عَشۡرًا ۞ نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا يَقُوۡلُوۡنَ اِذۡ يَقُوۡلُ اَمۡثَلُهُمۡ طَرِيۡقَةً اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا يَوۡمًا ....... طه : 102-104) - - - آپس میں سرگوشیاں کر رہے ہوں گے کہ تم (قبروں میں یا دنیا میں) دس دن سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔ ....... جبکہ ان میں سے جس کا طریقہ سب سے بہتر ہوگا، وہ کہے گا کہ تم ایک دن سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔
نیک لوگ انہیں بتائیں گے کہ قیام کتنا ہوا ہے :
قیامت کے دن مجرم لوگ قسم کھا لیں گے کہ وہ (برزخ میں) ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ اس وقت نیک لوگ کہیں گے؛ (وَقَالَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَ الۡاِيۡمَانَ لَقَدۡ لَبِثۡـتُمۡ فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ اِلٰى يَوۡمِ الۡبَـعۡثِۖ ...... (الروم : 55-56) - - - جن لوگوں کو علم اور ایمان عطا کیا گیا ہے وہ کہیں گے کہ : تم اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر کے مطابق حشر کے دن تک (برزخ میں) پڑے رہے ہو۔ اب یہ وہی حشر کا دن ہے، لیکن تم لوگ یقین نہیں کرتے تھے۔
______________________
... سوتے جاگتے وقت کی مسنون دعائیں ...
سوتے وقت اور سوکر اٹھتے وقت کی مسنون دعائیں بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ سونا؛ مرنے کے مشابہ ہے اور سوکر اٹھنا؛ دوبارہ جی اُٹھنے کے مشابہ ہےـ اس دعا سے یہ تربیتی پہلو بھی مقصود ہے کہ روزانہ سوتے جاگتے وقت اصل سونے جاگنے یعنی مرنے اور زندہ ہونے کو یاد کیا جائے ورنہ ان دعاؤں میں سادہ سے الفاظ بھی تعلیم کئے جاسکتے تھے یعنی "أَمُوتُ وَأَحْيَا: میں مرتا اور جیتا ہوں " کی جگہ "أناَمُ و أسْتَيْقِظُ: میں سوتا ہوں اور جاگتا ہوں " ہوتے اور "أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا : ہمیں موت دینے کے بعد زندگی بخشی " کی جگہ "أنَامَناَ و أيْقَظَناَ : ہمیں سُلانے کے بعد جگایا " ہوتے۔
سوتے وقت کی مسنون دعا :
اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا ۔ ترجمہ: اے اللہ میں تیرا نام لے کر مرتا ہوں اور جیتا ہوں۔ (بخاری)
نیند سے اٹھتے وقت کی مسنون دعا :
الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ۔ ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف موت کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے۔ (بخاری)
.................................
______ آخری بات :
آج اس دنیا میں ہم لوگ "ٹائم پاس یعنی وقت گذاری" کے لیے شغلِ لاحاصل ڈھونڈتے ہیں لیکن دوسری دنیا میں انہیں یونہی غفلت سے گذار دینے کا احساس ہوگا اس وقت پچھتانا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اس لئے کہ مرنے کے بعد دوبارہ کسی کو موجودہ دنیا میں نہیں بھیجا جائے گا، یہ اللہ پاک کا فیصلہ ہےـ ہمیں ان گذرتے لمحات کو قیمتی بنانے کی خوب فکر کرنی چاہیے، ہمارے پاس بس موت آنے تک ہی کی فرصت ہے اور موت کب آئے گی اس کا علم کسی کو نہیں، معلوم ہوا ہر لمحہ نیک اعمال میں لگانا ہی عقلمندی ہے اور ضائع کرنا سراسر بیوقوفی ہےـ
ذرا تصور کیا جائے کہ اس وقت کیا حالت ہوگی جب مجرمین سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ بذات خود سوال فرمائیں گے اور ان کی غفلت پر شاہانہ تنبیہ کریں گے؛ اور خدانخواستہ ہم مجرمانہ غفلت میں پڑے رہے اور اسی حال میں دنیا سے رخصت ہوگئے تو کیسی بد نصیبی کی بات ہوگی! کیا اچھا ہو کہ آج اور ابھی ہم ہوشیار ہوجائیں اور سنجیدگی سے سیدھے راستے پر چل پڑیں۔
مجرمین سے حق تعالیٰ پوچھیں گے؛ (كَمۡ لَبِثۡتُمۡ فِى الۡاَرۡضِ عَدَدَ سِنِيۡنَ ۞ قَالُوۡا لَبِثۡنَا يَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ يَوۡمٍ فَسۡـئَـلِ الۡعَآدِّيۡنَ ۞ قٰلَ اِنۡ لَّبِثۡـتُمۡ اِلَّا قَلِيۡلًا لَّوۡ اَنَّكُمۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ.... المؤمنون 111. 113) - - - (پھر) اللہ (ان مجرموں سے) فرمائے گا : تم زمین میں گنتی کے کتنے سال رہے؟ وہ کہیں گے کہ : ہم ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہوں گے۔ (ہمیں پوری طرح یاد نہیں) اس لیے جنہوں نے (وقت کی) گنتی کی ہو، ان سے پوچھ لیجیے۔ اللہ فرمائے گا : تم واقعی تھوڑی مدت سے زیادہ نہیں رہے۔ کیا خوب ہوتا اگر یہ بات تم نے (اُس وقت) سمجھ لی ہوتی۔
اس لئے ہمیں چاہیے کہ مذکورہ بات کو اِسی وقت، اِسی دنیا سمجھ لیں اور نیک اعمال کے لیے ماضی کا جائزہ لیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرلیں؛ کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہےـ
ما الدھر الا ساعتان تأمل
فیما مضی وتفکر فی ما بقی
"زمانہ دو چیزوں سے عبارت ہے، ماضی جو غور و فکر کا طالب ہے اور مستقبل جو منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔ "
لٹا دیا جنہیں جیتی ہوئی رقم کی طرح
وہ دن پلٹ تو نہ آئیں گے ہاتھ ملنے سے
اللہ پاک ہمیں وقت کی قدر دانی کی توفیق دے اور آخرت کے لئے بہتر تیاری کا موقع عطا فرمائے۔ آمین یاربّ العالمين
0 تبصرے