درس قرآن [26]... سورہ کہف اور فتنہ دجال

#درس قرآن [26]
سورہ کہف اور فتنہ دجال
سورۃ الكهف. آیت 25-26

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَبِثُوۡا فِىۡ كَهۡفِهِمۡ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيۡنَ وَازۡدَادُوۡا تِسۡعًا‏ ۞ قُلِ اللّٰهُ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثُوۡا‌ ۚ لَهٗ غَيۡبُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ ؕ اَبۡصِرۡ بِهٖ وَاَسۡمِعۡ‌ ؕ مَا لَهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا يُشۡرِكُ فِىۡ حُكۡمِهٖۤ اَحَدًا ۞
ترجمہ:
اور وہ (اصحاب کہف) اپنے غار میں تین سو سال اور مزید نو سال (سوتے) رہے۔ ۞ (اگر کوئی اس میں بحث کرے تو) کہہ دو کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت (سوتے) رہے۔ آسمانوں اور زمین کے سارے بھید اسی کے علم میں ہیں۔ وہ کتنا دیکھنے والا، اور کتنا سننے والا ہے۔ اس کے سوا ان کا کوئی رکھوالا نہیں ہے، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ ۞

........... تفسیر .............

وَلَبِثُوْا فِيْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا
یعنی غار میں ان کے سونے کی مدت شمسی کیلنڈر میں تین سو سال جبکہ قمری کیلنڈر کے مطابق تین سو نو سال بنتی ہے۔
جمہور مفسرین نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ انھیں لوگوں کا قول ہے جو ان کی مختلف تعداد بتاتے ہیں، جس کی دلیل اللہ کا یہ قول ہے ' کہ اللہ ہی کو ان کے ٹھہرے رہنے کا بخوبی علم ہے ' جس کا مطلب وہ مذکورہ مدت کی نفی لیتے ہیں۔ لیکن جمہور کی تفسیر کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہل کتاب یا کوئی اور اس بتلائی ہوئی مدت سے اختلاف کرے تو آپ ان سے کہہ دیں کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ؟ جب اس نے تین سو نو سال مدت بتلائی ہے تو یہی صحیح ہے کیونکہ وہی جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت غار میں رہے ؟

 
مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِيٍّ ۡ وَّلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِهٖٓ اَحَدًا
اس کے سوا ان کا کوئی ساتھی کارساز مددگار حمایتی اور پشت پناہ نہیں ہے۔ لفظ ”ولی“ ان سب معانی کا احاطہ کرتا ہے۔ 
وہ اپنے اختیار میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتا۔ اس بارے میں سورة یوسف آیت 40 و 67 میں اس طرح ارشاد ہوا : اِنِ الْحُکْمُ الاَّ لِلّٰہِ ”اختیار مطلق تو صرف اللہ ہی کا ہے“۔ جبکہ سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت میں یوں فرمایا گیا : وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْْمُلْکِ ”اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے بادشاہت میں۔“


’’ لبثوا فی کھفھم ‘‘۔ فقہا ء نے استدلال کیا ہے کہ ظالموں سے فرار کرجانا جائز ہے۔ بلکہ اولیاء انبیاء کے معمولات میں سے ہے۔ فیہ جواز الفرار من الظالم وھی سنۃ الانبیاء والاولیاء (ابن العربی) (تفسیر ماجدی) 

______________________ 

جمادی الاخری 29 , 1442 بروز جمعہ
فروری 12 , 2021 
➖➖➖➖➖  
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت 
 جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری............................................*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے