#درس قرآن [27]
*سورہ کہف کے مضامین کی تلخیص*
*(تیسرا رکوع : آیت ۱۸؍ تا ۲۲؍)*
______________________________
_*جیسا کہ سلسلۂ درس قرآن کے آغاز میں کہا گیا تھا کہ "استاذ محترم مولانا جمال عارف ندوی صاحب کی تحریر کردہ اس سورت کے مضامین کی تلخیص بھی رکوع در رکوع پیش کی جاتی رہے گی۔" سورہ کہف کی بارہ رکوعات ہیں، پہلی رکوع کی تلخیص پیش خدمت ہےـ*_
______________________________
بسم اللہ الرحمن الرحیم
*تلخیص*
اس رکوع میں اصحابِ کہف کے واقعہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نبی کریم ﷺ سے خطاب کرکے ارشاد فرماتے ہیں ’’اگر آپ کو اُن اصحاب کہف کو دیکھنے کی نوبت آئی تو آپ خیال کرتے کہ وہ جاگ رہے ہیں ، حالانکہ وہ سو رہے تھے اور ہم دائیں بائیں ان کی کروٹیں بدل رہے تھے۔ ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر آپ ان کو جھانک کر دیکھتے تو یقینا پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے اور آپ کے اندر اُن کی دہشت سما جاتی۔‘‘
پھر جس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں سلایا تھا تین سو نو ( ۳۰۹) سال کے بعد پھر اپنی قدرت سے انہیں بیدار کر دیا۔ اب وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ تم کتنی مدت سوئے؟ کچھ لوگوں نے کہا : ہم ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم (نیند میں) رہے ہوں گے۔ دوسروں نے کہا : تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی دیر اس حالت میں رہے ہو۔ خیر اب تم اپنے میں سے کسی کو یہ سکّہ لیکر شہر بھیجو، وہ تحقیق کرکے ہم سب کیلئے حلال اور پاکیزہ کھانا لے آئے۔ ہاں! وہ جانے والا شخص احتیاط برتے۔ کسی کو تمہاری بھنک نہ لگنے دے۔ اس لئے کہ اگر لوگوں کو تمہاری خبر لگ گئی تو وہ تمہیں پتھروں سے مار مار کر ہلاک کردیں گے ، یا زبردستی اپنے دین میں تمہیں واپس لوٹادیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو تم کبھی کامیاب نہ ہو سکو گے۔
پھر یوں ہوا کہ اصحابِ کہف کی حقیقت لوگوں پر ظاہر ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اور اس طرح ہم نے لوگوں پر ان کی خبر ظاہر کردی ، تاکہ وہ جان لیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کا اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اور یہ کہ قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں‘‘۔
اصحابِ کہف کی حقیقت ظاہر ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دے دی جس کے بعد لوگوں میں یہ بحث اور تکرار شروع ہوگئی کہ ان کی یادگار کے طور پر کس طرح کی عمارت تعمیر کی جائے۔ جو لوگ اس معاملے میں غالب آئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ یہاں ایک مسجد تعمیر کریں گے۔
آگے اللہ تعالیٰ نے اصحابِ کہف کی تعداد کے سلسلے میں اہل ِ کتاب و مشرکین سے بحث و مباحثہ کے متعلق نبی کریم ﷺ کو ممانعت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’عنقریب یہ کہیں گے کہ اصحابِ کہف تین تھے ، چوتھا انکا کتا تھا اور بعض کہیں گے وہ پانچ تھے چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب اٹکل کی باتیں ہیں۔ بعض کہیں گے کہ وہ سات تھے آٹھواں ان کا کتا تھا۔ آپ کہہ دیجئے کہ ان کی تعداد سے میرا رب خوب واقف ہے اور اِس کی خبر کم ہی لوگوں کو ہے۔ لہذا آپ سرسری گفتگو کے علاوہ ان سے اس معاملے میں کچھ بحث نہ کیجئے اور نہ انکے بارے میں کسی سے کچھ دریافت کیجئے ۔‘‘
چنانچہ ان میں سے ایک شخص چاندی کے وہ سکے لیکر شہر میں پہنچا۔ کچھ چیزیں خریدنے کیلئے سکّہ آگے بڑھایا تو اُن سکوں کی قدامت نے ان کے راز کو فاش کردیا۔
----------------------
*مختصر تشریح*
تین سو سال کے بعد تو یہاں تو دنیا بدل چکی تھی۔ یہ شخص بھی ہر چیز کو دیکھ کر حیران تھا۔ جس دوکان دار کو سکہ دیا وہ بھی ان سکوّں کو دیکھ کر شبہ میں پڑگیا۔ اس نے دوسرے دوکانداروں کو دکھایا تو وہ بھی حیران رہ گئے۔ وہ سب سمجھے کہ اس آدمی کے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہے۔ چنانچہ وہ سب اس کو لے کر بادشاہ کے پاس پہنچے۔ اس مدت میں انقلاب آچکا تھا۔ اب شرک و بت پرستی کی جگہ عیسائیت کا دور دورہ تھا۔ بادشاہ خود عیسائی اور موحّد تھا۔ اس نے جب سکوّں کو دیکھا تو اسے خیال ہوا کہ یہ توان ہی میں کا نوجوان معلوم ہوتا ہے جو تین سو سال قبل روپوش ہو گئے اور جن کا قصہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا آرہا تھا۔ اس نے تحقیق کی تو صداقت ظاہر ہوگئی۔ بادشاہ نے اس کا بڑا اکرام کیا ، آناً فاناً لوگوں میں چرچا ہوا۔ پھر بادشاہ اور ایک جم غفیر اس کے ساتھ غار تک پہنچا اور انہوں نے تمام اصحاب ِ کہف سے ملاقات کی۔
جب لوگوں پر اللہ کی قدرت ظاہر ہو گئی تو مشیتِ الٰہی اس بات کی متقاضی ہوئی کہ وہ وفات پاجائیں۔ چنانچہ اسی وقت اللہ تعالی نے اصحاب کہف پر حقیقی موت طاری فرما دی۔
اصحابِ کہف کا اتنی طویل مدت کے بعد نیند سے بیدار ہونے کا واقعہ ایک ایسے زمانہ میں رونما ہوا تھا جب خود عیسائیوں میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا عقیدہ کمزور پڑتا جارہا تھا ،یہاں تک ’’ تھیوڈر‘‘ نامی ایک پادری مرنے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا علی الاعلان انکار کرنے لگا تھا۔ اصحاب ِ کہف کے اس واقعہ کے انکشاف نے گویا اس مسئلہ کا فیصلہ کردیا کہ جب اتنی طویل مدت تک انسان کھائے پئے بغیر سوتے ہوئے زندہ رہ سکتا ہے اور پھر جب اللہ چاہے بیدار ہوسکتا ہے تو پھر ایک طویل عرصے تک موت کی حالت ( جو کئی پہلوؤں کے اعتبار سے نیند کے مشابہ ہوتی ہے ) میں رہ کر بھی دوبارہ زندہ کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ کے لئے یہ کیا مشکل ہے۔
_____________________
رجب المرجب 13 , 1442 بروز جمعہ
فروری 26 , 2021
➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری............................................*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
0 تبصرے