پیدا کرنے والا؛ دل اور عمل دیکھتا ہے



پیدا کرنے والا؛ دل اور عمل دیکھتا ہے 
✍ نعیم الرحمن ندوی 

 دنیا والے دو چیزیں دیکھتے ہیں شکل و صورت اور مال و دولت؛ حسن و جمال اور مال و منال دنیا کے کاموں کو نکالنے کیلئے بہترین سفارشی کا کردار بھی ادا کرتے ہیں، اس کے علاوہ شادی بیاہ کیلئے لڑکی میں حسن و جمال اور لڑکے میں مال و منال دیکھا جاتا ہےـ لیکن عجیب بات ہے کہ اللہ پاک کے ہاں یہ دونوں چیزیں کوئی وقعت نہیں رکھتیں! 

دوسری طرف ........ دو چیزیں اللہ پاک دیکھتے ہیں؛ ایک دل؛ اور دوسرے دل سے کیا ہوا عمل  

ایسا کیوں؟ 
اس لیے کہ شکل و صورت اور مال و دولت؛ اللہ پاک نے اپنی مرضی سے جسے چاہا، جتنا چاہا دے دیا؛ لیکن اپنا دل سنوارنے اور اچھے عمل کرنے کا حکم انسان کو دیا ہے اور اسے سنوارنے اور بگاڑنے دونوں کاموں کی اہلیت و صلاحیت دیکر اسے مُکلَّف بنایا ہےـ دل کو اللہ کی یاد سے آباد کرو یا غیر کو دل میں بسالو۔ نیک عمل کرو یا بے عملی و بد عملی کو اپنالو، مرضی انسان کی ہےـ 
______ 
اللہ پاک سچے معبود ہیں :
اسی کے ساتھ یہ حدیثِ مبارکہ اللہ پاک کے سچے الٰہ و خالق ہونے کی دلیل بھی فراہم کرتی ہے کہ جو چیزیں خالق نے خود پیدا کی ہیں اور اپنی مرضی سے ان میں کمی بیشی کی ہیں ان کو نہیں دیکھتے بلکہ جن چیزوں میں مُکلَّف بنایا ہے، اختیار دیا ہے اسی کو دیکھتے ہیں۔ اللہ پاک دلوں کے رازدار ہیں، چاہو نہ چاہو وہ سب جاننے والے اور خبر رکھنے والے ہیں، إنه عليم بذات الصدور 
اس سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ملاحظہ فرمائیں :
عن أبي هريرة ؓ : إنَّ اللهَ لا ينظرُ إلى صُوَرِكم ولا أموالِكم ولكن ينظرُ إلى قلوبِكم وأعمالكم. (رواه مسلم) 
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مال ومتاع کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہےـ (یعنی اس کے ہاں تو بس اس چیز کو دیکھا جاتا ہے کہ تمہارے دل میں یقین وصدق اور اخلاص ہے، یا نفاق اور ریاء وسمعہ ہے، اسی طرح اس کے نزدیک اچھے اور برے اعمال کا اعتبار ہے جس کے مطابق وہ بندوں کو جزا و سزا دیتا ہے۔) (مسلم)
................................. 
اور
حساب کے دن بھی ایسا ہی دل مطلوب ہے :

يَوۡمَ لَا يَنۡفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوۡنَۙ ۞ اِلَّا مَنۡ اَتَى اللّٰهَ بِقَلۡبٍ سَلِيۡمٍؕ ۞ (القرآن - الشعراء. آیت 88-89) 
ترجمہ: جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا، نہ اولاد ۞ ہاں جو شخص اللہ کے پاس *صاف ستھرا دل* لے کر آئے گا۔ (اس کو نجات ملے گی) ۞
______ 
خلیل اللہ ؑ اسی لیے تو خُلَّۃُ أللّٰہِ سے نوازے گئے کہ دنیا ہی میں اللہ پاک کی طرف قلب سلیم لیکر حاضر ہوگئے تھے :

وَاِنَّ مِنۡ شِيۡعَتِهٖ لَاِبۡرٰهِيۡمَ‌ۘ ۞ اِذۡ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلۡبٍ سَلِيۡمٍ ۞ (القرآن - الصافات. آیت 83-84) 
ترجمہ: اور انہی کے طریقے پر چلنے والوں میں یقینا ابراہیم بھی تھے۔ ۞ جب وہ اپنے پروردگار کے پاس *صاف ستھرا دل* لے کر آئے۔ ۞
______ 
اور دل خراب ہوتا ہے بُرے اعمال و اخلاق سے :

كَلَّا‌ بَلۡ ۜ رَانَ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ مَّا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ ۞  (القرآن - المطففين. آیت 14) 
ترجمہ: ہر گز نہیں، بلکہ دراصل اِن لوگوں کے دلوں پر اِن کے بُرے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔ 
 ................................. 

             ______ سبق ______ 
ہمیں اپنا دل بنانے سنوارنے کی ضرورت ہے نہ کہ شکل و صورت، نیک اعمال کا ذخیرہ کرنے میں کوشش کرنا ہے نہ کہ مال و منال کے اکٹھا کرنے ہی کی فکر۔
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریّا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم
______ 

دعا ہے اللہ پاک ہمارا دل سنوار دے، ہمارے نفوس کا تزکیہ فرمادے۔ آمین یاربّ العٰلمین 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے