#درس قرآن [24]....
سورہ کہف اور فتنہ دجال
(سورۃ الكهف. آیت 22)
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
سَيَـقُوۡلُوۡنَ ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمۡ كَلۡبُهُمۡۚ وَيَقُوۡلُوۡنَ خَمۡسَةٌ سَادِسُهُمۡ كَلۡبُهُمۡ رَجۡمًۢا بِالۡغَيۡبِۚ وَيَقُوۡلُوۡنَ سَبۡعَةٌ وَّثَامِنُهُمۡ كَلۡبُهُمۡؕ قُلْ رَّبِّىۡۤ اَعۡلَمُ بِعِدَّتِهِمۡ مَّا يَعۡلَمُهُمۡ اِلَّا قَلِيۡلٌ فَلَا تُمَارِ فِيۡهِمۡ اِلَّا مِرَآءً ظَاهِرًا وَّلَا تَسۡتَفۡتِ فِيۡهِمۡ مِّنۡهُمۡ اَحَدًا ۞
ترجمہ:
کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین آدمی تھے، اور چوتھا ان کا کتا تھا، اور کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے، اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب اٹکل کے تیر چلانے کی باتیں ہیں۔ اور کچھ کہیں گے کہ وہ سات تھے، اور آٹھواں ان کا کتا تھا، کہہ دو کہ : میرا رب ہی ان کی صحیح تعداد کو جانتا ہے۔ تھوڑے سے لوگوں کے سوا کسی کو ان کا پورا علم نہیں۔ لہذا ان کے بارے میں سرسری گفتگو سے آگے بڑھ کر کوئی بحث نہ کرو، اور نہ ان کے بارے میں کسی سے پوچھ گچھ کرو۔
______ تفسیر ______
اس آیت نے یہ مستقل سبق دے دیا ہے کہ جس معاملے پر انسان کا کوئی عملی مسئلہ موقوف نہ ہو، اس کے بارے میں خواہ مخواہ بحثیں نہیں کرنی چاہیے۔ اصحاب کہف کے واقعے میں اصل سبق لینے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے کس طرح ناموافق حالات میں حق پر ثابت قدم رہنے کا مظاہرہ کیا، اور پھر اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کی مدد فرمائی۔ رہا یہ کہ ان کی صحیح تعداد کیا تھی ؟ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر بحث کا بازار گرم کیا جائے۔ لہذا اس میں الجھنے کے بجائے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر کوئی اس معاملے میں بحث کرنا بھی چاہے تو اسے سرسری گفتگو کر کے ٹال دو ، اور اپنا وقت ضائع نہ کرو۔
.................................
بعض اہل تاویل نے اصحاب کہف کی تعداد سے متعلق آخری قول کو اقرب الی الصواب قرار دیا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ پہلو دو قولوں کو تو قرآن نے صاف رجما بالغیب قرار دیا ہے لیکن تیسرے قول سے متعلق کوئی اس طرح کی بات نہیں فرمائی ہے۔ یہ استنباط قرین صواب ہےـ
______________________
جمادی الاخری 8 , 1442 بروز جمعہ
جنوری 22 , 2021
➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری............................................*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
0 تبصرے