درس قرآن [23].... سورہ کہف اور فتنہ دجال



(سورۃ الكهف. آیت 21)

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَكَذٰلِكَ اَعۡثَرۡنَا عَلَيۡهِمۡ لِيَـعۡلَمُوۡۤا اَنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيۡبَ فِيۡهَا ‌ۚ اِذۡ يَتَـنَازَعُوۡنَ بَيۡنَهُمۡ اَمۡرَهُمۡ‌ فَقَالُوۡا ابۡنُوۡا عَلَيۡهِمۡ بُنۡيَانًـا ‌ ؕ رَبُّهُمۡ اَعۡلَمُ بِهِمۡ‌ؕ قَالَ الَّذِيۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰٓى اَمۡرِهِمۡ لَـنَـتَّخِذَنَّ عَلَيۡهِمۡ مَّسۡجِدًا ۞
ترجمہ:
اور یوں ہم نے ان کی خبر لوگوں تک پہنچا دی، تاکہ وہ یقین سے جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، نیز یہ کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ (پھر وہ وقت بھی آیا) جب لوگ ان کے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے، چنانچہ کچھ لوگوں نے کہا کہ ان پر ایک عمارت بنادو۔ ان کا رب ہی ان کے معاملے کو بہتر جانتا ہے۔ (آخر کار) جن لوگوں کو ان کے معاملات پر غلبہ حاصل تھا انہوں نے کہا کہ : ہم تو ان کے اوپر ایک مسجد ضرور بنائیں گے۔

       ................ تفسیر ................
جب وہ صاحب جن کا نام بعض روایتوں میں ”تملیخا“ بتایا گیا ہے کھانا لینے کے لیے شہر پہنچے، اور دکان دار کو وہ سکہ پیش کیا جو تین سو سال پرانا تھا، اور اس پر پرانے بادشاہ کی علامتیں تھیں وہ دکان دار بڑا حیران ہوا، اور ان کو لے کر اس وقت کے بادشاہ کے پاس پہنچا۔ یہ بادشاہ نیک تھا، اور اس نے یہ قصہ سن رکھا تھا کہ کچھ نوجوان دقیانوس کے ظلم سے تنگ آکر کہیں غائب ہوگئے تھے۔ اس نے معاملے کی مزید تحقیق کی تو پتہ چل گیا کہ یہ وہی نوجوان ہیں۔ اس پر بادشاہ نے ان کا خوب اکرام کیا، لیکن یہ حضرات دوبارہ اسی غار میں چلے گئے اور وہیں پر اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی۔

واقعہ میں قیامت کے بارے میں شہادت :

 ان اصحاب کہف کا اتنی لمبی مدت تک سوتے رہنا اور پھر زندہ جاگ اٹھنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی واضح دلیل تھی، اور اس واقعے کو دیکھ کر ہر شخص بآسانی اس نتیجے تک پہنچ سکتا تھا کہ جو ذات اتنے عرصے تک سونے کے بعد ان نوجوانوں کو زندہ اٹھاسکتی ہے، یقینا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کردے۔ بعض روایات میں ہے کہ اس وقت کا بادشاہ تو قیامت اور آخرت پر ایمان رکھتا تھا، لیکن کچھ لوگ آخرت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے تھے، اور بادشاہ نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کو کوئی ایسا واقعہ دکھا دے جس سے آخرت پر ان کا ایمان مضبوط ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وقت ان نوجوانوں کو جگا کر اپنی قدرت کا یہ کرشمہ دکھا دیا۔

کل کے بے بس آج کے ہیرو : 
 جیسا کہ پیچھے عرض کیا گیا، یہ حضرات جاگنے کے بعد جلد ہی اسی غار میں وفات پاگئے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ سامنے آیا کہ جن نوجوانوں کو کبھی اس شہر میں اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے، اب اسی شہر میں ان کی ایسی عزت ہوئی کہ لوگ ان کی یاد گار میں کوئی عمارت بنانے کی فکر میں پڑگئے۔ اور آخر کار جن لوگوں کو اقتدار حاصل تھا، انہوں نے یہ طے کیا کہ جس غار میں ان کی وفات ہوئی ہے اس پر ایک مسجد بنادیں۔ واضح رہے کہ عمان کے پاس جو غار دریافت ہوا ہے اس میں کھدائی کرنے سے غار کے اوپر بنی ہوئی ایک مسجد بھی بر آمد ہوئی ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ ان کی وفات کی جگہ پر مسجد بنانے کی یہ تجویز اس زمانے کے اصحاب اقتدار نے دی تھی، قرآن کریم نے اس تجویز کی تائید نہیں فرمائی۔ لہذا اس آیت سے مقبرے بنانے یا قبروں کو عبادت گاہ میں تبدیل کرنے کا کوئی جواز نہیں نکلتا۔ بلکہ آنحضرت ﷺ نے کئی احادیث میں اس عمل سے منع فرمایا ہے۔
نبی ﷺ کے یہ ارشادات اس کی نہی میں موجود ہیں: 
لَعَنَ رسول الله صلى الله عليه وسلم زائرات القبور، والمُتَّخذين عليها المساجد والسُّرُج۔ (احمد، ترمذی، ابو داؤد نسائی۔ ابن ماجہ)۔ " رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر، اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر۔ 

الا ان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیاء ھم مساجد فانی انھٰکم عن ذٰلک (مسلم) خبردار رہو، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا دیتے تھے، میں تمہیں اس حرکت سے منع کرتا ہوں۔

 لعن اللہ تعالیٰ الیھود و النصاریٰ اتخذوا قبور انبیآءھم مساجد (احمد، بخاری، مسلم، نَسائی) اللہ نے لعنت فرمائی یہود اور نصاریٰ پر، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔ 

اِنَّ اولٰٓئک اذا کان فیھم الرجل الصالح فمات بنوا علیٰ قبرہ مسٰجد او صوروا فیہ تلک الصور اولٰٓئک شرار الخلق یوم القیٰمۃ (احمد، بخاری، مسلم، نسائی) " ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان میں کوئی مرد صالح ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر مسجدیں بناتے اور اس کی تصویریں تیار کرتے تھے۔ یہ قیامت کے روز بد ترین مخلوقات ہوں گے۔

مسجد بنانے کے ذکر کا فائدہ :
 روایات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب ان حضرات کی یادگار تعمیر کرنے کی تجویز آئی تو لوگوں نے یہ بھی سوچا کہ ان کے صحیح صحیح نام اور ان کا نسب اور مذہب وغیرہ بھی اس یادگار پر لکھا جائے لیکن چونکہ کسی کو ان کے پورے حالات معلوم نہیں تھے۔ اس لیے پھر لوگوں نے کہا کہ ان کے ٹھیک ٹھیک حالات تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن ہم ان کے نسب وغیرہ کی تحقیق میں پڑے بغیر ہی ان کی یاد گار بنا دیتے ہیں۔
قرآن مجید نے لوگوں کی یادگار کو مسجد سے تعبیر کرکے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ یہ موحد اور خدا پرست لوگ تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے خدا کی عبادت کا گھر بنایا۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ یہود اور نصاری کے عبادت خانے اصلاً مسجد ہی تھے۔ ان میں خرابی تو اس وقت سے پیدا ہوئی ہے جب ان قوموں نے مشرکانہ عقائد اختیار کیے اور اپنے معبدوں کو شرک سے آلودہ کیا۔ قرآن نے یہود اور نصاری کے " صوامع " اور " بیع " کو مسجد ہی کے زمرے میں شمار کیا ہے۔ ملاحظہ ہو سورة حج۔

 وَلَوۡلَا دَ فۡعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعۡضَهُمۡ بِبَـعۡضٍ لَّهُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذۡكَرُ فِيۡهَا اسۡمُ اللّٰهِ كَثِيۡرًا‌ ؕ وَلَيَنۡصُرَنَّ اللّٰهُ مَنۡ يَّنۡصُرُهٗ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِىٌّ عَزِيۡزٌ.... اور اگر اللہ لوگوں کے ایک گروہ (کے شر) کو دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں اور کلیسا اور عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے، سب مسمار کردی جاتیں۔ اور اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس (کے دین) کی مدد کریں گے۔ بلاشبہ اللہ بڑی قوت والا، بڑے اقتدار والا ہے۔

جمادی الاخری 1 , 1442 بروز جمعہ
جنوری 14 , 2021 
➖➖➖➖➖  
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت 
 جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری............................................*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے