مولانا پر الزام کیوں؟



مولانا پر الزام کیوں؟
✍ نعیم الرحمن ندوی

اولاد کی دینی تعلیم و تربیت ماں باپ کی اہم ترین ذمہ داری ہے، خاص طور پر علماء، اور دیندار لوگوں کو اس طرف زیادہ توجہ دینا چاہیے، یہ طبقہ چونکہ علمِ دین سے وابستہ ہوتا ہے اسی وجہ سے معاشرے کو اپنے بچوں کی تربیت کی لائن سے اس طبقے سے زیادہ توقع ہوتی ہے، اگر کچھ کَسر رہ جائے تو معاشرہ اسے نظرانداز نہیں کرتا، اسی لئے ہمارے معاشرے میں آئے دن بولے جانے والے بہت سے طعن و تشنیع کے محاورے جو اِن سے متعلق ہیں کانوں میں پڑتے رہتے ہیں، لیکن کچھ تو بڑے دل چیر دینے والے ہیں، انہیں میں سے یہ بھی ہیں؛ "ولی کے پیٹ میں شیطان"، "پڑھے لکھے ہوکر ایسا کرتے ہیں۔"، دیکھو! مولانا کے بچے ہیں، پھر بھی ایسا کرتے ہیں۔" وغیرہ وغیرہ، اسی طرز پر کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں زبانِ قلم نقل کرنے سے قاصر ہےـ 
ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بعض مرتبہ اچھی سے اچھی تعلیم و تربیت بھی اولاد کی اصلاح میں اپنا اثر نہیں دکھاتی اور اولاد ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں، اس کے باوجود بہرحال اس میں کمی، کوتاہی کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔

لوگوں کی عادت :
نیک لوگوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا ہر زمانے میں لوگوں کی عادت رہی ہے؛ حضرت مریم علیہا السلام کو دیا جانے والا طعنہ اس بات پر گواہ ہے: 
فَاَتَتۡ بِهٖ قَوۡمَهَا تَحۡمِلُهٗ‌ؕ قَالُوۡا يٰمَرۡيَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَيۡئًـا فَرِيًّا‏ ۞ يٰۤـاُخۡتَ هٰرُوۡنَ مَا كَانَ اَبُوۡكِ امۡرَاَ سَوۡءٍ وَّمَا كَانَتۡ اُمُّكِ بَغِيًّا‌ ۞ (سورۃ مريم. آیت 27-28) 
ترجمہ: پھر وہ اس بچے کو اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں وہ کہنے لگے کہ : مریم تم نے تو بڑا غضب ڈھا دیا۔ اے ہارون کی بہن نہ تو تمہارا باپ کوئی برا آدمی تھا، نہ تمہاری ماں کوئی بدکار عورت تھی۔
____ اس طعنہ زنی کی وجہ بھی ہے کہ علم و تقوی سے آراستہ طبقہ ہی معاشرے کی اصلاح کا اہم فریضہ انجام دیتا ہے، قوم کی رہبری میں سماج کے سنجیدہ لوگوں کو انہیں سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں؛ اب اگر بگاڑ انہیں کے گھروں میں آجائے تو پھر بات تو بڑی ہے اور زیادہ فکرانگیز بھی! چُوں کفر از کعبہ برخیزد کُجا ماند مسلمانی ۔۔۔۔ جب کعبہ ہی سے کفر نکلنے لگے تو بے چارہ مسلمان کہاں جائے؟ ۔۔۔۔۔
______

اصلاح کا آغاز اپنے گھر والوں سے:
 دیندار و صالح شخص سب سے پہلے اپنے اہلِ خانہ کے اصلاح کی فکر کرتا ہے؛ نبی ﷺ کو اسی بات کا حکم بھی دیا گیا تھا :
وَاَنۡذِرۡ عَشِيۡرَتَكَ الۡاَقۡرَبِيۡنَۙ‏ ۞ 
ترجمہ: اور (اے پیغمبر) تم اپنے قریب ترین خاندان والوں کو خبردار کرو۔ (سورۃ الشعراء. آیت 214)

اس کی تفسیر میں مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں؛ "یہ وہ آیت ہے جس کے ذریعے آنحضرت ﷺ کو سب سے پہلی بار تبلیغ کا حکم ہوا اور یہ ہدایت دی گئی کہ تبلیغ کا آغاز اپنے قریبی خاندان کے لوگوں سے فرمائیں، چنانچہ اسی آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے اپنے خاندان کے قریبی لوگوں کو جمع کرکے ان کو دینِ حق کی دعوت دی، اس میں یہ سبق بھی دیا گیا ہے کہ اصلاح کرنے والے کو سب سے پہلے اپنے گھر اور اپنے خاندان سے شروع کرنا چاہیے۔ 
______

انصاف کی راہ :
علماء، اولیاء، نبیوں کے وارث اور رسولوں کے نائب ہیں، لیکن معاشرہ اس طبقہ کو کچھ زیادہ ہی طنز و طعنے کا نشانہ بناتا ہے، اس لیے ضروری معلوم ہوا ہے کہ اس طبقہ کی نسبت جن پاکیزہ انسانوں سے ہے ان کے گھر والوں اور رشتہ داروں کے متعلق قرآن و سیرت سے مختصراً رہنمائی لیں۔
 اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت میں تھوڑا سا بھی غور و فکر سے کام لیا جائے تو بات صاف ہوجاتی ہے کہ کسی کے کِئے دھرے کا الزام دوسرے کے سَر رکھنا مناسب نہیں بطورِ خاص کسی عالمِ دین یا دیندار شخص کے اہل خانہ، رشتہ دار کسی برائی کا شکار ہوجاتے ہیں تو الزام اس صالح فرد کو دینا انصاف کے خلاف ہےـ 
______ 

خانوادۂ انبیاء ؑ پر ایک نظر : 
گھر اور خاندان کے بیشتر افراد اصلاحی کوششوں کا اثر قبول کرتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ بعض مرتبہ ایک آدھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خیر کے بجائے برائی کی طرف چل پڑتے ہیں حتی کہ کفر و شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اس کا بڑا سبب گھر کے باہر کا بُرا ماحول اور بُری صحبت ہوتی ہےـ 
قرآن کریم میں اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ہم ان کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔

آدم ؑ اور انکے دو بیٹے:
آدم ؑ پہلے انسان، پہلے باپ اور پہلے نبی ہیں، انہوں نے اولاد کی تربیت کی کیسی کچھ کوششیں کی ہونگی لیکن ہابیل کے خلاف قابیل کے دل میں شیطان نے اس درجہ دشمنی پیدا کی کہ بڑا بھائی قابیل، قاتل بن گیا اور ہابیل بے گناہ مارا گیا۔ اس واقعہ میں آدم ؑ کو بحیثیت باپ ناقص تربیت کرنے کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح اگر کسی عالمِ دین یا دیندار شخص کی اولاد میں ایسا کوئی جھگڑا، اختلاف پیدا ہوتا ہے اور ایسی کوئی بات پیش آجاتی ہے تو سارا الزام اس نیک آدمی کو نہیں دیا جاسکتا۔

اہم نکتہ:
ہابیلی برداشت یا قابیلی ظلم ؟ 

اس واقعہ میں ایک اہم بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ سماجی زندگی میں دوسگے بھائیوں میں شیطان اختلاف کی ایسی انتہاپسند شکلیں بھی پیدا کرسکتا ہے، چاہے بیٹے کتنے ہی نیک باپ کی اولاد ہوں۔ اس میں ہدایت و رہنمائی کا پہلو یہ ہیکہ ایک بھائی دوسرے کے مقابل ہابیل والا سلوک و رویہ اپنائے نہ کہ قابیل والا؛ قابیلی رویّے والا ظلم و زیادتی کرکے اللہ پاک کی پکڑ کا شکار ہوگا اور ہابیلی کردار اپنانے والا اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور معافی کا حقدار ہوگا۔ 
______________________ 

یعقوب ؑ کے بیٹے اور یوسف ؑ کے بھائی:

ایسا ہی یعقوب ؑ کے بیٹوں کے درمیان پیش آنے والا واقعہ ہے، باپ ہونے کی حیثیت سے والدِ بزرگوار یعقوب ؑ نے اپنے تمام فرزندوں کی خوب اچھی تربیت فرمائی اور خانوادہ خود بھی آبائی نبوت کا فیض یافتہ تھا، یعقوبؑ نبی، انکے والد إسحاق ؑ نبی اور دادا ابراہیم ؑ ابوالانبیاء تھے؛ لیکن ساری تربیت اور اعلی خاندانی نسبت کے باوجود شیطان نے اپنا کام کر دکھایا، بھائیوں کے بیچ پھوٹ ڈال دی، دس بھائیوں کے مضبوط گروہ نے ، کمزور چھوٹے بھائی یوسف ؑ کے خلاف انتہائی سفاکانہ اور غیر انسانی سلوک کیا، کسی نے کیا خوب کہا ہے..... 
بھاگ ان بَردہ فروشوں سے! کہاں کے بھائی 
بیچ ہی ڈالیں جو یوسف سا برادر پائیں 

ان دسوں نے معصوم بھائی کے حسد میں بزرگ والد کو بھی نہیں چھوڑا، قرآن مجید نے ایک جملہ میں ان کی ساری گستاخیوں کو سمیٹ لیا ہے، انہوں نے کہا : "ہمارے ابا تو یوسف و بِنْیامِیْن کی محبت میں بالکل ہی بہک گئے ہیں۔"
اِذۡ قَالُوۡا لَيُوۡسُفُ وَاَخُوۡهُ اَحَبُّ اِلٰٓى اَبِيۡنَا مِنَّا وَنَحۡنُ عُصۡبَةٌ ؕ اِنَّ اَبَانَا لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنِ ۞ (سورۃ يوسف. آیت 8) 
ترجمہ: یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہےکہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا ”یہ یوسف ؑ اور اس کا بھائی، دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں، سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں۔
_____
یہاں ان بھائیوں کے اختلاف و جھگڑے کا سبب والد کی تربیت کی کمی نہیں قرار دی جاسکتی بلکہ خود یعقوب ؑ کے الفاظ میں ان کا بیان کردہ وہ اندیشہ ہے جو آگے حقیقت میں تبدیل ہوگیا :
قَالَ يٰبُنَىَّ لَا تَقۡصُصۡ رُءۡيَاكَ عَلٰٓى اِخۡوَتِكَ فَيَكِيۡدُوۡا لَـكَ كَيۡدًا ؕ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ ۞ 
(سورۃ يوسف. آیت 5) 
ترجمہ: انہوں نے کہا : بیٹا! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے لیے کوئی سازش تیار کریں، کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔  
یعنی شیطان نے ان کے درمیان جھگڑا پیدا کیا اور یہ اس کا شکار ہوگئے۔
______ 
اہم نکتہ :
حاسد و محسود کا آخری نتیجہ  

اس واقعہ میں بھی اہم سبق یہ ملتا ہے کہ اگر بھائیوں میں محسود بھائی (یعنی جس سے حسد کیا جارہا ہےـ) ، یا حاسدین کے درمیان کوئی بھی محسود فرد؛ دو صفات اپنالیتا ہے تو یہی حاسدین اور انکی حاسدانہ کاروائیاں اس کیلئے دنیا و آخرت کی کامیابیوں کا ذریعہ اور ظاہری و باطنی ترقیات کا زینہ بن جاتی ہیں ..... اور حسد کرنے والے بیشتر اسی دنیا میں فلاکت و اِدبار اور مفلسی و قلَّاشی کا شکار ہو کر اس کے پاس لوٹتے ہیں، وہ صفات ہیں تقوی اور صبر - - - 
قَالُوۡۤا ءَاِنَّكَ لَاَنۡتَ يُوۡسُفُ‌ؕ قَالَ اَنَا يُوۡسُفُ وَهٰذَاۤ اَخِىۡ‌ ۖ قَدۡ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيۡنَاؕ اِنَّهٗ مَنۡ يَّتَّقِ وَيَصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞ (سورۃ يوسف. آیت 90) 
ترجمہ: (اس پر) وہ بول اٹھے : ارے کیا تم ہی یوسف ہو ؟ یوسف نے کہا : میں یوسف ہوں، اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص تقوی اور صبر سے کام لیتا ہے، تو اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
..... بھائیوں کے ظلم پر صبر اور زلیخا کے دعوتِ گناہ پر تقوی اختیار کیا اور اللہ پاک نے دونوں کو آپ ؑ کے مقابلے میں جُھکا دیا۔ ...... 
_____
آخری انجام و حتمی نتیجہ :
غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بھائیوں نے یوسف ؑ سے حسد کیا اور کنویں میں پھینکا، غلام بناکر بیچ دیا، اُدھر امرأة العزیز زلیخا نے تقوی اختیار کرنے پر جیل بھیج دیا ..... نتیجے میں اللہ پاک نے کنویں کی گہرائی سے نکال کر مصر کے شاہی تخت کا مالک بنادیا اور غلامی اور قیدخانے سے نکال کر زلیخا سمیت تمام رعایا کو انکا ماتحت بنادیا، اپنے وقت کے مملکت کے سب سے زیادہ بااختیار فرد بن گئے۔
_____
اللہ جزائے خیر دے استاذِ محترم مولانا جمال عارف ندوی صاحب کو؛ انہوں نے ایک مرتبہ بڑے تجربہ کی بات کہی تھی کہ "- - - انسان کی ترقی کیلئے دو چیزیں سواری کے دو پہیوں کی طرح ہوتی ہیں جس سے انسان ترقیات کی منزلیں طے کرتا جاتا ہے ایک حاسدین کا حسد، دوسرے مخلصین کی دعائیں۔ - - -"
______________________ 

شوہر اور بیوی بچے :

اسی طرح حضرت لوط ؑ و حضرت نوح ؑ کی بیویاں اور نوح ؑ کا بیٹا کِنْعاَنْ ..... ان جلیل القدر شوہروں اور عظیم القدر باپ کی تبلیغی کوششوں اور دعاؤں کے باوجود یہ لوگ ہدایت و ایمان کی دولت سے محروم رہ گئے، کفر و شرک پر اَڑے رہے۔ جس طرح ان کے ایمان نہ لانے اور سب سے بڑے گناہ کفر و شرک پر جمے رہنے کا قصور وار ان انبیائے کرام کو نہیں بنایا جاسکتا۔ اسی طرح آج اگر کسی عالمِ دین و دیندار شخص کے اتنے قریبی گھر والے جن کے ساتھ زندگی کا سب سے قریبی تعلق ہوتا ہے، سب سے زیادہ وقت گزرتا ہے یہ بھی ایسے کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو انہیں اس کا مکمل ذمہ دار نہیں قرار دیا جاسکتا۔
______________________ 

مشرک والد اور چچا :

ابو الأنبياء حضرت ابراهيم ؑ کے والد آزر اور سید الأنبياء محمد عربی ﷺ کے عزیز چچا أبوطالب نے اپنے انتہائی اولوالعزم بیٹے اور بھتیجے پیغمبروں کی پیش کردہ دعوتِ توحید کو رد کردیا، اس میں ان مقدس ترین شخصیتوں کی دعوتی و اصلاحی کوششوں کی کمی، کوتاہی نہیں تھی، خود والد اور چچا نے اپنے اختیار سے ہدایت و ایمان سے دوری بنائی۔
______________________ 

بطورِ خلاصہ آخری بات :
مذکورہ بالا باتوں سے جو بیشتر کلامِ الٰہی سے مستفاد ہیں، بات صاف ہوگئی کہ معاشرہ کا اس طرح نیک لوگوں کو طعنہ دینا درست نہیں ہے، اس سے بچنا چاہیےـ بلکہ اس معنی میں زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت ہے کہ جب اہل دین کے قریبی لوگ بھی باوجود اصلاحی کوششوں، دعاؤں کے اس دنیا کے امتحان گاہ میں سیدھے راستے سے بھٹک سکتے ہیں، نفس و شیطان کے پھندے میں آسکتے ہیں تو عام لوگوں کے بچوں کے دین و ایمان کی حفاظت کیلئے کتنی زیادہ جدوجہد اور فکر درکار ہوگی! لیکن ہم بس بھر کوشش کے مکلف ہیں، کوشش کرتے رہیں اور ساتھ ہی نیک لوگوں کے حوالے سے اصلاحِ اولاد کے متعلق جو دعائیں قرآن کریم میں منقول ہیں ان کا اہتمام بھی کیا جائے، دعا بھی ایک تدبیر ہے، اور تمام تدابیر میں اسے بڑا دخل ہے، ماں باپ سب کرتے ہیں اور دعا سے غافل رہتے ہیں، حالانکہ سب سے زیادہ اسی کا اہتمام ہونا چاہیے۔ درج ذیل دو دعائیں ایسی ہیں کہ بعض بزرگانِ دین کا نفل نمازوں میں سلام سے پہلے پڑھنے کا معمول تھا، اور اس کے بڑے اثرات اولاد میں منتقل ہوتے ہوئے محسوس کئے گئے۔ ہم بھی اس کا خوب اہتمام کریں۔
اللہ پاک ہم سب کی اصلاح فرمائیں اور ایمان پر خاتمہ مقدر فرمائیں۔ آمین 

دو اہم ترین دعا مع ترجمہ پیش ہےـ 
1) رَبَّنَا هَبۡ لَـنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعۡيُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِيۡنَ اِمَامًا ۞ 
ترجمہ: ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا سربراہ بنا دے۔
(سورۃ الفرقان. آیت 74)  

تفسیر :
 باپ عام طور سے اپنے خاندان کا سربراہ ہوتا ہے۔ اس کو یہ دعا سکھائی جا رہی ہے کہ بحیثیت باپ اور شوہر کے مجھے اپنے بیوی بچوں کا سربراہ تو بننا ہے، لیکن میرے بیوی بچوں کو متقی پرہیزگار بنا دیجئے تاکہ میں پرہیزگاروں کا سربراہ بنوں جو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں، فاسق و فاجر لوگوں کا سربراہ نہ بنوں جو میرے لیے عذابِ جان بن جائیں۔ جو لوگ اپنے گھر والوں کے رویے سے پریشان رہتے ہیں، انہیں یہ دعا ضرور مانگتے رہنا چاہیے۔
______ 
2) رَبِّ اجۡعَلۡنِىۡ مُقِيۡمَ الصَّلٰوةِ وَمِنۡ ذُرِّيَّتِىۡ‌‌ ۖ رَبَّنَا وَتَقَبَّلۡ دُعَآءِ‏ ۞ 
ترجمہ: یا رب ! مجھے بھی نماز قائم کرنے والا بنا دیجیے اور میری اولاد میں سے بھی (ایسے لوگ پیدا فرمائیے جو نماز قائم کریں) اے ہمارے پروردگار ! اور میری دعا قبول فرمالیجیے
(سورۃ ابراهيم. آیت 40) 

یہی نماز بچوں کو فحاشی و بے حیائی سے روکے گی؛ جو ارتداد کا پہلا زینہ ہےـ اور تمام ناپسندیدہ اخلاق و عادات کو دور کرکے بہترین انسان و مثالی مسلمان بنائے گی۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے : 
 *وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ ‌ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنۡهٰى عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ‌ؕ* وَلَذِكۡرُ اللّٰهِ اَكۡبَرُ ‌ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ ۞ (سورۃ العنكبوت. آیت 45) 
ترجمہ: *اور نماز قائم کرو۔ بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔* اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سب کو جانتا ہے۔

تفسیر :
یعنی اگر انسان نماز کو نماز کی طرح پڑھے، اور اس کے مقصد پر دھیان دے تو وہ اسے بےحیائی اور ہر برے کام سے روکے گی، اس لئے کہ انسان نماز میں سب سے پہلے تکبیر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان اور اقرار کرتا ہے، جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے کسی بات کو وقعت نہیں دیتا، پھر ہر رکعت میں وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ یا اللہ ! میں آپ ہی کی بندگی کرتا ہوں، اور آپ ہی سے مدد مانگتا ہوں، لہذا جب اس کے بعد کسی گناہ کا خیال اس کے دل میں آئے تو اگر اس نے نماز دھیان سے پڑھی ہے تو اسے اپنا عہد یاد آنا چاہیے، جو یقیناً اسے گناہ سے روکے گا، نیز رکوع سجدے اور نماز کی ہر حرکت و سکون میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے زبان حال سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بناکر پیش کرتا ہے، اس لئے جو شخص نماز کو سوچ سمجھ کر اس طرح پڑھے جیسے پڑھنا چاہیے یقیناً اسے برائیوں سے روکے گی۔
..............................................................

تمت بالخیر

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے