✍ نعیم الرحمن ندوی
______________________________
آج 1/1/21 ..... نمازِ جمعہ میں جمعیۃ العلماء کی اصلاحِ معاشرہ میٹنگ کا اعلان پڑھا گیا جس میں شہر ہی نہیں ملک بھر کے مسلم سماج میں در آئے گمبھیر دینی و معاشرتی برائیوں کی طرف فکر دلائی گئی؛ خصوصاً نئی نسل کا ارتداد و اخلاقی زوال کی حدوں کو پار کرنا اور لاک ڈاؤن کے بعد قانونی بندشوں سے آزادی کے باوجود مساجد کا نمازیوں سے خالی خالی رہنا .... گویا لاک ڈاؤن کا منفی اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں میں نماز چھوڑنے کی عادت سی پڑگئی۔ مساجد اپنی ویرانی سے ___ مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے ___ کی منہ بولتی تصویریں بن گئیں۔
تمام ہی باتیں فکر انگیز ہیں، ان میں بھی بنیادی اور اہم ترین مسئلہ ہے نمازوں سے غفلت و لاپرواہی، بطورِ خاص نوجوان لڑکے نمازوں سے بیزار اور مسجدوں سے دوری بنائے ہوئے ہیں، یہی حال نوجوان لڑکیوں کا ہے کہ نہ دلوں میں نمازوں کی کوئی اہمیت ہے نہ گھروں میں اس کا کوئی اہتمام ____________ حالانکہ یہی نماز اُس فحاشی و بے حیائی سے روکتی ہے؛ جو ارتداد کا پہلا زینہ ہےـ اور تمام ناپسندیدہ اخلاق و عادات کو دور کرکے بہترین انسان و مثالی مسلمان بناتی ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے :
اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِىَ اِلَيۡكَ مِنَ الۡكِتٰبِ *وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنۡهٰى عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِؕ* وَلَذِكۡرُ اللّٰهِ اَكۡبَرُ ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ ۞
(سورۃ العنكبوت. آیت 45)
ترجمہ:
(اے پیغمبر) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے اس کی تلاوت کرو، *اور نماز قائم کرو۔ بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔* اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سب کو جانتا ہے۔
(یعنی اگر انسان نماز کو نماز کی طرح پڑھے، اور اس کے مقصد پر دھیان دے تو وہ اسے بےحیائی اور ہر برے کام سے روکے گی، اس لئے کہ انسان نماز میں سب سے پہلے تکبیر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان اور اقرار کرتا ہے، جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے کسی بات کو وقعت نہیں دیتا، پھر ہر رکعت میں وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ یا اللہ ! میں آپ ہی کی بندگی کرتا ہوں، اور آپ ہی سے مدد مانگتا ہوں، لہذا جب اس کے بعد کسی گناہ کا خیال اس کے دل میں آئے تو اگر اس نے نماز دھیان سے پڑھی ہے تو اسے اپنا عہد یاد آنا چاہیے، جو یقیناً اسے گناہ سے روکے گا، نیز رکوع سجدے اور نماز کی ہر حرکت و سکون میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے زبان حال سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بناکر پیش کرتا ہے، اس لئے جو شخص نماز کو سوچ سمجھ کر اس طرح پڑھے جیسے پڑھنا چاہیے یقیناً اسے برائیوں سے روکے گی۔
نوٹ : نماز میں پڑھی جانی والی تمام چیزوں کا ترجمہ ⬇
____________
نمازوں کی اہمیت مسلَّم ہے، نگاہوں اور سماعتوں سے گذرتی رہتی ہے۔ نمازوں کے ترک کردینے اور اس کو چھوڑ دینے کی عادت بنالینے کا انتہائی انجام کیا ہوگا؟ اس مضمون میں اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
______________________________
جہنمی کہیں گے؛ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے!
انسان کی اصل کامیابی و ناکامی مرنے کے بعد کی ہے، اور جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کردیا جانا ہی اصل کامیابی ہےـ موجودہ مہلتِ زندگی اس معنی میں بے حد قیمتی بن جاتی ہے کہ اسی حیاتِ مستعار کو ہمارے لیے کامیابی کے حصول کا وقت اور اس کا پہلا و آخری موقع بنایا گیا ہےـ اس زندگی کو درست استعمال کرنے والا دائمی کامیاب اور ضائع کرنے والا دائمی ناکام ہوگا۔
اللہ پاک نے انجام کے طور پر دو ہی ٹھکانے بنائے ہیں، کامیابی کی منزل جنت اور ناکامی کا انجام جہنم ہےـ
اصل کامیابی پانے والے اصحاب الیمین اور ناکام لوگ اصحاب السقر ہیں۔ اصحاب الجنۃ؛ جنت میں رہتے ہوئے اہلِ سقر کو دیکھیں گے اور کلام کریں گےـ کئی مقامات پر قرآن مجید میں یہ بات گزر چکی ہے کہ اہل جنت اور اہل دوزخ ایک دوسرے سے ہزاروں لاکھوں میل دور ہونے کے باوجود جب چاہیں گے ایک دوسرے کو کسی آلے کی مدد کے بغیر دیکھ سکیں گے اور ایک دوسرے سے براہ راست گفتگو کرسکیں گے۔ آج اس کی چھوٹی سی نظیر ومثال ویڈیو کالنگ سامنے آگئی ہےـ
اللہ پاک نے محض اپنی رحمت سے انکے مکالمہ کا وہ اہم ترین حصہ جو اس دنیا میں ہم انسانوں کے لیے انتہائی مفید و مؤثر ہے اسے قرآن پاک میں ذکر فرما دیا؛ وہ حصہ کلام یہ ہے کہ جنتی دوزخیوں سے پوچھیں گے کہ تمہیں سقر (انتہائی بھڑکتی ہوئی غضبناک آگ) میں کس عمل کے سبب ڈالا گیا؟ اس پر انکا جو جواب مذکور ہے اپنی زندگی اور معاشرے کی صورت حال کو سامنے رکھ کر اس کا ایک مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
كُلُّ نَفۡسٍ ۢ بِمَا كَسَبَتۡ رَهِيۡنَةٌ ۞ اِلَّاۤ اَصۡحٰبَ الۡيَمِيۡنِۛ ۞ فِىۡ جَنّٰتٍ ۛ يَتَسَآءَلُوۡنَۙ ۞ عَنِ الۡمُجۡرِمِيۡنَۙ ۞ مَا سَلَـكَكُمۡ فِىۡ سَقَرَ ۞ قَالُوۡا لَمۡ نَكُ مِنَ الۡمُصَلِّيۡنَۙ ۞ وَلَمۡ نَكُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡكِيۡنَۙ ۞ وَكُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الۡخَـآئِضِيۡنَۙ ۞ وَ كُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوۡمِ الدِّيۡنِۙ ۞ حَتّٰٓى اَتٰٮنَا الۡيَقِيۡنُؕ ۞ فَمَا تَنۡفَعُهُمۡ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيۡنَؕ ۞
(سورۃ المدثر. آیت 38-48)
ترجمہ:
ہر شخص اپنے کرتوت کی وجہ سے گروی رکھا ہوا ہے۔ ۞ سوائے دائیں ہاتھ والوں کے ۞ کہ وہ جنتوں میں ہوں گے۔ وہ پوچھ رہے ہوں گے۔ ۞ مجرموں کے بارے میں۔ ۞ کہ : تمہیں کس چیز نے دوزخ میں داخل کرادیا ؟ ۞ *وہ کہیں گے کہ : ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے۔* ۞ اور ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ ۞ اور جو لوگ بےہودہ باتوں میں پڑتے ، ہم بھی ان کے ساتھ پڑ جایا کرتے تھے۔ ۞ اور ہم روز جزاء کو جھوٹ قرار دیتے تھے۔ ۞ یہاں تک کہ وہ یقینی بات ہمارے پاس آہی گئی۔ ۞ چنانچہ سفارش کرنے والوں کی سفارش ایسے لوگوں کے کام نہیں آئے گی۔ ۞
______________________________
اس مکالمہ کی روشنی میں اخذکردہ باتیں
اصحاب الیمین:
اس دن نجات و فلاح صرف اصحاب الیمین کو حاصل ہو گی۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے آخرت کو پیش نظر رکھ کر زندگی گزاری اور جن کے اعمال نامے ان کے داہنے (سیدھے) ہاتھ میں دیئے جائیں گے۔ فرمایا کہ یہ لوگ بے شک نہ صرف اپنی نیکیوں کا پورا پورا صلہ پائیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضلِ خاص سے بھی ان کو نوازے گا۔ یہ لوگ بہشت کے باغوں میں ہوں گے اور وہاں آپس میں ان مجرموں کے انجام سے متعلق سوال و جواب کر رہے ہوں گے جن سے دنیا میں ان کو سابقہ رہا۔
............................................
اہل جنت کا سوال :
مجرموں سے پوچھیں گے کہ : تمہیں کس چیز نے دوزخ میں داخل کرادیا؟
............................................
اہل دوزخ کا اعتراف:
اہل دوزخ ان کے جواب میں اعتراف کر لیں گے کہ ہمارے اعمال ہی ہمیں یہاں لانے والے بنے ہیں۔ قصور سارا ہمارا اپنا ہی ہے، کسی دوسرے کا نہیں ہے۔
سب سے پہلے وہ اس جرم کا اعتراف کریں گے کہ
١) ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے۔
اس کے بعد وہ اپنے عدمِ انفاق کا اعتراف کریں گے کہ
٢) ہم مسکینوں کو کھلانے کے روادار نہ تھے۔
اس کے بعد وہ اس امر کا اعتراف کریں گے کہ
٣) قیامت اور جزا و سزا کے باب میں جس طرح کی نکتہ چینیاں دوسرے کرتے تھے اسی طرح انہوں نے بھی کیں۔ انہی موشگافیوں کی آڑ لے کر انھوں نے جزا و سزا کے دن کو جھٹلایا یہاں تک کہ موت آ گئی اور اس نے ان تمام چیزوں کا یقین دلا دیا جن کے بارے میں وہ شکوک پیدا کرتے رہے تھے۔
______________________________
معلوم ہوا کہ وہ باتیں جن کی وجہ سے انہیں ہولناک آگ میں ڈالا گیا وہ ہیں؛ 1) نماز کا چھوڑنا۔ 2) بھوکوں کو کھانا نہ کھلانا۔ 3) بے فائدہ کاموں اور دین میں شک، شبہ پیدا کرنے والی باتوں میں پڑنا۔ 4) توبہ نہ کرتے ہوئے گناہ پر موت تک آڑے رہنا۔ ____________ 5) سزا ایسی اٹل ہوگی کہ انکو کسی کی سفارش و شفاعت بھی نفع نہیں دے گی۔
____________
ان کاموں کی کیا اہمیت ہے مختصراً دیکھئے!
١) نماز: ______ دین کے عقائد میں جس طرح توحید کو سب پر فوقیت حاصل ہے اسی طرح اعمال میں نماز کو سب پر فوقیت حاصل ہے۔ ہر نبی نے سب سے پہلے اسی عمل کی دعوت دی ہے اور اسی کے اہتمام اور اسی کے ترک پر دین کو منحصر بتایا ہے۔ نماز خدا کا وہ اولین حق ہے جو ایک خدا پرست انسان پر عائد ہوتا ہےـ نمازیوں میں سے نہ ہونے کو دوزخ میں جانے کا سبب قرار دے کر یہ بات واضح کردی گئی کہ ایمان لا کر بھی آدمی دوزخ سے نہیں بچ سکتا اگر وہ نماز کا چھوڑنے والا ہو۔
٢) بنیادی انسانی ضرورت پوری کرنا: ______ اعمال میں نماز کے بعد دوسرا درجہ اللہ کیلئے خرچ کا ہے اور انہی دونوں پر تمام اعمال صالحہ کی عمارت قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز بندے کا تعلق خالق سے درست کرتی ہے اور صدقات و زکوٰۃ (انفاق) اس کو مخلوق سے جوڑتے ہیں اور انہی دو کی درستگی پر آدمی کے دین کی درستگی کا انحصار ہے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی انسان کو بھوک میں مبتلا دیکھنا اور قدرت رکھنے کے باوجود اس کو کھانا نہ کھلانا اسلام کی نگاہ میں کتنا بڑا گناہ ہے کہ آدمی کے دوزخی ہونے کے اسباب میں خاص طور پر اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
٣) بے فائدہ باتوں میں انہماک: ______ ’خوض فی الحدیث‘ کے معنی ہیں کسی بات میں مین میخ نکالتے نکالتے کہیں سے کہیں جا نکلنا اور اس کو فتنہ اور حق سے انحراف کے لیے بہانہ بنا لینا۔ انسان جب بے فائدہ باتوں میں پڑتا ہے تو کرنے کے مفید کاموں سے دور ہوجاتا ہے اور گمراہیوں کا شکار ہوکر دین و ایمان میں شک کرنے لگتا ہےـ
٤) موت تک غافل رہنا: ______ یقین کے اصل معنی تو یقین ہی کے ہیں لیکن چونکہ موت کے بعد تمام مابعد الموت حقائق آدمی پر روشن ہو جاتے ہیں اور وہ ان کے یقین پر مجبور ہو جاتا ہے اس وجہ سے موت کو بھی یقین سے تعبیر کرتے ہیں۔
انسان اگر دنیا کی رنگینیوں سے دھوکہ کھائے، واقعات و حوادث سے نصیحت نہ پکڑے تو اس کا انجام ایسا ہی ہوگا اور آخرت میں اللہ پاک کی طرف سے کہا جائے گا :
وَهُمۡ يَصۡطَرِخُوۡنَ فِيۡهَا ۚ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا نَـعۡمَلۡ صَالِحًـا غَيۡرَ الَّذِىۡ كُـنَّا نَـعۡمَلُؕ اَوَلَمۡ نُعَمِّرۡكُمۡ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيۡهِ مَنۡ تَذَكَّرَ وَجَآءَكُمُ النَّذِيۡرُؕ فَذُوۡقُوۡا فَمَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ نَّصِيۡرٍ ۞
ترجمہ:
اور وہ اس دوزخ میں چیخ و پکار مچائیں گے کہ : اے ہمارے پروردگار! ہمیں باہر نکال دے تاکہ ہم جو کام پہلے کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ کر نیک عمل کریں۔ (ان سے جواب میں کہا جائے گا کہ) بھلا کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کسی کو اس میں سوچنا سمجھنا ہوتا، وہ سمجھ لیتا؟ اور تمہارے پاس خبردار کرنے والا بھی آیا تھا۔ اب مزا چکھو، کیونکہ کوئی نہیں ہے جو ایسے ظالموں کا مددگار بنے۔
(سورۃ فاطر. آیت 37)
٥) انکے بارے میں شفاعت بھی مقبول نہیں ہوگی۔
............................................
ہمارا رویہ اور دینی تقاضا : ____
ان اعمال کے تئیں ہم اپنا سلوک و رویہ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور دینی تقاضہ کیا ہے؟
اہتمامِ نماز اور اپنی اصلاح کی فکر : ____
دین کے تمام امورِ عبادت میں عظیم الشان عبادت نماز ہے اور اخلاق و کردار کو بنانے والی چیز بھی یہی ہےـ قرآن کہتا ہے؛
"اِنَّ الصّلوۃَ تَنہیٰ عَنِ الفَحشَاءِ وَالمُنکَر۔
بے شک نماز بُرے اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔ (عنکبوت: 45)
اس سے ہدایت ملتی ہے کہ ہم مکمل دیندار بنیں اور اپنی اصلاح کی شروعات نمازوں کے اہتمام سے کریں۔
خدمت خلق: ____
بلاتفریق مذہب و ملت محض انسانی بنیادوں پر بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنا جیسے بھوکوں کو کھلانا، پلانا وغیرہ یہ کام ملک بھر میں کرنا ہمارا دینی فریضہ اور وقت کا ضروری تقاضا ہےـ اس چیز کو ملکی سطح پر انجام دینے کی بنیاد مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ نے رکھی جو آج ایک تحریک بن کر ملک بھر میں "آل انڈیا پیام انسانیت فورم" کے نام سے خدمات انجام دے رہی ہے ہمیں ہر شہر میں اس سے جڑ کر اس ضرورت کو مستقل مزاجی سے انجام دینے کی کوشش کرنا چاہیے۔
____________
اللہ پاک ہمیں خشوع و خضوع کے ساتھ نمازوں کا خوب اہتمام عطا فرمائے، ظاہری و باطنی اصلاح کی فکر دے اور حکمت و موعظةِ حسنۃ کے ساتھ اپنے فرض منصبی کو پورا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین
_________________________________
جمعیۃ کا اعلان
0 تبصرے