درس قرآن [25]... سورہ کہف اور فتنہ دجال



#درس قرآن [25]
سورہ کہف اور فتنہ دجال
سورۃ الكهف. آیت 23-24

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَا تَقُوۡلَنَّ لِشَاىۡءٍ اِنِّىۡ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا ۞ اِلَّاۤ اَنۡ يَّشَآءَ اللّٰهُ‌ ۚ وَاذۡكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيۡتَ وَقُلۡ عَسٰٓى اَنۡ يَّهۡدِيَنِ رَبِّىۡ لِاَقۡرَبَ مِنۡ هٰذَا رَشَدًا‏ ۞
ترجمہ:
اور (اے پیغمبر) کسی بھی کام کے بارے میں کبھی یہ نہ کہو کہ میں یہ کام کل کرلوں گا۔ ۞ ہاں (یہ کہو کہ) اللہ چاہے گا تو (کرلوں گا) اور جب کبھی بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرلو، اور کہو : مجھے امید ہے کہ میرا رب کسی ایسی بات کی طرف رہنمائی کردے جو ہدایت میں اس سے بھی زیادہ قریب ہو۔ ۞

............... تفسیر ...............

جب آنحضرت ﷺ سے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں سوال کیا گیا تھا، اس وقت آپ ﷺ نے سوال کرنے والوں سے ایک طرح کا وعدہ کرلیا تھا کہ میں اس سوال کا جواب کل دوں گا، اس وقت آپ ﷺ انشاء اللہ کہنا بھول گئے تھے اور آپ ﷺ کو یہ امید تھی کہ کل تک وحی کے ذریعے آپ کو ان واقعات سے باخبر کردیا جائے گا، اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ مستقل ہدایت عطا فرمائی کہ کسی بھی مسلمان کو آئندہ کے بارے میں کوئی بات انشاء اللہ کہے بغیر نہیں کہنی چاہیے، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں چونکہ آپ ﷺ نے انشاء اللہ نہیں فرمایا تھا اس لئے اگلے روز وحی نہیں آئی ؛ بلکہ کئی روز کے بعد وحی آئی اور اس میں یہ ہدایت بھی دی گئی۔
اگرچہ اصحاب کہف کا واقعہ سوال کرنے والوں نے آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیل کے طور پر پوچھا تھا، دوسری آیت میں فرمایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نبوت کے اور بھی دلائل عطا فرمائے ہیں جو اصحاب کہف کا واقعہ سنانے سے زیادہ واضح ہیں۔
______
توحیدی معاشرت :
اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر یہ خصوصی فضل ہے کہ انہیں اپنی معاشرتی زندگی میں روز مرہ کے معمولات کے لیے ایسے کلمات سکھائے گئے جن میں توحید کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آپ نے کوئی خوبصورت چیز دیکھی جس سے آپ کا دل خوش ہوا آپ نے کہا : سبحان اللّٰہ! گویا آپ نے اقرار کیا کہ یہ اس چیز کا کمال نہیں اور نہ ہی یہ چیز بذات خود لائق تعریف ہے بلکہ تعریف تو اللہ کی ہے جس نے یہ خوبصورت چیز بنائی۔ آپ کی کوئی تکلیف دور ہوئی تو منہ سے نکلا : الحَمد للّٰہ! یعنی جو بھی مشکل آسان ہوئی اللہ کی مدد، اس کی مہربانی اور اس کے حکم سے ہوئی لہٰذا شکر بھی اسی کا ادا کیا جائے گا۔ آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے اہل و عیال کو خوش و خرم پایا آپ نے کہا : مَاشَاء اللّٰہ! کہ اس میں میرا یا کسی اور کا کوئی کمال نہیں یہ سب اللہ کی مرضی اور مشیت سے ہے۔ اسی طرح مستقبل میں کسی کام کے کرنے کے بارے میں اظہار کیا تو ساتھ ان شاء اللّٰہ کہا۔ یعنی میرا ارادہ تو یوں ہے مگر صرف میرے ارادے سے کیا ہوتا ہے حقیقت میں یہ کام تبھی ہوگا اور میں اسے تبھی کر پاؤں گا جب اللہ کو منظور ہوگا کیونکہ اللہ کی مشیت اور مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ گویا ان کلمات کے ذریعے قدم قدم پر اور بات بات میں ہمیں توحید کا سبق یاد دلایا جاتا ہے۔ اللہ کے علم اس کے حکم اس کے اختیار و اقتدار اس کی قدرت اس کی مشیت کے مطلق اور فائق ہونے کے اقرار کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کلمات اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ‘ اِنْ شَاء اللّٰہ ‘ مَاشَاء اللّٰہ اس سورت میں موجود ہیں۔
______
تفویضِ امور :
کسی بھی کام کے لیے کوشش کرتے ہوئے انسان کو ”تفویض الامر الی اللہ“ کی کیفیت میں رہنا چاہیے کہ اگر اللہ کو منظور ہوا تو میں اس کوشش میں کامیاب ہوجاؤں گا ورنہ ہوسکتا ہے میرا رب میرے لیے اس سے بھی بہتر کسی کام کے لیے اسباب پیدا فرما دے۔ گویا انسان اپنے تمام معاملات ہر وقت اللہ تعالیٰ کے سپرد کیے رکھے :
   سپردم بتو مایۂ خویش را 
        تو دانی حساب کم وبیش را !

______________________ 

جمادی الاخری 15 , 1442 بروز جمعہ
جنوری 29 , 2021 
➖➖➖➖➖  
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت 
 جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری............................................*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے