#سلسلہ درس حدیث [1]
از اربعین امام نووی ؒ
عن عمر بن الخطاب : إنَّما الأعمالُ بالنِّيّاتِ وإنَّما لِكلِّ امرئٍ ما نوى فمن كانت هجرتُهُ إلى اللَّهِ ورسولِهِ فَهجرتُهُ إلى اللَّهِ ورسولِهِ ومن كانت هجرتُهُ إلى دنيا يصيبُها أو امرأةٍ ينْكحُها فَهجرتُهُ إلى ما هاجرَ إليْهِ. (متفق علیہ)
ترجمہ :
امیر المومنین عمر بن خطاب ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ : اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے، اور ہرشخص کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی، چنانچہ جس شخص کی ہجرت (بہ اعتبار نیت) اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے تو اس کی ہجرت (بہ اعتبار انجام بھی) اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہے، اور جس کی ہجرت (بہ اعتبار نیت) دنیا حاصل کرنے کے لئے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہے تو اس کی ہجرت (بہ اعتبار انجام) اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہےـ
______ تشریح ______
اس حدیث کے شان ورود کے طور پر ایک واقعہ ہے کہ مکہ مکرمہ کے ایک صحابی ؓ نے مدینہ منورہ کی ایک خاتون کو نکاح کا پیغام دیا، لیکن اس خاتون نے نکاح کے لئے شرط رکھی کہ آپ مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائیں گے تو ہی وہ نکاح کرے گی، چنانچہ انہوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا سفر کیا اور ہجرت کے فورا بعد نکاح کرلیا، اس خاتون کا نام اُمِّ قیس تھا، اور بظاہر انہوں نے اس خاتون سے نکاح کیلئے ہجرت کی تھی اس لئے مہاجر اُمِّ قیس کے لقب سے وہ صحابی مشہور ہوگئے۔
نیت کا اصل مقام دل ہے زبان نہیں ، اور اللہ عزوجل کو دلوں کا حال خوب معلوم ہے، لہذا نیت کو زبان سے کہنا ضروری نہیں ہے۔
ہجرت کی دو قسمیں کہی جاسکتی ہیں۔
1) ہجرت مکانی : اگر کوئی شخص کسی ملک میں اپنے دینی شعائر آزادانہ طور پر ادا نہ کرسکتا ہو تو اس کو چھوڑ کر ایسے ملک چلا جائے جہاں اسے اس کی آزادی حاصل ہو۔
2) ہجرت عملی : یہ ہے کہ آدمی الله کی منع کی ہوئی چیزوں کو چھوڑدے۔
______________________
عالمِ ظاہر بنسبت عالمِ آخرت
اس دنیا میں صرف ظاہر پر تمام فیصلے کئے جاتے ہیں اور آخرت میں نیتوں پر کئے جائیں گے۔ یہ عالم جس میں ہم ہیں "عالمِ ظاہر" ہے اور ہمارے حواس و ادراکات کا دائرہ بھی یہاں صرف ظاہر اور مظاہر ہی تک محدود ہے، یعنی یہاں ہم ہر شخص کا صرف ظاہری چال چلن دیکھ کر ہی اس کے متعلق اچھی یا بُری رائے قائم کر سکتے ہیں، اور اسی کی بنیاد پر اس کے ساتھ معاملہ کر سکتے ہیں، ظاہری اعمال پر سے ان کی نیتوں، دل کے بھیدوں اور سینوں کے رازوں کے دریافت کرنے سے ہم قاصر ہیں اسی لیے حضرت فاروق اعظمؓ نے فرمایا: نَحْنُ نَحْكُمُ بِالظَّاهِرِ وَاللهُ يَتَوَلَّى السَّرَائِر (یعنی ہمارا کام ظاہر پر حکم لگانا ہے اور مخفی راز اللہ کے سپرد ہیں) لیکن عالمِ آخرت میں فیصلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہوگا اور وہاں اس کافیصلہ نیتوں اور دل کے ارادوں کے لحاظ سے ہو گا، گویا احکام کے بارے میں جس طرح یہاں ظاہری اعمال اصل ہیں اور کسی کی نیت پر یہاں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا، اسی طرح وہاں معاملہ اس کے برعکس ہوگا، اور حق تعالیٰ کا فیصلہ نیتوں پر ہوگا، اور ظاہری اعمال کو ان کے تابع رکھا جائے گا۔
حدیث کی خصوصی اہمیت
یہ حدیث "جوامع الکلم" میں سے ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کے اُن مختصر، مگر جامع اور وسیع المعنی ارشادات میں سے ہے جو مختصر ہونے کے باوجود دین کے کسی بڑے اہم حصہ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اور "دریا بکوزہ" کے مصداق ہیں۔ بعض ائمہ نے کہا ہے کہ"اسلام" کا ایک تہائی حصہ اس حدیث میں آگیا ہے اس لئے کہ اصولی طور پر اسلام کے تین شعبے ہیں۔ 1) ایمان (یعنی عقائد) 2) اعمال اور 3) اخلاص، چوں کہ یہ حدیث اخلاص کے پورے شعبہ پر حاوی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسلام کا ایک تہائی حصہ اس میں آ گیا۔۔۔ اور پھر اخلاص وہ چیز ہے جس کی ضرورت ہر کام میں اور ہر قدم پر ہے، خاص کر جب بندہ کوئی اچھا سلسلہ شروع کرے خواہ وہ علمی ہو یا عملی تو وہ اس کا حاجت مند ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اس کے سامنے ہو، اس لئے بعض اکابر نے اپنی مؤلفات کو اسی حدیث سے شروع کرنا بہتر سمجھا ہے چناں چہ امام بخاری نے اپنی "جامع صحیح" کو اور ان کے بعد امام بغوی نے "مصابیح" کو اسی حدیث سے شروع کیا ہے، گویا اسی کو "فاتحۃ الکتاب" بنایا ہے اور حافظ الحدیث ابن مہدی سے منقول ہے کہ جو شخص کوئی دینی کتاب تصنیف کرے اچھا ہو کہ وہ اسی حدیث سے اپنی کتاب کا آغاز کرے (آگے فرمایا) اور اگر میں کوئی کتاب لکھوں تو اس کے ہر باب کو اسی حدیث پاک سے شروع کروں۔
______________________
سلسلۂ درسِ حدیث کا آغاز
الحمدللہ قارئینِ درسِ قرآن کی خواہش کے اظہار اور ضرورت کے احساس پر جامعہ ابوالحسن (دیانہ، مالیگاؤں) سے ہفتہ واری درسِ قرآن کی طرح درسِ حدیث کا سلسلہ بھی اسی حدیثِ مبارکہ سے شروع کیا جارہا ہےـ اللہ پاک حُسنِ نیت کے ساتھ اس سلسلے کو جاری و ساری رکھے۔ آمین یاربّ العٰلمین
➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری............................................*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
0 تبصرے