ازدواجی زندگی میں جذبۂ رحمت و مودت حکمتِ خداوندی کی زبردست نشانی



عام طور پر نکاح سے پہلے میاں بیوی الگ الگ ماحول میں پرورش پاتے ہیں، لیکن نکاح کے بعد ان میں ایسا گہرا رشتہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے پچھلے طرزِ زندگی کو خیر باد کہہ کر ایک دوسرے کے ہو رہتے ہیں، ان کے درمیان یک بیک وہ محبت پیدا ہوجاتی ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا ان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے، جوانی میں ان کے درمیان محبت کا جوش ہوتا ہے اور بڑھاپے میں اس پر رحمت اور ہمدردی کا اضافہ ہوجاتا ہے۔

اللہ پاک کا ارشاد ہے:
وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكُمۡ مَّوَدَّةً وَّرَحۡمَةً  ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ ۞ 
ترجمہ:
اور اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کے جذبات رکھ دیے،  یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔
(سورۃ الروم. آیت 21) 
_____________________________ 

اللہ پاک کی نشانیاں کیا ہیں؟ :

درج بالا آیت میں فرمایا کہ ____________ جو لوگ غور کرنے والے ہیں ان کے لئے اس کے اندر گوناگوں نشانیاں ہیں۔ آئیے بنظرِ تدبر ان نشانیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

١) اس کے اندر ایک واضح نشانی تو اس بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ہر چیز جوڑا جوڑا پیدا کی ہے اور ہر چیز اپنے مقصدِ وجود کی تکمیل اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر کرتی ہے۔ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اس دنیا کا بھی ایک جوڑا ہے جس کو آخرت کہتے ہیں۔ اسی آخرت سے اس دنیا کی غایت کی تکمیل ہوتی ہے۔ 

٢) دوسری نشانی اس کے اندر یہ ہے کہ ہمارا خالق نہایت مہربان اور محبت کرنے والا ہے۔ اس نے ہمارے اندر جوڑے کی طلب دی تو ہماری جنس سے ہمارا جوڑا بھی اس نے پیدا کیا اور پھر دونوں کے اندر محبت و ہمدری کے جذبات بھی ودیعت فرمائے تاکہ دونوں دو قالب یک جان ہو کر زندگی بسر کریں۔ 

٣) تیسری نشانی اس کے اندر یہ ہے کہ اس کائنات کے اضداد کے اندر نہایت گہرا توافق اور ایک بالاتر مقصد کے لئے نہایت عمیق سازگاری پائی جاتی ہے جو اس بات کی نہایت واضح دلیل ہے کہ اس کا خالق ومالک ایک ہی ہے جو اپنی حکمت کے تحت اس کائنات کے اضداد میں موافقت پیدا کرتا ہے۔ 

٤) چوتھی نشانی اس کے اندر یہ ہے کہ ان لوگوں کا خیال بالکل احمقانہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ اس کائنات کا ارتقاء آپ سے آپ ہوا ہے۔ اگر اس کا ارتقاء آپ سے آپ ہوا ہے تو اس کے اضداد میں یہ حیرت انگیز توافق کہاں سے پیدا ہوا؟ یہ تو اس بات کی صاف شہادت ہے کہ ایک قادر و حکیم ہستی ہے جو اس پورے نظام کو اپنی حکمت کے تحت چلا رہی ہے۔
___________ 

بڑھاپے میں جذبات میں تبدیلی :

محبت سے مراد آیت میں جنسی محبت (Sexual Love) بھی لی جاسکتی ہے جو مرد اور عورت کے اندر جذب و کشش کی ابتدائی محرک بنتی ہے اور پھر انہیں ایک دوسرے سے چسپاں کیے رکھتی ہے۔ اور رحمت سے مراد وہ روحانی تعلق ہے جو ازدواجی زندگی میں بتدریج ابھرتا ہے، جس کی بدولت وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ، ہمدرد و غم خوار اور شریک رنج و راحت بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب جنسی محبت پیچھے جا پڑتی ہے اور بڑھاپے میں یہ جیون ساتھی جوانی سے بھی کچھ زیادہ بڑھ کر ایک دوسرے کے حق میں رحیم و شفیق ثابت ہوتے ہیں۔ 

یہ دو مثبت طاقتیں ہیں جو خالق نے اس ابتدائی اضطراب کی مدد کے لیے انسان کے اندر پیدا کی ہیں جس کا ذکر اوپر گزرا ہے۔ وہ اضطراب تو صرف سکون چاہتا ہے اور اس کی تلاش میں مرد و عورت کو ایک دوسرے کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ دو طاقتیں آگے بڑھ کر ان کے درمیان مستقل رفاقت کا ایسا رشتہ جوڑ دیتی ہیں جو دو الگ ماحولوں میں پرورش پائے ہوئے اجنبیوں کو ملا کر کچھ اس طرح پیوستہ کرتا ہے کہ عمر بھر وہ زندگی کے منجدھار میں اپنی کشتی ایک ساتھ کھینچتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ محبت و رحمت جس کا تجربہ کروڑوں انسانوں کو اپنی زندگی میں ہو رہا ہے، کوئی مادی چیز نہیں ہے جو وزن اور پیمائش میں آسکے، نہ انسانی جسم کے عناصر ترکیبی میں کہیں اس کے سرچشمے کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، نہ کسی لیبارٹری میں اس کی پیدائش اور اس کے نشو و نما کے اسباب کا کھوج لگایا جاسکتا ہے۔ اس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکتی کہ ایک خالق حکیم نے بالارادہ ایک مقصد کے لیے پوری مناسبت کے ساتھ اسے نفس انسانی میں ودیعت کردیا ہے۔

خالق کا کمالِ حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صنف نہیں بنائی بلکہ اسے دو صنفوں (Sexes) کی شکل میں پیدا کیا جو انسانیت میں یکساں ہیں، جن کی بناوٹ کا بنیادی فارمولا بھی یکساں ہے، مگر دونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت، مختلف ذہنی و نفسی اوصاف اور مختلف جذبات و داعیات لے کر پیدا ہوتی ہیں۔ اور پھر ان کے درمیان یہ حیرت انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہے، ہر ایک کا جسم اور اس کے نفسیات و داعیات دوسرے کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کا مکمل جواب ہیں۔ مزید برآں وہ خالق حکیم ان دونوں صنفوں کے افراد کو آغازِ آفرینش سے برابر اس تناسب کے ساتھ پید کیے چلا جارہا ہے کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنیا کی کسی قوم یا کسی خطۂ زمین میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوئے ہوں، یا کہیں کسی قوم میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی چلی گئی ہوں۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں کسی انسانی تدبیر کا قطعا کوئی دخل نہیں ہے۔ انسان ذرہ برابر بھی نہ اس معاملہ میں اثر انداز ہوسکتا ہے کہ لڑکیاں مسلسل ایسی زنانہ خصوصیات اور لڑکے مسلسل ایسی مردانہ خصوصیات لیے ہوئے پیدا ہوتے رہیں جو ایک دوسرے کا ٹھیک جوڑ ہوں، اور نہ اس معاملہ ہی میں اس کے اثر انداز ہونے کا کوئی ذریعہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کی پیدائش اس طرح مسلسل ایک تناسب کے ساتھ ہوتی چلی جائے۔ ہزارہا سال سے کروڑوں اور اربوں انسانوں کی پیدائش میں اس تدبیر و انتظام کا اتنے متناسب طریقے سے پیہم جاری رہنا اتفاقا بھی نہیں ہوسکتا اور یہ بہت سے خداؤں کی مشترک تدبیر کا نتیجہ بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ چیز صریحاً اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ ایک ہی خالق حکیم نے اپنی غالب حکمت وقدرت سے ابتداءاً مرد اور عورت کا ایک موزوں ترین ڈیزائن بنایا، پھر اس بات کا انتظام کیا کہ اس ڈیزائن کے مطابق بےحد و حساب مرد اور بےحد و حساب عورتیں اپنی الگ الگ انفرادی خصوصیات لیے ہوئے دنیا بھر میں ایک تناسب کے ساتھ پیدا ہوں۔
____________ 

یہ محبت و رحمت فقط نکاح سے : 

 مَوَدَّۃ یہ ہے کہ مرد بیوی سے بےپناہ پیار کرتا ہے اور ایسے ہی بیوی شوہر سے۔ جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔ ایسی محبت جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔
 اور رحمت یہ ہے کہ مرد بیوی کو ہر طرح کی سہولت اور آسائش بہم پہنچاتا ہے، جس کا مکلف اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور ایسے ہی عورت بھی اپنے قدرت و اختیار کے دائرہ میں۔

تاہم انسان کو یہ سکون اور باہمی پیار انہی جوڑوں سے حاصل ہوتا ہے جو قانونِ شریعت کے مطابق باہم نکاح سے قائم ہوتے ہیں اور اسلام انہی کو جوڑا قرار دیتا ہے۔ غیر قانونی جوڑوں کو وہ جوڑا ہی تسلیم نہیں کرتا بلکہ انھیں زانی اور بدکار قرار دیتا ہے اور ان کے لئے سزا تجویز کرتا ہے۔ آج کل مغربی تہذیب کے علم بردار شیاطین ان مذموم کوششوں میں مصروف ہیں کہ مغربی معاشروں کی طرح اسلامی معاشروں میں بھی نکاح کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے بدکار مرد و عورت کو جوڑا تسلیم کروایا جائے اور ان کے لیے سزا کے بجائے وہ حقوق منوائے جائیں جو ایک قانونی جوڑے کو حاصل ہوتے ہیں۔
 
پیشکش: نعیم الرحمن ندوی

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے