(سورۃ الكهف. آیت 17)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَتَرَى الشَّمۡسَ اِذَا طَلَعَتۡ تَّزٰوَرُ عَنۡ كَهۡفِهِمۡ ذَاتَ الۡيَمِيۡنِ وَاِذَا غَرَبَتۡ تَّقۡرِضُهُمۡ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمۡ فِىۡ فَجۡوَةٍ مِّنۡهُ ؕ ذٰ لِكَ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ ؕ مَنۡ يَّهۡدِ اللّٰهُ فَهُوَ الۡمُهۡتَدِ ۚ وَمَنۡ يُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَهٗ وَلِيًّا مُّرۡشِدًا ۞
ترجمہ:
اور (وہ غار ایسا تھا کہ) تم سورج کو نکلتے وقت دیکھتے تو وہ ان کے غار سے دائیں طرف ہٹ کر نکل جاتا، اور جب غروب ہوتا تو ان سے بائیں طرف کترا کر چلا جاتا، اور وہ اس غار کے ایک کشادہ حصے میں (سوئے ہوئے) تھے۔ یہ سب کچھ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ جسے اللہ ہدایت دیدے، وہی ہدایت پاتا ہے، اور جسے وہ گمراہ کردے اس کا تمہیں ہرگز کوئی مددگار نہیں مل سکتا جو اسے راستے پر لائے۔
............................................
لغوی تشریح
"تَّزٰوَرُ" اصل میں "تتزاور" ہے۔ اس کے معنی ہٹ جانے، کترا جانے اور منحرف ہوجانے کے ہیں۔ "تَّقۡرِضُهُمۡ" قرض کے معنی کاٹنے اور کترانے کے ہیں۔ اسی سے " قرض المکان " کا محاورہ پیدا ہوا جس کے معنی ہیں اس جگہ سے ہٹ گیا، کترا گیا، گریز کر گیا۔ "فَجۡوَةٍ" دو چیزوں کے درمیان خلاء شگاف اور گوشہ کو کہتے ہیں یہیں سے اس کا اطلاق مکان کے صحن پر بھی ہوتا ہے۔
____________
غار میں ضروریات زندگی کا غیبی اہتمام :
اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے غار میں جن ضروریات و مرافق کے مہیا فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے اب یہ ان کا بیان ہو رہا ہے کہ اگر تم دیکھ پاتے تو دیکھتے کہ سورج جب طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں کو بچتا ہوا طلوع ہوتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان سے بائیں کو کتراتا ہوا ڈوبتا ہے اور وہ اس غار کے صحن میں آرام کر رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غار کا دہانہ اس طرح واقع ہوا تھا کہ اس کے اندر ہوا، روشنی اور حرارت، جو زندگی کی ضروریات میں سے ہیں۔ بآسانی پہنچتی تھیں۔ لیکن آفتاب کی تمازت اس کے اندر راہ نہیں پاتی تھی۔
ذات الشمال؛ جانبِ شمال :
وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَات الشِّمَالِ
یعنی اس غار کا منہ شمال کی طرف تھا جس کی وجہ سے سورج کی براہ راست روشنی یا دھوپ اس میں دن کے کسی وقت بھی نہیں پڑتی تھی۔ ہمارے ہاں بھی دھوپ اور سائے کا یہی اصول کار فرما ہے۔ سورج کسی بھی موسم میں شمال کی طرف نہیں جاتا۔ اسی اصول کے تحت کارخانوں وغیرہ کی بڑی بڑی عمارات میں یہاں north light shells کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ایسے shells سے روشنی تو بلڈنگ میں آئے مگر دھوپ براہ راست نہ آئے۔ اور غار اندر سے کافی کشادہ تھی اور اصحاب کہف اس کے اندر کھلی جگہ میں سوئے ہوئے تھے۔
............................................
کچھ مفسرین نے غار اور اس کے دہانے کی سمت و جہت متعین کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ کاوش غیر ضروری معلوم ہوتی ہے۔ اس کی مختلف شکلیں فرض کی جاسکتی ہیں لیکن ان میں سے کسی کے متعلق جزم کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔ صحیح بات وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتا دیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ اس نے اپنی تدبیر و کارسازی سے اپنے بندوں کے لیے ایک ایسا غار مہیا فرما دیا جہاں بغیر کسی کاوش کے ان کے لیے ساری ضروریات زندگی فراہم تھیں اور معلوم ہوتا کہ سورج بھی ان کے پاس سے گزرتا ہے تو ادب و احترام سے گزرتا ہے کہ ان کی خدمت کی انجام دہی کا شرف تو حاصل ہو لیکن ان کے آرام و سکون میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ اس طرح یہ لوگ دھوپ کی تپش سے محفوظ بھی رہے اور اس سے ان کے جسم اور کپڑے بھی خراب نہیں ہوئے اور دھوپ کے قریب سے گذرنے کی وجہ سے گرمی کے فوائد بھی حاصل ہوتے رہے۔
............................................
ایک تنبیہ :
ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ مَنْ يَهْدِ اللَّهُ الایۃ
یعنی ان لوگوں کا اس غار میں پناہ لینا، اتنے لمبے عرصے تک سوتے رہنا اور دھوپ سے محفوظ رہنا، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی نشانی تھی۔
اسی آیات الٰہی کے تعلق سے یہ تذکیر فرما دی کہ جہاں تک اللہ کی نشانیوں کا تعلق ہے۔ ایک سے ایک بڑی نشانی موجود ہے۔ لیکن نشانیوں سے رہنمائی وہی حاصل کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ توفیق بخشتا ہے۔ جو اس توفیق سے محروم ہوجاتے ہیں، کوئی دوسرا ان کا کارساز و رہنما نہیں بن سکتا۔
............................................
جمادی الاول 2 , 1442 بروز جمعہ
دسمبر 18 , 2020
➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری............................................*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
0 تبصرے