عجائبِ قرآن کا مشاہداتی واقعہ





 قرآن کریم کی عظمت و فضیلت کے بیان میں نہایت جامع حدیث کا ایک فقرہ ہے "وَلاَ تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ: اور اس کے عجائب (یعنی اس کے دقیق و لطیف حقائق و معارف). کبھی ختم نہیں ہوں گے۔"....{مکمل حدیث مع ترجمہ حاشیہ 2}.... یہ فقرہ جب بھی نگاہوں سے گزرتا، کانوں سے ٹکراتا، جستجو ہوتی کہ اس کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟ معنیٰ سمجھ سے بالاتر محسوس ہوتا، ____________ یہی احساس فہمِ قرآن کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعا کے فقرے "والنَّظرَ فى عجآئِبِهِ" میں بھی جاگتا تھا ...{مکمل دعا مع ترجمہ حاشیہ 1}.... ____________ 
 لیکن ابھی "علم و کتاب گروپ" میں اس سے متعلق بہترین تحریر نظر سے گذری جس میں مولانا سیّد مناظر احسن گیلانی ؒ کا ذاتی واقعہ انہیں کے قلم سے مذکور ہےـ واقعہ نے پوری طرح اس فقرے کا معنیٰ مطلب واشگاف کردیا، ذہن کو بڑا اطمینان، دل کو بڑی راحت ملی، اللہ پاک ہمیں بھی وہ نظر عطا فرمائے۔ آمین 
یا رب العالمین
اسی طرح اللہ پاک اپنے بندوں میں جسے چاہتے ہیں اسے عجائبات و سلطنتِ خداوندی کا نظارہ کرادیتے ہیں اور ایمان و یقین کا اونچا مقام عطا کرتے ہیں، ذلک فضل اللی یؤتیہ من یشاء 
وَكَذٰلِكَ نُرِىۡۤ اِبۡرٰهِيۡمَ مَلَـكُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَلِيَكُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِـنِيۡنَ 
ترجمہ:
اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا نظارہ کراتے تھے، اور مقصد یہ تھا کہ وہ مکمل یقین رکھنے والوں میں شامل ہوں۔
 
اب راقم درمیان سے ہٹ جاتا ہےـ آپ خود اس "ملکوتی تلاوت قرآن" کے واقعہ سے مستفید ہوئیے۔
______________________________ 
ملکوتی تلاوتِ قرآن :
       وہ قرآن کے حافظ تھے، میں نے سنا ہے کہ مغرب کے بعد اوابین والی نماز میں آٹھ پارے روزانہ پڑھنے کے ملتزم تھے، اپنی مسجد میں امامت خود کرتے تھے، ان کی قرأت پر ایک سیدھے سادے ہندوستان کے قصباتی مسلمان کے لب و لہجہ کا رنگ غالب تھا؛ اگر چہ اصولاً تجوید کے ہر قاعدے کی پوری رعایت کی جاتی تھی؛ بلکہ شاید تجویدی اصولوں کے مطابق قرأت ان کی عادی ہو گئی تھی، لیکن مصنوعی قرأت سے دور کا سروکار بھی ان کی یہ قرأت نہیں رکھتی تھی، کبھی کبھی، کسی کسی وقت کی نماز پڑھ لینے کی کی سعادت اس کور بخت کو بھی اللہ کے اس ولی کے پیچھے میسر آجاتی تھی، یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا شبیر احمد عثمانیؒ پر صوفیانہ مشاغل کا غلبہ تھا، مفتی صاحبؒ کی مسجد کے حجرے میں وہ چلہ کش تھے، فقیر بھی تراویح کے وقت حاضر ہو جاتا، اور چند ٹوٹے پھوٹے سننے والے مسلمانوں کے ساتھ میں بھی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا، ایسا کیوں کرتا تھا، نہ قرأت ہی میں کان کو کوئی خاص لذت ملتی تھی نہ کچھ اور تھا، لیکن دل یہی کہتا تھا کہ شاید زندگی میں پھر ایسے سیدھے سادے لہجے میں قرآن سننے کا موقع نہ ملے گا، اور دل کا یہ فیصلہ صحیح تھا، نمازیوں میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ بھی شریک رہتے تھے، اسی زمانہ میں ایک دفعہ جو واقعہ پیش آیا، اب بھی جب اسے سوچتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، دل کانپنے لگتا ہے، مفتی صاحبؒ قبلہ حسب دستور وہی اپنی نرم نرم، سبک رو آواز میں قرآن پڑھتے چلے جاتے تھے، اسی سلسلہ میں قرآنی آیت ” وَبَرَزُوۡا لِلّٰهِ الۡوَاحِدِ الۡقَهَّارِ‏ ۞ (اور کھل کر لوگ سامنے آ گئے اللہ کے جو اکیلا ہے اور سب پر غالب ہے)) پر پہنچے، نہیں کہہ سکتا کہ مفتی صاحبؒ خود کس حال میں تھے، *____ کان میں قرآن کے یہ الفاظ اور کچھ ایسا معلوم ہوا کہ کائنات کا سارا حجاب سامنے سے اچانک ہٹ گیا، اور انسانیت کھل کر اپنے وجود کے آخری سر چشمے کے سامنے کھڑی ہے، گویا جو کچھ قرآن میں کہا گیا تھا محسوس ہوا کہ وہی آنکھوں کے سامنے ہے،*____ اپنے آپ کو اس حال میں پا رہا تھا، شاید خیال یہی تھا کہ غالباً میرا یہ ذاتی حال ہے؛ مگر پتہ چلا کہ میرے اغل بغل جو نمازی کھڑے ہوئے تھے، ان پر بھی کچھ اسی قسم کی کیفیت طاری تھی، مولانا شبیر احمد صاحبؒ کو بے ساختہ چیخ نکل پڑی، یاد آ رہا ہے کہ چیخ کر غالباً وہ تو گر پڑے، دوسرے نمازی بھی لرزہ بر اندام تھے، چیخ و پکار کا ہنگامہ ان میں بھی برپا تھا؛ لیکن مفتی صاحبؒ کوہ وقار بنے ہوئے امام کی جگہ اسی طرح کھڑے تھے، جدید کیفیت ان پر جو تھی وہ صرف یہی تھی، خلاف دستور بار بار اس آیت کو مسلسل دہراتے چلے جاتے تھے، جیسے جیسے دہراتے، نمازیوں کی حالت غیر ہوتی چلی جاتی، آخر صف درہم برہم ہو گئی، کوئی ادھر گرا ہوا تھا، کوئی ادھر پڑا ہوا تھا، آہ آہ کی آواز مولانا شبیر احمدؒ کی زبان سے نکل رہی تھی، صف پر ایک طرف وہ بھی پڑے ہوئے تھے، کچھ دیر کے بعد لوگ اپنے آپ میں واپس ہوئے، تازہ وضو کرکے پھر نئے سرے سے صف میں شریک ہوئے، جہاں تک خیال آتا ہے، مفتی صاحبؒ دار و گیر چیخ و پکار، صیحہ اور نعرہ کے ان تمام ہنگاموں میں اپنی جگہ کھڑے ہوئے، اس آیت کریمہ کی تلاوت میں مشغول رہے، جب دوبارہ صف بندی ہوئی تب پھر آگے بڑھے۔ 
ــــــــــــــــــ 
احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن/ ۱۹۱/ مولانا سیّد مناظر احسن گیلانی ؒ
ماخوذ از
سینسیٹیواسٹڈی  ٹیلیگرام چینل۔ ؒ
کتاب کا اصل صفحہ اسکرین شاٹ آخر میں لاحظہ فرمائیں ............. 




(نوٹ : مفتی صاحب سے مراد ___مفتی عزیز الرحمن صاحب اپنے وقت کے دارالعلوم کے مفتی اعظم) 
______________________________ 

حاشیہ 2}
مکمل دعا مع اردو ترجمہ :
اللهمَ ارزُقنى التفكُّرَ و التدَبُّرَ بما يتلوهُ لسانى من كتابِكَ ، والفهمَ لهُ ، والمَعرِفَةَ بِمعانيهِ ، والنَّظرَ فى عجآئِبِهِ ، والعَمَلَ بِذٰلِك ما بقِيتُ اِنَّكَ علىٰ كلِّى شَيءٍ قديرٌ.
ترجمہ ____________ اے اللہ میری زبان تیری کتاب میں سے جو کچھ تلاوت کرے، مجھے توفیق دے کہ میں اس میں غور و فکر کروں، مجھے اس کی سمجھ عطا فرما، مجھے اس کے مفہوم و معانی کی معرفت دیجیے، اور اس کے عجائبات کو پانے کی نظر عطا کر، اور جب تک زندہ رہوں مجھے توفیق عطا فرما کہ میں اس پر عمل کرتا رہوں، بے شک آپ ہر چیز پر قادر ہیں۔ (مجھے یہ نعمت عظمیٰ کے عطا پر بھی قادر ہیں۔ سو عطا فرما ہی دیجیے نا۔) 
______________________________ 

حاشیہ 1}
مکمل حدیث مع اردو ترجمہ :

معارف الحدیث
کتاب: کتاب الاذکار والدعوات
باب: قرآن مجید کی عظمت و فضیلت
حدیث نمبر: 1084

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ. قُلْتُ: مَا الْمَخْرَجُ مِنْهَا يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: كِتَابُ اللهِ فِيهِ نَبَأُ مَا قَبْلَكُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ، وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ، وَهُوَ الفَصْلُ لَيْسَ بِالهَزْلِ، مَنْ تَرَكَهُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَهُ اللَّهُ، وَمَنْ ابْتَغَى الهُدَى فِي غَيْرِهِ أَضَلَّهُ اللَّهُ، وَهُوَ حَبْلُ اللهِ الْمَتِينُ، وَهُوَ الذِّكْرُ الحَكِيمُ، وَهُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ، هُوَ الَّذِي لاَ تَزِيغُ بِهِ الأَهْوَاءُ، وَلاَ تَلْتَبِسُ بِهِ الأَلْسِنَةُ، وَلاَ يَشْبَعُ مِنْهُ العُلَمَاءُ، وَلاَ يَخْلَقُ عَلَى كَثْرَةِ الرَّدِّ، *____ وَلاَ تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ،____* هُوَ الَّذِي لَمْ تَنْتَهِ الجِنُّ إِذْ سَمِعَتْهُ حَتَّى قَالُوا: {إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ} مَنْ قَالَ بِهِ صَدَقَ، وَمَنْ عَمِلَ بِهِ أُجِرَ، وَمَنْ حَكَمَ بِهِ عَدَلَ، وَمَنْ دَعَا إِلَيْهِ هَدَى إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ. (رواه الترمذى والدارمى)

ترجمہ:
حضرت علی مرتضی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے ایک دن فرمایا: "آگاہ ہو جاؤ ایک بڑا فتنہ آنے والا ہے۔" میں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! اس فتنہ کے شر سے بچنے اور نجات پانے کا ذریعہ کیا ہے؟ " آپ ﷺ نے فرمایا: "کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے امتوں کے (سبق آموز) واقعات ہیں، اور تمہارے بعد کی اس میں اطلاعات ہیں، (یعنی اعمال و اخلاق کے جو دنیوی و اخروی نتائج و ثمرات مستقبل میں سامنے آنے والے ہیں، قرآن مجید میں ان سب سے بھی آگاہی دے دی گئی ہے) اور تمہارے درمیان جو مسائل پیدا ہوں قرآن میں ان کا حکم اور فیصلہ موجود ہے (حق و باطل اور صحیح و غلط کے بارے میں) وہ قول فیصل ہے، وہ فضول بات اور یاوہ گوئی نہیں ہے۔ جو کوئی جابر و سرکش اس کو چھوڑے گا (یعنی غرور و سرکشی کی راہ سے قرآن سے منہ موڑے گا) اللہ تعالیٰ اس کو توڑ کے رکھ دے گا، اور جو کوئی ہدایت کو قرآن کے بغیر تلاش کرے گا اس کے حصہ میں اللہ کی طرف سے صرف گمراہی آئے گی (یعنی وہ ہدایتِ حق سے محروم رہے گا) قرآن ہی حبل اللہ المتین یعنی اللہ سے تعلق کا مضبوط وسیلہ ہے، اور محکم نصیحت نامہ ہے، اور وہی صراطِ مستقیم ہے۔ وہی وہ حق مبین ہے جس کے اتباع سے خیالات کجی سے محفوظ رہتے ہیں اور زبانیں اس کو گڑ بڑ نہیں کر سکتیں (یعنی جس طرح اگلی کتابوں میں زبانوں کی راہ سے تحریف داخل ہو گئی اور محرفین نے کچھ کا کچھ پڑھ کے اس کو محرف کر دیا اس طرح قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہو سکے گی، اللہ تعالیٰ نے تا قیامت اس کے محفوظ رہنے کا انتظام فرما دیا ہے) اور علم والے بھی اس کے علم سے سیر نہیں ہوں گے (یعنی قرآن میں تدبر کا عمل اور اس کے حقائق و معارف کی تلاش کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا اور کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ قرآن کا علم حاصل کرنے والے محسوس کریں کہ ہم نے علم قرآن پر پورا عبور حاصل کر لیا اور اب ہمارے حاصل کرنے کے لئے کچھ باقی نہیں رہا، بلکہ قرآن کے طالبین علم کا حال ہمیشہ یہ رہے گا کہ وہ علم قرآن میں جتنے آگے بڑھتے رہیں گے اتنی ہی ان کی طلب ترقی کرتی رہے گی اور ان کا احساس یہ ہو گا کہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے وہ اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے جو ابھی ہم کو حاصل نہیں ہوا ہے) اور وہ قرآن کثرت مزاولت سے کبھی پرانا نہیں ہو گا (یعنی جس طرح دنیا کی دوسری کتابوں کا حال ہے کہ بار بار پڑھنے کے بعد ان کے پڑھنے میں آدمی کو لطف نہیں آتا، قرآن مجید کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے وہ جتنا پڑھا جائے گا اور جتنا اس میں تفکر و تدبر کیا جائے گا اتنا ہی اس کے لطف و لذت میں اضافہ ہو گا) اور ____ اس کے عجائب (یعنی اس کے دقیق و لطیف حقائق و معارف) کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ ____ قرآن کی یہ شان ہے کہ جب جنوں نے اس کو سنا تو بےاختیار بول اٹھے۔
إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ (الجن، 1،2:72)
ہم نے قرآن سنا جو عجیب ہے، رہنمائی کرتا ہے بھلائی کی، پس ہم اس پر ایمان لے آئے۔
جس نے قرآن کے موافق بات کہی اس نے سچی بات کہی، اور جس نے قرآن پر عمل کیا وہ مستحقِ اجر و ثواب ہوا اور جس نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا اس نے عدل و انصاف کیا اور جس نے قرآن کی طرف دعوت دی اس کو صراطِ مستقیم کی ہدایت نصیب ہو گئی۔ (جامع ترمذی، سنن دارمی)

تشریح
یہ حدیث قرآن کریم کی عظمت و فضیلت کے بیان میں بلاشبہ نہایت جامع حدیث ہے۔ اس میں جو کلمات اور جو جملے وضاحت طلب تھے ان کی وضاحت ترجمہ ہی میں کر دی گئی ہے۔
____________ 
 
پیشکش : نعیم الرحمن ندوی


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے