(سورۃ الكهف. آیت 18)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَ تَحۡسَبُهُمۡ اَيۡقَاظًا وَّهُمۡ رُقُوۡدٌ ۖ وَنُـقَلِّبُهُمۡ ذَاتَ الۡيَمِيۡنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ۖ وَكَلۡبُهُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَيۡهِ بِالۡوَصِيۡدِ ؕ لَوِ اطَّلَعۡتَ عَلَيۡهِمۡ لَوَلَّيۡتَ مِنۡهُمۡ فِرَارًا وَّلَمُلِئۡتَ مِنۡهُمۡ رُعۡبًا ۞
ترجمہ:
تم انہیں (دیکھ کر) یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے، اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے، اور ان کا کتا دہلیز پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے (بیٹھا) تھا۔ اگر تم انہیں جھانک کر دیکھتے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے، اور تمہارے اندر ان کی دہشت سما جاتی۔
____________ تفسیر ____________
یعنی سونے والے پر نیند کی جو علامتیں دیکھنے والوں کو نظر آتی ہیں۔ وہ ان میں نظر نہیں آتی تھیں، اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ لیٹے ہوئے جاگ رہے ہیں۔
............................................
وَتَحْسَبُهُمْ اَيْقَاظًا وَّهُمْ رُقُوْدٌ. وَّنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَذَات الشِّمَالِ
گویا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ان کی دیکھ بھال کے لیے ڈیوٹی پر مامور کر رکھا تھا جو وقفے وقفے سے ان کی کروٹیں بدلتے رہے تاکہ سالہا سال تک ایک ہی پہلو پر لیٹے رہنے سے وہ bed sores جیسی کسی تکلیف سے محفوظ رہیں۔
وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بالْوَصِيْدِ
اس دوران ان کا کتا اپنی اگلی دونوں ٹانگیں سامنے پھیلا کر کتوں کے بیٹھنے کے مخصوص انداز میں غار کے دہانے پر بیٹھا رہا۔
لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا
ایک ویرانے میں اندھیری غار اور اس کے سامنے اپنے بازو پھیلائے بیٹھا ہوا ایک خوفناک کتا یہ ایک ایسا منظر تھا جسے جو بھی دیکھتا ڈر کے مارے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھتا۔
............................................
حفاظت کے لیے اللہ پاک کا انتظام :
وَتَحْسَبُهُمْ اَيْقَاظًا وَّهُمْ رُقُوْدٌ. وَّنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَذَات الشِّمَالِ
یہ وہ انتظام بیان ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کے لیے فرمایا کہ باوجودیکہ وہ غار میں محو خواب تھے لیکن صورت حال ایسی تھی کہ اگر اتفاق سے کوئی ان کو دیکھ پاتا تو یہ گمان نہ کرتا کہ وہ سو رہے ہیں بلکہ وہ یہی سمجھتا کہ جاگ رہے ہیں۔ یعنی ان کو سوتا اور بیخبر سمجھ کر کوئی ان کو نقصان پہنچانے کی جرات نہ کرسکتا بلکہ ان کو اپنی حفاظت کے لیے بیدار و ہوشیار خیال کرتا۔ ان کے سونے کی ہیئت ایسی تھی کہ معلوم ہوتا کہ کچھ لوگ ذرا دم لینے کے لیے بس لیٹ گئے ہیں۔ ایسی نہیں کہ دیھئے والا سمجھے کہ غافل ہو کر سو رہے ہیں۔
____________
وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ۔
(ہم ان کو دہنے بائیں کروٹ بھی بدلواتے رہتے تھے۔) یہ کروٹ صحت جسمانی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے اور اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایک ہی ہیئت پر پڑے پڑے جسم اکڑ نہ جائے۔ نیز یہ لوگ زمین پر ایک طویل وقفہ کے لیے سوئے تھے اگر ایک ہی کروٹ پر عرصہ تک پڑے رہتے تو یہ اندیشہ تھا کہ زمین ان کے جسم کو نقصان پہنچا دے۔ اس لیے جس طرح ایک شفیق ماں گہوارے میں لیٹے ہوئے بچے کے پہلو بدلتی رہتی ہے اسی طرح قدرت ان کے پہلو بھی بدلواتی رہتی تھی۔
____________
وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ۔
یہ بھی اسی حفاظتی انتظام کے سلسلہ کی بات ہے کہ ان کا وفادار کتا غار کے دہانے پر اپنے دونون ہاتھ پھیلائے اس طرح بیٹھا رہا کہ گویا پہرہ دے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کتا بھی اس دوران میں برابر سوتا ہی رہا۔ لیکن اس کے سونے کی ہیئت وہ نہیں تھی جو عام طور پر کتوں کے سونے کی ہوتی ہے بلکہ وہ تھی جو ڈیوڑھی پہردہ دینے والے کتے کی ہوتی ہے۔ یہ انتظام اللہ تعالیٰ نے اس لیے فرمایا کہ کوئی شخص یا عام قسم کا جنگلی جانور غار میں گھسنے کی جرات نہ کرے۔
____________
لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا۔
ظاہر ہے کہ اگر اس طرح کے کسی منظر پر اتفاق سے کسی کی نظر پڑجائے تو وہ دہشت زدہ ہو کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوگا۔ وہ ششدر رہ جائے گا کہ آخر پہاڑوں کے بیچ میں، ایک غار کے اندر یہ کون لوگ ہیں جو اس طرح لیٹے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں بھلے آدمی سمجھے یا برے، چور اور ڈاکو خیال کرے یا راہب اور سنیاسی، آسمانی مخلوق خیال کرے یا ارضی، انسان خیال کرے یا جنات و ملائکہ، بہرحال اس پر اس حالت سے ایک انجانے قسم کا خوف ضرور طاری ہوگا۔ یہ خوف کی فضا وہاں قدرت نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لیے پیدا کردی تھی۔ دنیا کے حکمران خاردار تاروں سے گھرے محلوں میں سوتے ہیں اور مسلح سپاہی ان کا پہرہ دیتے ہیں لیکن ان کی جان کو امان نہیں۔ اللہ کے بندے غاروں اور جنگلوں میں سوتے ہیں اور مجال نہیں کہ کوئی پرندہ وہاں پر مار سکے۔
...............____________..............
اصحابِ کہف کا کتا:
یہاں ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ جس گھر میں کتا یا تصویر ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے، اور صحیح بخاری کی ایک حدیث میں بروایت ابن عمر ؓ مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص شکاری کتے یا جانوروں کے محافظ کتے کے علاوہ کتا پالتا ہے تو ہر روز اس کے اجر میں سے دو قیراط گھٹ جاتے ہیں، (قیراط ایک چھوٹے سے وزن کا نام ہے) اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں ایک تیسری قسم کے کتے کا بھی استثنا آیا ہے، یعنی جو کھیتی کی حفاظت کے لئے پالا گیا ہو۔
ان روایاتِ حدیث کی بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان اللہ والوں نے کتا کیوں ساتھ لیا؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ یہ حکم کتا پالنے کی ممانعت کا شریعتِ محمدیہ کا حکم ہے ممکن ہے کہ دینِ مسیح ؑ میں ممنوع نہ ہو، دوسرے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ یہ لوگ صاحبِ جائداد صاحبِ مویشی تھے ان کی حفاظت کے لئے کتا پالا ہو، اور جیسے کتے کی وفا شعاری مشہور ہے یہ جب شہر سے چلے تو وہ بھی ساتھ لگ لیا۔
____________
نیک صحبت کے برکات کہ اس نے کتے کا بھی اعزاز بڑھا دیا:
ابن عطیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد نے بتلایا کہ میں نے ابوالفضل جوہری کا ایک وعظ 469 یجری میں جامع مصر کے اندر سنا وہ بر سر منبر یہ فرما رہے تھے کہ جو شخص نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے ان کی نیکی کا حصہ اس کو بھی ملتا ہے، دیکھو! اصحابِ کہف کے کتے نے ان سے محبت کی اور ساتھ لگ لیا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا ذکر فرمایا۔
قرطبی نے اپنی تفسیر میں ابن عطیہ کی روایت نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ جب ایک کتا صلحاء اور اولیاء کی صحبت سے یہ مقام پاسکتا ہے تو آپ قیاس کرلیں کہ مومینن موحدین جو اولیاء اللہ اور صالحین سے محبت رکھیں ان کا مقام کتنا بلند ہوگا، بلکہ اس واقعہ میں ان مسلمانوں کے لئے تسلی اور بشارت ہے جو اپنے اعمال میں کوتاہی کرتے ہیں، مگر رسول اللہ ﷺ سے محبت پوری رکھتے ہیں۔
صحیح بخاری میں بروایت انس ؓ مذکور ہے کہ میں اور رسول اللہ ﷺ ایک روز مسجد سے نکل رہے تھے، مسجد کے دروازے پر ایک شخص ملا، اور یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا کہ تم نے قیامت کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے (جو اس کے آنے کی جلدی کر رہے ہو) یہ بات سن کر یہ شخص دل میں کچھ شرمندہ ہوا اور پھر عرض کیا کہ میں نے قیامت کے لئے بہت نماز، روزے اور صدقات تو جمع نہیں کئے، مگر میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو (سن لو کہ) تم (قیامت میں) اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ہم یہ جملہ مبارکہ حضور ﷺ سے سن کر اتنے خوش ہوئے کہ اسلام لانے کے بعد اس سے زیادہ خوشی کبھی نہ ہوئی تھی، اور اس کے بعد حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ (الحمد للہ) میں اللہ سے، اس کے رسول ﷺ سے، ابوبکر ؓ و عمر ؓ سے محبت رکھتا ہوں، اس لئے اس کا امیدوار ہوں کہ ان کے ساتھ ہوں گا۔ (قرطبی)
............................................
جمادی الاول 9 , 1442 بروز جمعہ
دسمبر 25 , 2020
➖➖➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری............................................*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
0 تبصرے