(سورۃ الكهف. آیت 16)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِذِ اعۡتَزَلۡـتُمُوۡهُمۡ وَمَا يَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاۡوٗۤا اِلَى الۡـكَهۡفِ يَنۡشُرۡ لَـكُمۡ رَبُّكُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِهٖ وَيُهَيِّئۡ لَـكُمۡ مِّنۡ اَمۡرِكُمۡ مِّرۡفَقًا ۞
ترجمہ:
اور (ساتھیو) جب تم نے ان لوگوں سے بھی علیحدگی اختیار کرلی ہے اور ان سے بھی جن کی یہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں تو چلو اب تم اس غار میں پناہ لے لو، تمہارا پروردگار تمہارے لیے اپنا دامنِ رحمت پھیلا دے گا، اور تمہارے کام میں آسانی کے اسباب مہیا فرمائے گا۔
................. تفسیر ................
مرفق اس چیز کو کہتے ہیں جو آدمی کی ضرورت اور منفعت کی ہو "وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرفَقًا"، یعنی اس مرحلہ میں جس چیز کے تم محتاج ہونگے اللہ تعالیٰ وہ تمہارے لیے مہیا فرمائے گا۔
_____________
اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت کی بشارت :
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے بشارت ہے اور قرینہ دلیل ہے کہ یہاں کلام کا اتنا حصہ حذف ہے جو سیاقِ کلام سے خود واضح ہے یعنی بالآخر نوجوانوں کے اور ان کی قوم کے درمیان کش مکش اتنی بڑھ گئی کہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ لوگ ان کو، جیسا کہ آیت 20 سے واضح ہوتا ہے، سنگسار کردیں گے۔ اس وقت ان لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک خاص غار میں جو پہلے سے انہوں نے منتخب کرلیا تھا، پناہ گزیں ہوجائیں گے۔ اس مرحلہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی ہدایت و بشارت دی کہ اب جب کہ تم نے اللہ کی خاطر اپنی قوم اور اس کے معبودوں کو چھوڑ دیا تو اپنے منتخب کردہ غار میں پناہ گیر ہوجاؤ۔ تمہارا رب تمہارے لیے اپنے فضل و رحمت کا دامن پھیلائے اور تمہاری تمام ضروریات کا سامان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بس یہ چاہتا ہے کہ وہ ہمت کرکے اس کی راہ پر چلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ جب وہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو آگے کی منزل کے لیے زاد و راحلہ وہ خود فراہم کرتا ہے۔ من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب۔
_____________
ترک دنیا کے حق میں غلط استدلال :
اس واقعہ سے بعض حضرات نے گوشہ نشینی اور ترک دنیا کی زندگی کی فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ ان لوگوں نے اس غار میں پناہ اس وقت لی ہے جب وہ اپنے ماحول کی اصلاح کے لیے جان کی بازی کھیل کر اپنی قوم کے ہاتھوں سنگسار کردیے جانے کے مرحلہ تک پہنچ گئے ہیں۔ *مرحلہ بعینہ وہی مرحلہ ہے جو ہمارے نبی کریم ﷺ کو پیش آیا اور آپ کو غار ثور میں پناہ لینی پڑی۔* ان لوگوں نے یہ غار نشینی رہبانیت کے لیے نہیں اختیار کی تھی بلکہ اعدائے حق کے شر سے اپنی جانیں بچانے کے لیے اختیار کی تھی۔
_________ اس کے بعد وہ ایک غار میں جا چھپے، جب ان کے غائب ہونے کی خبر مشہور ہوئی تو تلاش کیا گیا، لیکن وہ اسی طرح ناکام رہے، جس طرح نبیﷺ کی تلاش میں کفار مکہ غار ثور تک پہنچ جانے کے باوجود، جس میں آپ ﷺ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ موجود تھے، ناکام رہے تھے۔
______________
فَاْوٗٓا اِلَى الْكَهْفِ:
ابن کثیرؒ نے فرمایا کہ اصحاب کہف نے جو صورت اختیار کی کہ جس شہر میں رہ کر اللہ کی عبادت نہ ہو سکتی تھی اس کو چھوڑ کر غار میں پناہ لی، یہی سنت ہے تمام انبیاءؑ کی کہ ایسے مقامات سے ہجرت کر کے وہ جگہ اختیار کرتے ہیں جہاں عبادت کی جاسکے۔
_____________
نوٹ: اب تک اگلی تمام 17 قسطیں پی ڈی ایف میں حاصل کرسکتے ہیں۔
لنک
ربیع الثانی 25 , 1442 بروز جمعہ
دسمبر 11 , 2020
➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری............................................*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
0 تبصرے