درس قرآن [9]… سورہ کہف اور فتنہ دجال



(آیت 2 تا 5)

*حصہ سوم … ⬆گذشتہ سے پیوستہ⬇*
______________________________
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَّيُنۡذِرَ الَّذِيۡنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا ۞ مَا لَهُمۡ بِهٖ مِنۡ عِلۡمٍ وَّلَا لِاٰبَآئِهِمۡ‌ؕ كَبُرَتۡ كَلِمَةً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ‌ؕ اِنۡ يَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا كَذِبًا‏ ۞
ترجمہ:
اور اُن لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ۞ اِس بات کا نہ اُنہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا بڑی سنگین بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔
______________________________

*نظریۂ ولدیت کا جذباتی پہلو*

عقیدۂ ولدیت پر اب تک ہوئی بحث عقلی و نظری تھی، اس کا ایک جذباتی پہلو بھی ہے اس کی تفصیل اس طرح ہے؛
جذبات کو متاثر کرنے والی چیزوں میں ایک چیز وہ ہے جس کو “گالی” سے تعبیر کیا جاتا ہے، فارسی میں “دشنام” اور عربی میں “سَبّْ و شَتْم” کہتے ہیں۔ آسان الفاظ میں ایسی بات کو کسی کی طرف منسوب کرنا جو اس کے لئے بالکل زیب نہیں دیتا، گالی کہلاتی ہے یعنی کسی بری صفت کا دوسرے کی طرف منسوب کرنا جبکہ وہ حقیقت میں اس میں نہ ہو گالی ہے، گالی ایک لحاظ سے جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے، گالی سے انسانی جذبات میں شدید ہیجان پیدا ہوتا ہے اور بسا اوقات اسی جذباتی ثاثر کے طوفان سے آدمی آپے سے باہر ہو جاتا ہےـ
اس کو مثال سے سمجھتے ہیں۔
اگر کوئی کسی ایسے شخص کو جو زید کا باپ نہیں ہے اس کو زید کا باپ قرار دیتا ہے تو گویا اس نے زید کی ماں کو کسی دوسرے کے ساتھ بدکاری کی تہمت لگائی؛ یہ زید کے حق میں گالی ہے، اس پر زید کا رد عمل انتہائی شدید جذباتی ہیجان لیے ہوگا۔
اسی طرح جو لوگ مسیح علیہ السلام کی ولدیت کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں گویا وہ مسیح علیہ السلام کو گالی دے رہے ہیں۔
اس عقیدہ کو ماننے والے لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی گالیاں دے رہے ہیں ان کی پاک طاہرہ، مطہرہ، معصومہ عفیفہ والدہ کو بھی بے آبرو کر رہے ہیں۔
اسی طرح ایسی عورت جو کسی کی بیوی نہ ہو اس کے ساتھ اگر اسے تہمت لگائی جائے تو اس کے لئے ناقابل برداشت ہوگا، یہ اس شخص کے لیے گالی ہوگی۔ تو اس عقیدہ کو ماننے والے لوگ حقیقت میں خالق و مالک اللہ رب العالمین کی شان میں سَبّْ و شَتْم کی گستاخی کر رہے ہیں۔
درج ذیل حدیث قدسی میں اسی بات کو بیان کیا گیا ہے، اس کا مطلوبہ حصہ پیش ہے:
قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰي……… شَتَمَنِیْ (ابْنُ اٰدَمَ) وَلَمْ يَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ……. وَاَمَّا شَتْمُہُ اِيَّایَ فَقَوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ يَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رَوَايَۃٍ: ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہُ اِيَّایَ فَقَوْلُہُ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا۔ (صحیح البخاری)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ……. ابن آدم میرے بارے میں بدگوئی کرتا ہے حالانکہ یہ اس کے مناسب نہیں ہے، …….. اس کا میرے بارے میں بد گوئی کرنا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے، اللہ نے اپنا لڑکا بنایا ہے حالانکہ میں تنہا اور بےنیاز ہوں، نہ میں نے کسی کو جنا ہے اور نہ مجھ کو کسی نے جنا اور نہ کوئی میرا برابری کرنے والا ہے اور عبداللہ ابن عباسؓ کی روایت میں اس طرح ہے اور اس (انسان) کا مجھے برا بھلا کہنا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ کا بیٹا ہے حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ کسی کو بیوی یا بیٹا بناؤں۔ (مشکوٰۃ المصابیح. حدیث نمبر: 19)
______________________________

سوال پیدا ہوتا ہے کہ عیسائیوں نے آخر مسیح علیہ السلام کو “ولد اللہ یعنی اللہ کا لڑکا” کیوں کہا؟
اصل بات یہ ہے؛ انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا انسانوں میں کوئی باپ نہیں ہے تو پھر کسی نہ کسی کو چاہیے کہ حضرت مسیح کا باپ ٹھہرایا جائے؛ تو انہوں نے لے دے کے خدا ہی کو مسیح کا باپ قرار دے دیا، حالانکہ تمام ہی ادیان ومذاہب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر چیز کا خالق بالواسطہ یا بلاواسطہ ایک ہی خدا ہے، وہ وہی ہے جس نے دنیا اور اسکی ہر چیز کو خلق کیا ہے اور اس کی یہ تمام تخلیق اس کے کلمہ “کُنْ/ہوجا” (حاشیہ:1) سے ہو رہی ہےـ خود عیسائی جو ایک درجے میں دینی و مذہبی قوم کہلاتے ہیں، اہل اسلام کی نظر میں اہل کتاب (انجیل والے) ہیں ان کا بھی کائنات کی تخلیق کے بارے میں یہی نظریہ ہے، ان کو کوئی دشواری نہیں تھی کہ مسیح علیہ السلام کو بھی اللہ تعالی کے اسی تخلیقی ارادے اور کلمہ “کن” کا نتیجہ مان لیتے لیکن انہوں نے انتہائی گستاخانہ فکر وخیال کو اپنا عقیدہ بنالیا اور عقل و سمجھ کے خلاف بالکل انوکھا اچنبھے میں ڈال دینے والا نظریہ؛ نظریۂ تثلیث اور ولدیتِ إلٰہ… دنیا والوں کے سامنے پیش کیا، اسکے اچنبھا ہونے اور انتہائی سنگین ہونے کی بات قرآن کریم میں درج ذیل الفاظ میں آئی ہے….
وَقَالُوۡا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا ؕ‏ ۞ لَـقَدۡ *جِئۡتُمۡ شَيۡـئًـا اِدًّا ۙ‏* ۞ تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرۡنَ مِنۡهُ وَتَـنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَتَخِرُّ الۡجِبَالُ هَدًّا ۞ اَنۡ دَعَوۡا لِـلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا‌ ۞ وَمَا يَنۡۢبَـغِىۡ لِلرَّحۡمٰنِ اَنۡ يَّتَّخِذَ وَلَدًا ۞ اِنۡ كُلُّ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ اِلَّاۤ اٰتِى الرَّحۡمٰنِ عَبۡدًا ۞ (مريم: 88-93)
ترجمہ: اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہے۔ (ایسی بات کہنے والو !) *حقیقت یہ ہے کہ تم نے بڑی سنگین حرکت کی ہے۔* کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹوٹ کر گرپڑیں۔ کہ ان لوگوں نے خدائے رحمن کے لیے اولاد ہونے کا دعوی کیا ہے۔ حالانکہ خدائے رحمن کی یہ شان نہیں ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ آسمانوں اور زمین میں جتنے لوگ ہیں، ان میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو خدائے رحمن کے حضور بندہ بن کر نہ آئے۔
(مستفاد از مولانا گیلانی)
…………………………
اس عقیدے کو نہ خود انہوں نے پوری طرح سمجھا، نہ ہی دنیا والوں کو سمجھا سکے؛ لیکن قرآن کریم نے اس گُتّھِی کو اپنے معجزانہ اسلوب میں فقط چند فقروں میں سُلجھا دیا، سمجھا دیا اور حق بات صاف صاف دنیا والوں کے سامنے پیش کردی۔ دیکھئے!

اِنَّ مَثَلَ عِيۡسٰى عِنۡدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ‌ؕ خَلَقَهٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ ۞ اَلۡحَـقُّ مِنۡ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنۡ مِّنَ الۡمُمۡتَرِيۡنَ ۞ فَمَنۡ حَآجَّكَ فِيۡهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَاَبۡنَآءَكُمۡ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمۡ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَكُمۡ ثُمَّ نَبۡتَهِلۡ فَنَجۡعَل لَّعۡنَتَ اللّٰهِ عَلَى الۡكٰذِبِيۡنَ ۞ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الۡقَصَصُ الۡحَـقُّ ‌‌ۚ وَمَا مِنۡ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ‌ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ ۞ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌۢ بِالۡمُفۡسِدِيۡنَ ۞ قُلۡ يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيۡنَـنَا وَبَيۡنَكُمۡ اَلَّا نَـعۡبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشۡرِكَ بِهٖ شَيۡــئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ‌ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡهَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ ۞
(آل عمران: 59-64)
ترجمہ:
اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے، اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر ان سے کہا : ہوجاؤ۔ بس وہ ہوگئے۔ ۞ حق وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے آیا ہے، لہذا شک کرنے والوں میں شامل نہ ہوجانا۔ ۞ تمہارے پاس (حضرت عیسیٰ ؑ کے واقعے کا) جو صحیح علم آگیا ہے اس کے بعد بھی جو لوگ اس معاملے میں تم سے بحث کریں تو ان سے کہہ دو کہ :“ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو، اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنے لوگوں کو اور تم اپنے لوگوں کو، پھر ہم سب ملکر اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں، اور جو جھوٹے ہوں ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ ۞ یقین جانو کہ واقعات کا سچا بیان یہی ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور یقینا اللہ ہی ہے جو اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔ ۞ پھر بھی اگر یہ لوگ منہ موڑیں تو اللہ مُفسدوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ۞
(مسلمانو ! یہود و نصاری سے) کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم تم میں مشترک ہو، (اور وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔ پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو : گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں۔ ۞

درج بالا آیات کی روشنی میں اس بحث کا اختتامیہ ملاحظہ فرمائیں….

*عیسیٰ ؑ کی مثال آدم ؑ کی ہے :*
یہ آیت اس باب میں خاتمہ بحث کی آیت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح خدا نے آدمؑ کو مٹی سے پیدا کیا اور اس کو فرمایا کہ ہوجا تو وہ ہوگیا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے کلمہ ’ کن ‘ سے عیسیٰ ؑ کو پیدا کردیا۔ بلکہ ولادت کے معاملے میں آدمؑ کو اس اعتبار سے عیسیٰ ؑ پر فضیلت حاصل ہے کہ ان کی ولادت میں نہ باپ کو دخل ہے نہ ماں کو تو جب نصاری ان کو معبود نہیں مانتے تو آخر حضرت عیسیٰ ؑ کو معبود کیوں بنا بیٹھے؟

*لفظ ’ ابن ‘ کا استعمال دوسروں کے لیے :*
جس طرح پیدائش کے معاملے سے کسی مغالطے کے لیے کوئی وجہ موجود نہیں تھی، اسی طرح ’ ابن ‘ کے لفظ سے بھی، اگر نصاری عقل سے کام لیتے تو کسی گمراہی میں پڑنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، تورات اور انجیل میں ’ ابن ‘ کا لفظ صرف عیسیٰ ؑ ہی کے لیے نہیں استعمال ہوا ہے بلکہ حضرت آدم کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ ملاحظ ہو لوقا 3 : 38۔ فرشتوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، ملاحظہ ہو پیدائش 6 : 2، 4۔ حضرت یعقوب ؑ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ملاحظہ ہو استثنا 14 : 1۔ نصاری کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ملاحظہ یوحنا 1 : 11-12۔ اگر کسی کو معبود بنا دینے کے لیے یہ لفظ کافی ہے تو پھر حضرت عیسیٰ ؑ کی کوئی تخصیص نہیں رہ جاتی، پھر تو معبودوں کا ایک پورا لشکر تیار ہوسکتا ہے، نصاری نے صرف حضرت عیسیٰ ؑ ہی پر کیوں قناعت کرلی؟

یہاں تک بحث اتمام حجت کے آخری نقطہ پر پہنچ گئی اس وجہ سے قرآن نے یہ کہہ کر کہ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ……… الایۃ، مزید بحث و گفتگو کا دروازہ بند کردیا۔ یعنی حضرت مسیح سے متعلق اصل حقیقت یہی ہے جو قرآن نے واضح کردی ہے، باقی جو کچھ ہے وہ سب نصاری کی افسانہ طرازی ہے۔

ثُمَّ نَبۡتَهِلۡ فَنَجۡعَل لَّعۡنَتَ اللّٰهِ………
اس عمل کو مباہلہ کہا جاتا ہے، جب بحث کا کوئی فریق دلائل کو تسلیم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی پر تل جائے تو آخری راستہ یہ ہے کہ اسے مباہلہ کی دعوت دی جائے جس میں دونوں فریق اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہو یا باطل پر ہو وہ ہلاک ہوجائے، شہر نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا تھا اس نے آپ سے حضرت عیسیٰ ؑ کی خدائی پر بحث کی، جس کا اطمینان بخش جواب قرآن کریم کی طرف سے پچھلی آیتوں کے ذریعے دے دیا گیا، جب وہ کھلے دلائل کے باوجود اپنی گمراہی پر اصرار کرتے رہے تو اس آیت نے آنحضرت ﷺ کو حکم دیا کہ وہ انہیں مباہلے کی دعوت دیں ؛ چنانچہ آپ ﷺ نے ان کو یہ دعوت دی اور خود اس کے لئے تیار ہو کر اپنے اہل بیت کو بھی جمع فرمالیا لیکن عیسائیوں کا وفد مباہلے سے فرار اختیار کرگیا۔

مباہلہ اس قضیے کو طے کرنے کی آخری صورت تھی لیکن وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے تو اس کے صاف معنی یہ ہوئے کہ وہ حق کی پیروی نہیں کرنا چاہتے بلکہ حق کی مخالفت کر کے خدا کی زمین میں فساد برپا کرنا چاہتے ہیں اس لیے کہ شرک تمام فساد کی جڑ ہے۔ اگر زمین و آسمان میں بہت سے معبود ہوتے تو ان کا سارا نظامِ تکوینی درہم برہم ہو کر رہ جاتا، اسی طرح اگر دین میں شرک کے لیے کوئی گنجائش تسلیم کرلی جائے تو اس دنیا کا سارا نظامِ عدل درہم برہم ہو کر رہ جائے۔

آخر میں حضرت مسیح ؑ کی اصل حقیقت واضح کردینے اور نصاری پر حجت تمام کردینے کے بعد یہود و نصاری دونوں کو مخاطب کرکے ان کو توحید اور اسلام کی دعوت دی ہے۔ اس کا آغاز اس طرح فرمایا ہے کہ توحید کو ایک مشترک حقیقت قرار دیا ہے کہ جس طرح اسلام اس کی دعوت لے کر آیا ہے اسی طرح پچھلے انبیاء اور صحیفوں نے بھی اسی چیز کی دعوت دی ہے اس وجہ سے اگر تم توحید کو جھٹلاتے ہو تو صرف قرآن کو نہیں جھٹلاتے بلکہ خود اپنے انبیاء اور اپنے صحیفوں کو بھی جھٹلاتے ہو۔
______________________________
*قرآن کا معجزانہ اسلوب*
عیسائیوں کے اس پیچیدہ عقیدے کی حقیقت اور حق بات کو قرآن نے کس طرح اپنے معجزانہ اسلوب میں حل کردیا ہے، آپ نے دیکھ لیا، یہ بذات خود اس کلام کے کلامِ الٰہی ہونے کی روشن دلیل ہے؛ پڑھئے اور سر دُھنیے!!!

وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اِک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اِک کملی والے نے … بتلادیا چند اشاروں میں
(مرحوم مولانا ظفر علی خان)
____________________________________________________________
حاشیہ:1
القرآن – سورۃ يس. آیت 81-83

اَوَلَيۡسَ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓى اَنۡ يَّخۡلُقَ مِثۡلَهُمۡؔؕ بَلٰی وَهُوَ الۡخَـلّٰقُ الۡعَلِيۡمُ ۞ *اِنَّمَاۤ اَمۡرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـــاءً اَنۡ يَّقُوۡلَ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ* ۞ فَسُبۡحٰنَ الَّذِىۡ بِيَدِهٖ مَلَـكُوۡتُ كُلِّ شَىۡءٍ وَّاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
ترجمہ: بھلا جس ذات نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو (دوبارہ) پیدا کرسکے ؟ کیوں نہیں ؟ جبکہ وہ سب کچھ پیدا کرنے کی پوری مہارت رکھتا ہے۔ ۞ *اس کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرلے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ : ہوجا۔ بس وہ ہوجاتی ہے۔* ۞ غرض پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی حکومت ہے اور اسی کی طرف تم سب کو آخر کار لے جایا جائے گا۔۞
______________________________

محرم الحرام 29 , 1441 بروز جمعہ
ستمبر 18 , 2020
➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری……………………………………..*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے