درس قرآن [8]…. سورہ کہف اور فتنہ دجال



آیت 2 تا 5…..

*حصہ دوم.. گذشتہ سے پیوستہ*
______________________________
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَيِّمًا لِّيُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِيۡدًا مِّنۡ لَّدُنۡهُ وَيُبَشِّرَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ الَّذِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ اَجۡرًا حَسَنًا ۞ مّٰكِثِيۡنَ فِيۡهِ اَبَدًا ۙ‏ ۞ وَّيُنۡذِرَ الَّذِيۡنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا ۞ مَا لَهُمۡ بِهٖ مِنۡ عِلۡمٍ وَّلَا لِاٰبَآئِهِمۡ‌ؕ كَبُرَتۡ كَلِمَةً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ‌ؕ اِنۡ يَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا كَذِبًا‏ ۞
القرآن – سورۃ الكهف آیت 2-5
ترجمہ:
ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے، اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے ۞ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۞ اور اُن لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ۞ اِس بات کا نہ اُنہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا بڑی سنگین بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔
______________________________
درج بالا آیات کو سوال و جواب کی شکل میں سمجھتے ہیں۔
*إنذار کے معنی ڈرانا / دھمکی دینا…….*
١) دھمکی کس چیز کی دی گئی؟
٢) دھمکی کن کو دی گئی؟
٣) دھمکی کس وجہ سے دی گئی؟

*١) دھمکی بأس کی دی گئی ہےـ*
بأس کے لغوی معنی ہیں : سختی و قوت، حرب و ضرب، دلیری…….. اس کے ایک قرآنی معنی بھی ہے یعنی قرآن میں ایک سو سے زائد مقامات میں اس لفظ کو ایک خاص پس منظر میں استعمال کیا گیا ہے؛ یہ لفظ حرب و قتال، جنگ و جدال کی وجہ سے ہونے والے دکھ اور تکلیف کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوا ہےـ بطورِ مثال
عرب کے یہود کا تذکرہ کرتے ہوئے…. بَاۡسُهُمۡ بَيۡنَهُمۡ شَدِيۡدٌ…… ان کے آپس کے جھگڑے بہت سخت ہیں۔ …..
انسانوں کو مختلف ٹکڑیوں میں آپس میں ٹکرا دینا ……. وَّيُذِيۡقَ بَعۡضَكُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ‌ؕ…. یا تم کو گروہ در گروہ کرکے آپس ہی میں گتھم گتھا کردے اور ایک کو دوسرے کے تشدد کا مزا اچھی طرح چکھا دے۔ …….

*مِّنۡ لَّدُنّي بأس شديد*
(خود سے برپا سخت جنگ)
مِّنۡ لَّدُنۡهُ : قرآن کی رو سے علم کی دو قسمیں ہیں 1) علمِ کسبی؛ محنت اور اسباب کے توسط سے حاصل ہوتا ہےـ اور 2) علمِ لَّدُنّي جو براہ راست حق تعالیٰ کے حضور سے عطا کیا جاتا ہےـ اردو میں بھی علم لَّدُنّي مشہور ہے اور غالباً یہ محاورہ اسی سورہ کہف کی آیت “وَعَلَّمۡنٰهُ مِنۡ لَّدُنَّا عِلۡمًا‏… اور خاص اپنی طرف سے ایک علم سکھایا تھا۔” سے ماخوذ ہےـ یعنی یہ جنگ اسباب و علل سے بالاتر ہوگی اور براہ راست قدرت کی طرف سے مِّنۡ لَّدُنّي حالات کے تحت چھڑے گی۔

*٢) مِّنۡ لَّدُنّي سخت جنگ کا رخ کدھر؟*
اللہ پاک کی طرف وَلَدِیَت کے عقیدے کا انتساب؛ عیسائیوں کا صرف عقیدہ ہی نہیں بلکہ اسی “عقیدے” پر عیسائیت یا کرسچینیٹی کی بنیاد ہےـ عیسائیت کا اول بھی یہی ہے اور آخر بھی یہی۔ آج عیسائیوں کی بڑی اکثریت یورپ اور امریکہ میں آباد ہے یعنی اس مِّنۡ لَّدُنّي سخت جنگ کا رخ انہی ملکوں اور ان کے آبادکاروں کی طرف ہوگا۔

*٣) عقیدۂ وَلَدِیَتِ الٰہ کی ہولناکی*
عیسائیوں کے اس عقیدہ (عیسیٰ ؑ کو اللہ سبحانہ کے ولد ٹھہرانے) پر اتنے سخت عذاب کی بات کہی گئی ہے اور اس پر اللہ سبحانہ و تعالی نے اتنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہےـ ہم اس عقیدے کی ہولناکی کا مختصر کا جائزہ لیتے ہیں۔
……………………
*عیسائی عقیدہ اور لفظِ وَلَدْ*
وَلَدْ کا لفظ وِلاَدَتْ سے ماخوذ ہے، اس کے معنی فارسی میں “زادن” اور اردو میں “جننا / جنم دینا” ہے، یعنی والد اور مولود کے درمیان وِلاَدَتْ اور جننے کا تعلق ہوتا ہے، خَلْقْ یعنی پیدا کرنے کا تعلق نہیں ہوتا۔ خالق اسے کہیں گے جو نطفے کو بھی پیدا کرتا ہے اور اس نطفے کو ماں کے پیٹ کی اندھیریوں میں بغیر خطا کے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل کرتے ہوئے بالآخر ایک مکمل خوبصورت وجود دیکر عالَمِ رَحَم سے اِس عالمِ آب و گِل میں لاتا ہے، باپ تو صرف ایک گزرگاہ ہوتا ہے، بچہ نطفے کی شکل میں اسکی پشت سے ماں کے رحم میں منتقل ہوتا ہےـ گویا باپ؛ کسان اور ماں؛ کھیتی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
اللہ پاک کی طرف نسبت؛ تخلیق کی ہوگی ولادت اور جننے کی نہیں، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ولادت و ازدواج سے پاک ہے اس نے اپنے لیے بیوی بچے نہیں بنائے، اسے اس کی ضرورت بھی نہیں ہےـ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا :
بَدِيۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ اَنّٰى يَكُوۡنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمۡ تَكُنۡ لَّهٗ صَاحِبَةٌ‌ ؕ وَخَلَقَ كُلَّ شَىۡءٍ‌ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ.
ترجمہ: وہ آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے اس کے اولاد کیسے ہوسکتی ہے جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے تو ہر شے کو پیدا / خَلْقْ کیا ہے اور وہ ہرچیز کا علم رکھتا ہےـ
(القرآن – الأنعام. آیت 101)
_____________
دو باتیں قابلِ غور
پہلی بات؛ “وَلَدْ” ٹھہرانے کا مطلب یہ ہوگا کہ *___ اللہ خالق نہیں ہے اور عیسیٰ ابن مریم؛ اللہ کی مخلوق نہیں ___* یعنی عیسائیوں نے وَلَدِیَتْ کے اس دعوے کو اپنا عقیدہ بنا کر درحقیقت انہوں نے اپنے دین و ایمان کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ *___ اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی بھی ایسی ہے جو خدائی مخلوق نہیں ہے اور اس کے صفات و کمالات خدا کے پیدا کئے ہوئے نہیں ہیں۔___*

اور دوسری بات؛ جو لفظ “وَلَدْ” سے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی چیز سے قانونِ وِلادت کے طور پر اسی چیز کی وِلادت ہوگی یعنی گھوڑے سے گھوڑا، شیر سے شیر وغیرہ؛ *___تو قانونِ ولادت کے تحت خدا سے پیدا ہونے والا “وَلَدْ” خدا ہی ہوگا اور خدائی کے تمام کمالات خدا کے “وَلَدْ” میں بھی پائے جائیں گے۔ معاذ اللہ ثم معاذاللہ___* یعنی حضرت عیسیٰ ؑ ؛ اللہ کی مخلوق نہیں بلکہ خدا کا جزو ہیں اور خدائی کمالات سے متصف ہو کر خدائی میں شریک ہیں، عیسائی اگرچہ انہیں “وَلَدُ اللہ” کہتے ہیں لیکن وَلَدُ اللہ بولنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ بھی اللہ ہیں، قرآن کریم نے بھی اسے واضح کیا ہے؛ لَـقَدۡ كَفَرَ الَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡمَسِيۡحُ ابۡنُ مَرۡيَمَ‌ؕ. ترجمہ: جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے وہ یقینا کافر ہوگئے ہیں۔ (المائدة. آیت 17)

*والدہ کا مسئلہ*
اسی کے ساتھ “وَلَدْ” کا لفظ والد کے ساتھ قدرۃً والدہ کے مسئلہ کو بھی ذہن کے سامنے لے آتا ہے، جس کا ذکر کیا کریں اس کا خیال بھی رب العالمین کی شان میں بے ادبی معلوم ہوتا ہے مگر وَلَدِیَت کے اسی بدترین گھناؤنے نظریے کا یہ نتیجہ ہے کہ ماننے والوں نے والد کے ساتھ والدہ کو بھی مانا اور والدہ کے ساتھ معاذاللہ والدین کے سارے فرائض کو بھی اپنے ایمان کا جزو بنانے پر مجبور ہوئے۔

تو یہ ہے وہ *___ہولناک شکل اس “عقیدہ وَلَدِیَت” کی___* جس پر عیسائیت کی بنیاد قائم ہے جس پر سے لفظِ “وَلَدْ” پردہ ہٹا رہا ہے اور اسی لئے ارشاد فرمایا گیا ہے…… كَبُرَتۡ كَلِمَةً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ‌ؕ اِنۡ يَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا كَذِبًا‏. بڑی ہی سنگین بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔ اِس بات کا نہ اُنہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادوں کو تھا۔
(مستفاد از مولانا گیلانی)
______________________________
*عیسیٰ ؑ کے متعلق قرآن کی صاف بات*

عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ کی تعظیم میں حد سے گزر گئے اور آپ کو خدا کا بیٹا کہنا شروع کردیا اور یہ عقیدہ اپنا لیا کہ خدا تین ہیں، باپ، بیٹا اور روح القدس۔ ان لوگوں کو حد سے گذرنے سے منع کیا گیا ہے، اور حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں وہ معتدل بات بتائی گئی ہے جو حقیقت کے عین مطابق ہے، یعنی وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے اور اللہ نے ان کو اپنے کلمہ “کن” سے باپ کے واسطے کے بغیر پیدا کیا تھا اور ان کی روح براہ راست حضرت مریم (علیہا السلام) کے بطن میں بھیج دی تھی۔
اللہ پاک کا ارشاد ہے :
يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِىۡ دِيۡـنِكُمۡ وَلَا تَقُوۡلُوۡا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الۡحَـقَّ‌ ؕ اِنَّمَا الۡمَسِيۡحُ عِيۡسَى ابۡنُ مَرۡيَمَ رَسُوۡلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗ‌ ۚ اَ لۡقٰٮهَاۤ اِلٰى مَرۡيَمَ وَرُوۡحٌ مِّنۡهُ‌ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ‌ ‌ۚ وَلَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَةٌ‌ ؕ اِنْتَهُوۡا خَيۡرًا لَّـكُمۡ‌ ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ‌ ؕ سُبۡحٰنَهٗۤ اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهٗ وَلَدٌ‌ ۘ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيۡلًا ۞
ترجمہ: اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو، اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کوئی بات نہ کہو۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم تو محض اللہ کے رسول تھے اور اللہ کا ایک کلمہ تھا جو اس نے مریم تک پہنچایا، اور ایک روح تھی جو اسی کی طرف سے (پیدا ہوئی) تھی۔ لہذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ مت کہو کہ (خدا) تین ہیں۔ اس بات سے باز آجاؤ، کہ اسی میں تمہاری بہتری ہے، اللہ تو ایک ہی معبود ہے وہ اس بات سے بالکل پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے، اور سب کی دیکھ بھال کے لیے اللہ کافی ہے۔ (سورۃ النساء. آیت 171)

______________________________

محرم الحرام 22 , 1441 بروز جمعہ
ستمبر 11 , 2020
➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری……………………………………..*

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے