درس قرآن [7]…. سورہ کہف اور فتنہ دجال



(آیت 2 تا 5 حصہ اول)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَيِّمًا لِّيُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِيۡدًا مِّنۡ لَّدُنۡهُ وَيُبَشِّرَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ الَّذِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ اَجۡرًا حَسَنًا ۞ مّٰكِثِيۡنَ فِيۡهِ اَبَدًا ۙ‏ ۞ وَّيُنۡذِرَ الَّذِيۡنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا ۞ مَا لَهُمۡ بِهٖ مِنۡ عِلۡمٍ وَّلَا لِاٰبَآئِهِمۡ‌ؕ كَبُرَتۡ كَلِمَةً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ‌ؕ اِنۡ يَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا كَذِبًا‏ ۞
القرآن – سورۃ الكهف آیت 2-5
ترجمہ:
ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے، اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے ۞ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۞ اور اُن لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ۞ اِس بات کا نہ اُنہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا بڑی سنگین بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔
……………………………………..
تفسیر:
قرآن کا مقصد:
لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ : یہ اس کتاب کے نازل کرنے کا مقصد بیان ہوا ہے کہ یہ کتاب انکار کرنے والوں کے لیے إنذار و ڈراوا اور ایمان لانے والوں کے لیے بشارت ہے۔ پہلے ٹکڑے میں “للکافِرین” یا “للمکذِّبین” محذوف ہے۔ اس لیے کہ آگے والے ٹکڑے میں “مؤمنین” موجود ہے جو تقابل کے اصول پر اس محذوف کو خود واضح کررہا ہے۔
فعل “يُنۡذِرَ” کا فاعل اللہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے یہ کتاب خاص اپنے پاس سے اس لئے اتاری ہے کہ کافروں کو ایک عذابِ شدید سے آگاہ و ہوشیار کردے۔ اور “من لدنہ” کا لفظ اہتمام پر دلیل ہوگا کہ اس مقصد کے لیے خدا نے خاص اپنے پاس سے اور اپنی نگرانی میں انتظام فرمایا۔

اور “يُنۡذِرَ” کا فاعل “عبد” یعنی رسول بھی ہوسکتا ہے؛ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کا رسول لوگوں کو خدا کی طرف سے نازل ہونے والے عذابِ شدید سے مُتَنَبِّہ کردے۔ اور “من لدنہ” سے عذاب کی شدت کا اظہار ہوگا کہ یہ عذاب کوئی ایسا ویسا عذاب نہیں ہوگا بلکہ قہر الٰہی ہوگا جس سے بچانے والا کوئی نہیں بن سکے گا۔

مَاكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا : اس “اجر حسن” میں ہمیشہ رہیں گے یعنی اس بہشت / جنّت میں ہمیشہ رہیں گے جو اس “اجر حسن” کے ثمرہ اور نتیجہ کے طور پر حاصل ہوگی۔

وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا۔ یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ہے۔ یعنی خاص طور پر ان لوگوں کو آگاہ کردے جو خدا کے لیے اولاد فرض کرکے ان کی عبادت میں لگے ہوئے اور ان کی شفاعت کے اعتماد پر خدا سے بالکل بے پرواہ ہو بیٹھے ہیں۔ اس میں عیسائی بھی شامل ہیں اور یہود بھی اور مشرکینِ عرب بھی۔

درج بالا دونوں آیتوں میں ڈرانے کا ذکر دو بار آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کتاب اور پیغمبر کے فرائض میں ڈرانے کا فریضہ زیادہ اہم ہے، کیونکہ ایمان نہ لانے والے زیادہ ہیں، جن میں سے کوئی مسیح ؑ کو اور کوئی عزیر ؑ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتا ہے، کوئی فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتا ہے، کوئی اپنے انبیاء و اولیاء کو اللہ کے نور کا ٹکڑا اور کوئی انھیں عین اللہ تعالیٰ قرار دیتا ہے، جیسا کہ نصرانیوں نے کہا : (اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ. ترجمہ ”بیشک اللہ مسیح ابن مریم ہی تو ہے۔“ المائدۃ : 72) اسی گمراہی کی بات کو اِس اُمَّت کے کچھ لوگ یوں کہتے ہیں ؂
وہی جو مستویِ عرش تھا خدا ہو کر
اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفیٰ ہو کر
(معاذاللہ… اللہ کی پناہ)

*اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ کتاب ان سب کو اس کی جانب سے آنے والے سخت عذاب سے ڈراتی ہےـ*
……………………………………..

آیت 4) وَّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا–
دور حاضر کی دجالیت میں فعال کردار ادا کرنے والا مذہب موجودہ مسیحیت بھی ہے جس کی بنیاد تثلیث پر رکھی گئی ہے اور اب اسے مسیحیت کے بجائے پال ازم (Paulism) کہنا زیادہ درست ہے۔ اس میں سب سے پہلے حضرت مسیح کو اللہ کا بیٹا قرار دیا گیا۔ پھر اس میں کفارے کا عقیدہ شامل کیا گیا کہ جو کوئی بھی حضرت مسیح پر ایمان لائے گا اسے تمام گناہوں سے پیشگی معافی مل جائے گی۔ اس کے بعد شریعت کو ساقط کر کے اس سلسلے میں تمام اختیارات پوپ کو دے دیئے گئے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال قرار دے اور جس کو چاہے حرام۔ ان تحریفات کی وجہ سے یورپ میں عام لوگوں کو لفظ ”مذہب“ سے ہی شدید نفرت ہوگئی۔ پھر جب ہسپانیہ میں مسلمانوں کے زیر اثر جدید علوم کو فروغ ملا تو فرانس اٹلی جرمنی وغیرہ کے بیشمار نوجوانوں نے مسلم قرطبہ غرناطہ اور طلیطلہ کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیا۔ یہ نوجوان حصولِ تعلیم کے بعد جب اپنے اپنے ممالک میں واپس گئے تو یورپ میں ان کی نئی فکر کی وجہ سے اصلاح مذہب Reformation اور احیائے علوم Renaissance کی تحریکات شروع ہوئیں۔ ان کی وجہ سے یورپ کے عام لوگ جدید علوم کی طرف راغب تو ہوئے مگر معاشرے میں پہلے سے موجود مذہب مخالف جذبات کی وجہ سے مذہب دشمنی خود بخود اس تحریک میں شامل ہوگئی۔ نتیجتاً جدید علوم کے ساتھ مذہب سے بیزاری روحانیت سے لا تعلقی آخرت سے انکار اور خدا کے تصور سے بیگانگی جیسے خیالات بھی یورپی معاشرے میں مستقلاً جڑ پکڑ گئے، اور یہ سب کچھ عیسائیت میں کی جانے والی مذکورہ تحریفات کا رد عمل تھا۔ آیت زیر نظر میں انہی لوگوں کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے یہ عقیدہ ایجاد کیا تھا کہ مسیح نعوذ باللہ، اللہ کا بیٹا ہے۔

______________________________
*سورت کا تعلق دجالیت سے…..*

آیت 2) قَـيِّمًا لِّيُنْذِرَ *بَاْسًا شَدِيْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ*
یہاں لفظ *بَاْسًا* بہت اہم ہے۔ یہ لفظ واحد ہو تو اس کا مطلب جنگ ہوتا ہے اور جب بطور جمع آئے تو اس کے معنی سختی، مصیبت، بھوک، تکلیف وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ جیسے سورة البقرۃ کی آیت 177 آیت البر میں یہ لفظ بطور واحد بھی آیا ہے اور بطور جمع بھی : وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ۔ چنانچہ وہاں دونوں صورتوں میں اس لفظ کے معنی مختلف ہیں : ”الْْبَاْسَآءِ“ کے معنی فقر و تنگدستی اور مصائب و تکالیف کے ہیں جبکہ ”وَحِیْنَ الْبَاْسِ“ سے مراد جنگ کا وقت ہے۔

بہرحال آیت زیر نظر میں *”بَاْسًا شَدِیْدًا“* سے ایک بڑی آفت بھی مراد ہوسکتی ہے اور *بہت شدید قسم کی جنگ بھی۔* آفت کے معنی میں اس لفظ کا اشارہ اس دجالی فتنہ کی طرف بھی ہوسکتا ہے جو قیامت سے پہلے ظاہر ہوگا۔ حدیث میں ہے کہ کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال کے فتنے سے خبردار نہ کیا ہو کیونکہ یہ فتنہ ایک مؤمن کے لیے سخت ترین امتحان ہوگا اور پوری انسانی تاریخ میں اس فتنے سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہے۔
دوسری طرف اس لفظ *بَاْسًا شَدِیْدًا* کو اگر خاص طور پر *جنگ* کے معنی میں لیا جائے تو اس سے *”المَلحَمۃُ الْعُظمٰی“* مراد ہوسکتی ہے اور اس کا تعلق بھی فتنہ دجال ہی سے ہے۔ کتب احادیث کتاب الفتن، کتاب آثار القیامۃ، کتاب الملاحم وغیرہ میں اس خوفناک جنگ کا ذکر بہت تفصیل سے ملتا ہے۔ عیسائی روایات میں اس جنگ کو ”ہرمجدون“ Armageddon کا نام دیا گیا ہے۔ بہر حال حضرت مسیح کے تشریف لانے اور ان کے ہاتھوں دجال کے قتل کے بعد اس فتنہ یا جنگ کا خاتمہ ہوگا۔

*نوٹ : ان آیات کی تفسیر کا دوسرا حصہ اگلے ہفتے پیش کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ العزیز*

گذشتہ 6 قسطیں بلاگر پر دیکھیں یا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں۔
https://drive.google.com/file/d/1xVK1Tdpf4-M5rRCz9iS2vr8GZ2htCWHG/view?usp=drivesdk

______________________________
محرم الحرام 15 , 1442 بروز جمعہ
ستمبر 4 , 2020
➖➖➖➖➖

منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری……………………………………..*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے