درس قرآن [10]….. سورہ کہف اور فتنہ دجال



(آیت 6 تا 8 حصہ اول)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّـفۡسَكَ عَلٰٓى اٰثَارِهِمۡ اِنۡ لَّمۡ يُؤۡمِنُوۡا بِهٰذَا الۡحَـدِيۡثِ اَسَفًا ۞ اِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَى الۡاَرۡضِ زِيۡنَةً لَّهَا لِنَبۡلُوَهُمۡ اَ يُّهُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ۞ وَاِنَّا لَجٰعِلُوۡنَ مَا عَلَيۡهَا صَعِيۡدًا جُرُزًا ۞
ترجمہ:
اب (اے پیغمبر) اگر لوگ (قرآن کی) اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے تم افسوس کر کر کے ان کے پیچھے اپنی جان کو گُھلا بیٹھو گے۔ یقین جانو کہ روئے زمین پر جتنی چیزیں ہیں ہم نے انہیں زمین کی سجاوٹ کا ذریعہ اس لیے بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہے۔ اور یہ بھی یقین رکھو کہ روئے زمین پر جو کچھ ہے ایک دن ہم اسے ایک سپاٹ میدان بنادیں گے۔

تفسیر:
آنحضرت ﷺ کو مشرکین کے کفر اور معاندانہ طرز عمل سے سخت صدمہ ہوتا تھا، ان آیات میں آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ دنیا تو لوگوں کے امتحان کے لیے بنائی گئی ہے، تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون ہے جو دنیا کی سجاوٹ میں محو ہو کر اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے، اور کون ہے جو اس کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق استعمال کر کے اپنے لیے آخرت کا ذخیرہ بناتا ہے۔ اور جب یہ امتحان گاہ ہے تو اس میں وہ لوگ بھی ہوں گے جو امتحان میں کامیاب ہوں گے اور وہ بھی جو ناکام ہوں گے۔ لہذا اگر یہ لوگ کفر و شرک کا ارتکاب کر کے امتحان میں ناکام ہو رہے ہیں تو اس میں نہ کوئی تعجب کی بات ہے اور نہ اس پر آپ کو اتنا افسوس کرنا چاہیے کہ آپ اپنی جان کو گھلا بیٹھیں۔

اور جتنی چیزوں سے یہ زمین سجی ہوئی اور بارونق نظر آتی ہے ایک دن وہ سب فنا ہوجائیں گی، نہ کوئی عمارت باقی رہے گی، نہ پہاڑ اور درخت، بلکہ وہ چٹیل اور سپاٹ میدان میں تبدیل ہوجائے گی، اس وقت یہ حقیقت واضح ہوگی کہ دنیا کی ظاہری خوبصورتی بڑی ناپائیدار تھی۔ اور یہی وہ وقت ہوگا جب آپ کے ساتھ ضد اور دشمنی کا معاملہ کرنے والے اپنے برے انجام کو پہنچیں گے۔ لہذا اگر ان لوگوں کو دنیا میں ڈھیل دی جا رہی ہے۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں بد عملی کے باوجود آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ لہذا نہ آپ کو زیادہ رنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ان کے انجام پر فکر مند ہونے کی۔ آپ کا کام تبلیغ ہے، بس اسی میں اپنے آپ کو مصروف رکھیے۔
______________________________

آنحضرت ﷺ کو اپنے فرض رسالت کی ادائیگی کا شدید احساس:

اللہ پاک نے آپ ﷺ سے ارشاد فرمایا کہ تم تو ان کے ایمان کے غم سے اس طرح گُھلے جا رہے ہو کہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ اس کتاب پر ایمان نہ لائے تو ان کے پیچھے تم اپنے آپ کو ہلاک کر دو گے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اپنے فرضِ رسالت کی ادائیگی کا احساس کتنا شدید تھا۔ آپ دعوت کے کام کے لیے اپنے رات دن ایک کیے ہوئے تھے۔ آپ کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں، بلکہ جو چیز آپ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی۔ آپکو یقین تھا کہ اس گمراہی کا لازمی نتیجہ تباہی اور عذاب الہٰی ہے۔ آپ ان کو اس سے بچانے کے لیے اپنے دن اور راتیں ایک کیے دے رہے تھے۔ مگر انہیں اصرار تھا کہ وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر ہی رہیں گے۔ اپنی اس کیفیت کو نبی ﷺ خود ایک حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ” میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لیے، مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں مگر پروانے اس کی ایک نہیں چلنے دیتے۔ ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کر کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ (دوزخ کی) آگ میں گرے پڑتے ہو “۔ (بخاری و مسلم)
اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت پر محبت انداز میں ٹوکا۔ اور بتایا کہ انکار کی اصل وجہ دنیا کی طلب اور اس کی زیب و زینت میں غافل رہنا ہےـ حالانکہ اس دنیا کا انجام یہ ہے کہ ہم ان ساری چیزوں کو مٹا کر اس کو چٹیل اور بےآب وگیاہ میدان کی طرح کردیں گے۔

______________________________
…….. سورت کا تعلق دجالیت سے ……..

آیت 6) فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا……
تثلیث جیسے غلط عقائد کے جو بھیانک نتائج مستقبل میں نسل انسانی کے لیے متوقع تھے ان کے تصور اور ادراک سے رسول اللہ ﷺ پر شدید دباؤ تھا۔ آپ خوب سمجھتے تھے کہ اگر یہ لوگ قرآن پر ایمان نہ لائے اور اپنے موجودہ مذہب پر ہی قائم رہے تو ان کے غلط عقائد کے سبب دنیا میں دجالیت کا فتنہ جنم لے گا جس کے اثرات نسل انسانی کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ یہ غم تھا جو آپ کی جان کو گھلائے جا رہا تھا۔

آیت 7) اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَةً لَّهَا……
یہاں یہ نکتہ ذہن نشین کرلیجئے کہ لفظ ”زینت“ اور دنیوی آرائش و زیبائش کا موضوع اس سورت کے مضامین کا عمود ہے۔ یعنی دنیا کی رونق چمک دمک اور زیب وزینت میں انسان اس قدر کھو جاتا ہے کہ آخرت کا اسے بالکل خیال ہی نہیں رہتا۔ دنیا کی یہ رنگینیاں عیسائیت کی علمبردار قوموں کے مسکن امریکہ اور یورپ میں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ انہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان اس سب کچھ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا امریکی اور یورپی اقوام کی علمی ترقی سے متاثر اور ان کے مادی اسباب و وسائل سے مرعوب ہے۔ اپنی اسی مرعوبیت کے باعث دنیا ان کی لادینی تہذیب و ثقافت کے بھی دلدادہ ہے اور ان کے طرز معاشرت کو اپنانے کے بھی درپے ہے۔

لِنَبْلُوَهُمْ اَيُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا……
دُنیا کے یہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ دراصل انسان کی آزمائش کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ایک طرف دنیا کی یہ سب دلچسپیاں اور رنگینیاں ہیں اور دوسری طرف اللہ اور اس کے احکام ہیں۔ انسان کے سامنے یہ دونوں راستے کھلے چھوڑ کر دراصل یہ دیکھنا مقصود ہے کہ وہ ان میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے۔ دنیا کی رنگینیوں میں کھوجاتا ہے یا اپنے خالق ومالک کو پہچانتے ہوئے اس کے احکام کی تعمیل کو اپنی زندگی کا اصل مقصود سمجھتا ہے۔

آیت 8) وَاِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَيْهَا صَعِيْدًا جُرُزًا……
قیامت برپا ہونے کے بعد اس زمین کی تمام آرائش و زیبائش ختم کر کے اسے ایک صاف ہموار میدان میں تبدیل کردیا جائے گا۔ نہ پہاڑ اور سمندر باقی رہیں گے اور نہ یہ حسین و دلکش عمارات۔ اس وقت زمین کی سطح ایک ایسے کھیت کا منظر پیش کر رہی ہوگی جس کی فصل کٹ چکی ہو اور اس میں صرف بچا کھچا سوکھا چورا ادھر ادھر بکھرا پڑا ہو۔

______________________________
صفر 7 , 1442 بروز جمعہ
ستمبر 25 , 2020
➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری……………………………………..*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے