(آیت 6 تا 8 حصہ دوم)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّـفۡسَكَ عَلٰٓى اٰثَارِهِمۡ اِنۡ لَّمۡ يُؤۡمِنُوۡا بِهٰذَا الۡحَـدِيۡثِ اَسَفًا ۞ اِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَى الۡاَرۡضِ زِيۡنَةً لَّهَا لِنَبۡلُوَهُمۡ اَ يُّهُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ۞ وَاِنَّا لَجٰعِلُوۡنَ مَا عَلَيۡهَا صَعِيۡدًا جُرُزًا ۞
ترجمہ:
اب (اے پیغمبر) اگر لوگ (قرآن کی) اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے تم افسوس کر کر کے ان کے پیچھے اپنی جان کو گُھلا بیٹھو گے۔ یقین جانو کہ روئے زمین پر جتنی چیزیں ہیں ہم نے انہیں زمین کی سجاوٹ کا ذریعہ اس لیے بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہے۔ اور یہ بھی یقین رکھو کہ روئے زمین پر جو کچھ ہے ایک دن ہم اسے ایک سپاٹ میدان بنادیں گے۔
….. تفسیری افادات از مولانا گیلانی …..
“اٰثَارِهِمۡ” میں ھم کی ضمیر کا مرجع وہی لوگ ہیں جو گذشتہ آیت کے لفظ “اَفۡوَاهِهِمۡؕ” میں ہیں یعنی وہی لوگ مراد ہے جو عقیدۂ ولدیت کے قائل ہیں۔ اس آیت میں سب سے زیادہ توجہ کا مستحق لفظ “اٰثَارِهِمۡ” ہے، اس کے ساتھ لفظ “بَاخِعٌ” اور “اَسَفًا” بھی قابل غور ہیں، لغت کے اعتبار سے ان کے معنی پر نظر ڈالتے ہیں۔
آثار : أثَرٌ کی جمع معنی نقش قدم / کسی چیز کا نشان / کسی چیز کا چھوڑا ہوا بقیہ حصہ ____ محاورہ : لاتطلُبْ أثَراً بعد عَینٍ. اصل چیز ضائع ہوجانے کے بعد بقایا مت ڈھونڈو
حاصلِ لغت : اثر وہ ہے جو کوئی چیز اپنے بعد نتیجے یا نشان کے طور پر چھوڑے۔
باخع : اسکی اصل ہے بخع، معنی ہلاک کرنا
____ محاورہ : بخع الأرضَ بالزراعةِ . زمین پر اتنی کاشت کی گئی کہ روئیدگی (اُگانے) کی صلاحیت جاتی رہی۔
بخع البئر . پانی نکلنے تک کھدائی کرنا۔
حاصلِ لغت : کسی معاملہ میں جدوجہد اس کے آخری حدود تک پہنچادینا، اس کے مفہوم کو لفظ بخع ادا کرتا ہےـ
أسَفٌ : غم و اندوہ
حاصلِ لغت : حزن و ملال کی وہ آخری شدید کیفیت جس کے بعد کلفت و بے چینی کا کوئی درجہ نہیں۔
*قرآنی الفاظ کا حاصل و خلاصہ*
ان لغوی تشریحات کو سامنے رکھ کر آیت کی سادہ ترجمانی یہ ہوگی کہ
“ولدیت کا عقیدہ رکھنے والی قوم قرآن پر ایمان لاکر قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے علم و عمل کی تصحیح سے اگر محروم رہ گئی تو جو بھیانک آثار و ہولناک نتائج اس کے ہونگے ان کو سوچ سوچ کر اے نبیﷺ ! کیا آپ اپنے آپ کو ہلاک کردو گے؟
______________________________
*عقیدۂ ولدیت کے آثار کا مختصر جائزہ*
اس عقیدے کے متعلق قرآنی بیان یہ ہے کہ “تخرج من افواھھم” یہ زبان اور تالو سے ادا تو ہو رہا ہے لیکن عقلِ فہیم و فطرتِ سلیم کو یہ بات متاثر نہیں کر سکتی _____ لیکن افسوس خدا کو انسانی صورت میں پیش کرنے والوں نے اس عقیدے کو “کفَّارے” کے غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا اور آخر میں “کلیسا” کے نام سے مذہبی دنیا میں ایک بھیانک نظام نے جنم لیا، یورپ کی تاریخ سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یورپ کو جہالت کی تاریکی میں جکڑے رکھنے میں کلیسا کا کیا کردار رہا ہے اور اس نظام کے ذریعے کلیسا نے مذہب ہی سے متنفر کردینے میں کیسا انسانیت سوز کھیل کھیلا ہےـ
*…….. کلیسائی نظام پر اجمالی نظر ……..*
١) کفّارہ کا عقیدہ
مسیحیوں کے نزدیک ہر انسان پیدائشی گناہ گار ہے۔ آدم و حوا نے جو گناہ کیا وہ وراثتاً ہر شخص کی فطرت میں چلا آ رہا ہے، جس کی وجہ سے ہر شخص گناہ گار ہے۔ مسیحیوں کے نزدیک نیک اعمال نجات کا موجب نہیں ہو سکتے۔ اگر خدا تعالیٰ بندے کے گناہ توبہ اور استغفار سے معاف کر دے تو اس کا یہ رحم اس کے عدل کے خلاف ہے۔ خدا رحیم ہے اس کا رحم چاہتا ہے کہ انسان سزا سے بچ جائے۔ پھر وہ عادل بھی ہے۔ عدل کا یہ تقاضا ہے کہ سزا ضرور دی جائے۔ اب رحم اور عدل ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے، بندے کی نجات کا ہونا ضروری ہے۔ بندوں کو نجات دلانے کے لیے خدا نے ایک صورت یہ نکالی کہ خدا کا بیٹا یسوع مسیح جو تمام گناہوں سے پاک اور معصوم ہے لوگوں کے تمام گناہوں کو اپنے اوپر لے کر جان کی قربانی دے اور سارے لوگوں کے لیے نجات کا ذریعہ بنے۔
مسیحی علم عقائد میں کفارہ، یسوع کی وہ قربانی ہے جس کے ذریعہ ایک گناہ گار انسان یک لخت خدا کی رحمت کے قریب ہو جاتا ہے۔ اس عقیدہ کی پشت پر دو مفروضے کار فرما ہیں ایک تو یہ کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے انسان خدا کی رحمت سے دور ہو گیا تھا دوسرے یہ کہ خدا کی صفتِ کلام (بیٹا) اس لیے انسانی جسم میں آئی تھی کہ وہ انسان کو دوبارہ خدا کی رحمت سے قریب کر دے۔
(تفصیل دیکھیے… عیسائیت کیا ہے؟ صفحہ 44 تا 57)
……………………………………..
*آسان الفاظ میں مسیحی عوام میں رائج الوقت کفارہ کا عقیدہ*
عیسائیوں نے کفارے کا عقیدہ اختیار کر لیا کہ ہر انسان پیدائشی گنہگار ہے اس لیے وہ نہ تو گناہ سے بچ سکتا ہے اور نہ ہی اس سے پاک ہو سکتا ہے، البتہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام (عیسائیوں کے بقول) سولی پر چڑھ گئے اور انہوں نے اس طرح نسلِ انسانی کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔ اب جو شخص صلیب کے سائے میں آجائے گا یعنی عیسائی ہو جائے گا وہ اس کفارہ میں شمولیت کا مستحق ہوگا اور اس کی برکت سے گناہوں سے پاک ہو جائے گا، اور جو شخص اس دائرہ میں نہیں آئے گا جیسا گنہگار پیدا ہوا ہے ویسا ہی گنہگار مر جائے گا اور اسے گناہوں سے کسی صورت میں نجات حاصل نہیں ہوگی۔
مسیحی دنیا میں یہ سوال و جواب زبان زد فقرے کی حیثیت سے مشہور ہے؛ “میں کیا کروں کہ نجات پاؤں؟ مسیح یسوع پر ایمان لا تو بچ جائے گا۔
What Must I Do To Be Saved?
Believe in the Lord Jesus Christ, and you will be saved” (Acts 16:31).
تصویر نیچے 🔽 …………
(انہیں دیکھئے! کہ انہوں نے اپنے گناہوں کے عوض اللہ تعالیٰ کے معصوم پیغمبر حضرت عیسٰیؑ کو بزعمِ خود سولی پر چڑھا دیا کہ گناہ یہ کریں اور سزا حضرت عیسٰیؑ بھگتیں۔ ویسے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے سولی پر چڑھنے کا عقیدہ عیسائیوں کا ہے ہم مسلمانوں کا نہیں ہے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ نہ سولی چڑھے ہیں اور نہ اب تک ان پر موت وارد ہوئی ہے، وہ زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے تھے، اب بھی زندہ ہیں اور قیامت سے پہلے دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ مگر عیسائیوں کے عقیدے کی داد دیں کہ اپنے گناہوں کی سزا پیغمبر کو دے رہے ہیں اور انہیں سولی پر چڑھا کر خوش ہیں کہ وہ ہمارے گناہوں کا کفارہ بن گئے ہیں۔)
تفصیلی مضمون ….. اسی بلاگ پر دیکھیں
عنوان: اعمال کی سزا و جزا کا اسلامی تصور
مولانا زاہد الراشدی
https://naeemurraheman.blogspot.com/2020/10/blog-post.html
٢) اعترافِ گناہ اور مغفرت نامہ
کلیسا کی طرف سے اعترافِ گناہ کا طریقہ بھی عوام میں جاری کیا گیا اور پورے ملک میں پوپ کے نمائندے بیٹھ کر توبہ کرنے والوں کے گناہ تنہائی میں سماعت کرتے اور معاوضہ طے کرکے مغفرت اور بخشش کا پروانہ لکھ کر دیا جاتا تھا، اس کا آغاز ہوتا؛
“ہمارا رب مسیح تجھ پر رحم کرے اور جن مقدس تکلیفوں کو اٹھا کر مسیح کو جو حقوق حاصل ہوئے ہیں ان کے بدلے میں تیرے گناہ معاف ہوں۔”
مرنے والوں کے سرہانے بیٹھ کر خوب مذہبی ڈھونگ رچاتے اور بھاری معاوضہ طلب کیا جاتا یا اوقاف کی جائیداد طے کی جاتی اور پھر کہا جاتا یا لکھ کر دیا جاتا؛
” جب تو مرے گا تو عذاب کے دروازوں کو اپنے اوپر بند پائے گا اور فردوسِ بریں (سب سے اعلیٰ جنت) کو اپنے اوپر کھلا پائے گا بہرحال جس زمانے میں بھی تو مرے گا اس مغفرت نامے کی تاثیری قوت سے تو ہمیشہ باپ بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے مستفید ہوتا رہے گا۔ آمین” (منقول از اظہار الحق عربی؛ صفحہ 37 جلد 2)
(مغفرت ناموں پر باقاعدہ فیس بھی ہوتی تھی۔ اس اعترافِ جرم کے پردے میں لوگوں کی شخصی زندگی کی کمزوری کا علم کلیسا کو بخوبی ہوجاتا تھا جس کے شکنجے میں عوام و خواص کو جکڑے رکھا تھا۔)
٣) رہبانیت کا غیر فطری عمل
(عیاشی کا چکلہ / اڈا)
تاریخِ کلیسا میں لکھا ہے کہ “شادی شدہ لوگوں پر شیطان کا اثر ہےـ” اس لئے جو لوگ کلیسہ میں عہدہ حاصل کرتے وہ شیطانی اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے شادی نہیں کرتے تھے اسی طرح عورتیں بھی بے نکاحی زندگی گزارتی تھیں۔ مگر آگے کیا ہوتا تھا اسے تاریخ میں درج کیا گیا ہےـ “یہ ساری باتیں صرف دکھاوے کی تھیں، بے نکاح مردوں (راہبوں) کے بستر رات کو بے نکاح عورتوں (نن / راہبات) سے آباد نظر آتے تھے، یہ عورتیں بدل بدل کر الگ الگ مردوں کی ناجائز خواہشات کو پورا کرتی تھیں۔”
کلیسائی رہبانیت کے تعلق سے قرآن میں ہے ____ وَكَثِيۡرٌ مِّنۡهُمۡ فٰسِقُوۡنَ ۞ : ان (راہبوں) کی اکثریت فاسق بن گئی تھی۔ [حدید : 27] ____ اس قرآنی آیت کی تفسیر سے یورپ کی تاریخ بھری ہوئی ہےـ
(تو یہ ہیں ان مقدس کلیساؤں میں رہبانیت کی اندرونی غلاظتیں اور گندگیاں۔)
مذکورہ بالا خرابیوں اور ان جیسی بے شمار برائیوں کی وجہ سے ردعمل کا سلسلہ چلا، کلیسا اور عوام میں کشمکش شروع ہوئی اور ان کے اندر سے پروٹسٹنٹ فرقے کا وجود ہوا۔ اس کشمکش میں جو لوگ مارے گئے، زندہ جلائے گئے یا دوسرے طریقوں سے ان کو قتل کیا گیا یا ذبح کردئے گئے ان کی تعداد دس لاکھ افراد تک پہنچتی ہے، یورپ کی تاریخ میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہےـ
______________________________
*کشمکش کی اصل وجہ*
_*قرآنِ پاک کی روشنی میں*_
_*اس مذہبی کشمکش کی بنیاد عام طور پر باور کرائی جاتی ہے کہ فلسفہ اور سائنس کی وجہ سے یہ کشمکش ہوئی لیکن اگر قرآن کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو واضح ہوگا کہ یہ ساری چیزیں غلط عقیدے؛ عقیدۂ ولدیت کے بھیانک نتائج و آثار ہیں جس کا ادراک نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی بصیرت کر رہی تھی اور قرآن کی زبان میں انہیں “آثار” کہا گیا ہےـ*_
حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی ساری کمزوریاں خود اسی مذہب اور مذہب کی تاریخ سے پیدا ہوتی ہیں اور یہ کشمکش کلیسائی نظامِ استبداد کا فطری نتیجہ ہیں۔
(مستفاد از مولانا گیلانی)
______________________________
*اس موضوع پر مفید کتابیں*
اہل علم حضرات کو اس موضوع پر مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی عربی کتاب “اظہار الحق” یا اس کا اُردو ترجمہ “بائبل سے قرآن تک” کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے یا کم از کم اس کا مبسوط مقدمہ “عیسائیت کیا ہے؟” تو دیکھ ہی لیں۔ نیچے ڈاؤن لوڈ لنک
١) عیسائیت کیا ہے؟
مفتی تقی عثمانی صاحب
https://drive.google.com/file/d/1A2S60tdqnQ0iJcYyvJUOtJnDVGjVGvl9/view?usp=drivesdk
٢) بائبل سے قرآن تک
مفتی تقی عثمانی صاحب (بالترتيب 1.2.3)
https://drive.google.com/file/d/1A325GsoTUrmmu7z0TNEZ7wwHrfamTejW/view?usp=drivesdk
……………………………………..
https://drive.google.com/file/d/1A6kwhhHA6RniT1JuODuBPpRs6UqQxJOj/view?usp=drivesdk
……………………………………..
https://drive.google.com/file/d/1A9ya4eo9UTbYfBvZBGeHUlM6TH1MIuFu/view?usp=drivesdk
……………………………………..
……………………………………..
صفر 21 , 1442 بروز جمعہ
اکتوبر 9 , 2020
➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری……………………………………..*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
0 تبصرے