*(آیت 1_ 2 حصہ اول)*
__________________
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰى عَبۡدِهِ الۡكِتٰبَ وَلَمۡ يَجۡعَلْ لَّهٗ عِوَجًا ؕ ۞ قَيِّمًا……
ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی، اور اس میں کسی قسم کی کوئی خامی نہیں رکھی۔ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب……
(القرآن – سورۃ الكهف. آیت 1)
……………….. تفسیر …………………
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۔۔ : یہ سورت ان پانچ سورتوں میں شامل ہے جن کی ابتدا ”اَلْحَمْدُ“ کے ساتھ ہوئی ہے، دوسری چار سورتیں فاتحہ، انعام، سبا اور فاطر ہیں۔ پچھلی سورت کا خاتمہ بھی ”اَلْحَمْدُ“ کے ساتھ ہوا ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر کام کی ابتدا اور انتہا اللہ کے پاکیزہ نام کے ساتھ یا اس کی حمد کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ان تمام سورتوں میں سے ہر سورت کا طریقہ اگرچہ مختلف ہے مگر مقصود لوگوں کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ حمد کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، اور کوئی نہیں، کیونکہ کسی میں کوئی خوبی ہے تو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔
الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ : سورة فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام حمد کا حقدار ہونے کی دلیل کے لیے چار صفات بیان ہوئی ہیں، یہاں اللہ تعالیٰ کے تمام حمد اور خوبیوں کا حقدار ہونے کی ایک ہی دلیل بیان کی گئی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر ”اَلْکِتٰب“ نازل فرمانا ہے۔ کیونکہ دوسرے تمام انعامات اگرچہ ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں مگر یہ نعمت سب سے اہم ہے، کیونکہ اس پر ہمیشہ کی زندگی یعنی اخروی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہے۔
عَلٰي عَبْدِهِ : ”اپنے بندے پر“ رسول اللہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق اور نسبت ہے اسے یہاں لفظ ”عبد“ سے نمایاں فرمایا گیا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کو اپنا خاص عبد قرار دینے میں آپ ﷺ کی بےانتہا شان بیان ہوئی ہے، واقعہ معراج کے بیان کے موقع پر بھی بھی آپ کا تذکرہ اسی لفظ سے فرمایا گیا ہے (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهِ…. بنی إسرائیل : 1)
اَلْکِتٰبُ : ”اَلْکِتٰبُ“ میں الف لام عہد کا ہے، یعنی یہ کتاب، مراد قرآن کریم ہے، جب صرف ”اَلْکِتٰب“ کہا جائے تو قرآن کریم ہی مراد ہوتا ہے، اس لیے کہ اس کے سوا کسی اور میں یہ کمال ہی نہیں کہ اسے ”اَلْکِتٰب“ کہا جاسکے۔
وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا : ”عِوَجًا“ کجی، ٹیڑھا پن۔ ”عِوجاً“ پر تنوین عموم کے لیے ہے جو نفی کے بعد آکر مزید عام ہوگیا ہے، یعنی اس کتاب میں کسی بھی قسم کا کوئی ٹیڑھا پن نہیں، نہ الفاظ میں، نہ معانی میں، نہ فصاحت و بلاغت میں، نہ یہ کہ اس کی آیات کا آپس میں کوئی اختلاف ہو، یا اس کی کوئی خبر غلط نکلے، یا کوئی حکم حکمت سے خالی ہو۔
قَيِّمًا: اس کتاب کی صفت ہے کہ اس کتاب میں خدا نے کوئی کج پیچ نہیں رکھا ہے۔ نہ بیان کے اعتبار سے نہ معنی کے اعتبار سے۔ زبان اس کی عربی مبین ہے اور رہنمائی اس کی اس صراط مستقیم کی طرف ہے جس کے مستقیم ہونے کے دلائل عقل و فطرت اور آفاق وانفس کے ہر گوشے میں موجود ہیں اور قرآن نے ان کو اتنے گوناگوں طریقوں سے بیان کردیا ہے کہ کوئی عقل سے کام لینے والا ان کے سمجھنے سے قاصر نہیں رہ سکتا۔ صرف وہی ان سے محروم رہیں گے جو عقل سے کام نہیں لے رہے ہیں۔
______________________________
نظریہ ارتقاء (Evolution)
دجالی فتنے کی بنیاد
دجالی فتنے کی بنیاد نظریہ ارتقاء ہے، نظریہ ارتقاء کے حامی کہتے ہیں کہ انسان بن مانس کی نسل سے ہے جو اپنے ماحول کی وجہ سے تبدیل ہوکر ویسا ہوگیا جیسا کہ آج ہےـ بن مانس حیوان ہے اور تمام حیوانات نظر نہ آنے والے بیکٹیریا سے وجود میں آئے، گویا ان کا کہنا ہے کہ سب اپنے آپ سے وجود میں آگیا، کائنات اور انسان سمیت تمام مخلوقات کو منصوبہ بند انداز میں کوئی خاص مقصد دیکر کسی نے پیدا نہیں کیا ہے؛ اور انسان تو بائے چانس پیدا ہوگیا ہے۔ آسان الفاظ میں کہیں تو یہ ہے کہ “کچھ نہیں سے سب کچھ ہوگیا”۔
لیکن ان باتوں سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب عظیم دھماکے (بگ بینگ) سے کائنات وجود میں آئی تو اس میں جان دار مادہ تو کوئی تھا نہیں پھر حیات و زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اسی طرح بن مانس سے مانس بننے کے سفر کے دوران کی کڑیاں یا مسنگ لنکس کہاں ہیں؟ یعنی آج کوئی مخلوق بن مانس اور مانس کے درمیان یعنی آدھا انسان آدھا بندر کہیں نظر نہیں آتی۔
اس سورت کا تعلق چونکہ فتنہ دجال سے ہے، اس کی شروعات ہی فتنہ دجال کی کاٹ کرنے والی ہےـ اس کا آغاز ہی اس اعلان سے ہورہا ہے؛ “الحمد للہ” یعنی حمد و شکر اس اللہ کا ہے جس کی کارفرمائیوں کی یہ کائنات جلوہ گاہ ہے، کائنات میں حیات و زندگی کا خالق صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ ہےـ اسی نے اپنے “خاص بندے محمد عربی ﷺ ” پر “الکتاب” نازل کرکے پہلی پانچ آیتوں ہی میں انسان کو اس کی تخلیق کے بارے میں آگاہ کیا ہے:
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّكَ الَّذِىۡ خَلَقَۚ ۞ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍۚ ۞ اِقۡرَاۡ وَرَبُّكَ الۡاَكۡرَمُۙ ۞ الَّذِىۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِۙ ۞ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ يَعۡلَمۡؕ ۞
ترجمہ:
پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر *جس نے سب کچھ پیدا کیا۔* ۞ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے۔ ۞ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے۔ ۞ جس نے قلم سے تعلیم دی۔ ۞ انسان کو اس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا۔ ۞
(القرآن – سورۃ العلق. آیت 1- 5)
ایک غیر معقول نظریہ
نظریہ ارتقاء ایک غیر معقول نظریہ ہے، اس کے ماننے والوں کا دعویٰ ہے کہ ہم غیر معقول اور بے دلیل باتوں کو نہیں مانتے حالانکہ سب سے زیادہ غیر معقول اور بے دلیل باتوں کو ماننے والے یہی لوگ ہیں۔ ایک طرف کچھ نہیں سے سب کچھ مانا جارہا ہے یعنی “جس مادے میں کچھ نہیں تھا اسی سے سب کچھ نکل آیا” اور دوسری طرف صاف اور سیدھی بات ہے کہ “جس میں کچھ نہیں تھا اس سے نہیں بلکہ جس میں سب کچھ ہے اس سے انسان اور تمام مخلوقات کا وجود ہے، یعنی جس کسی کو جو کچھ ملا اسی سے ملا جس میں سب کچھ ہے؛ اس میں حیات ہے، علم ہے، قدرت ہے، ارادہ ہے، رحم ہے، رأفت ہےـ”
اگر ذرا سی بھی عقلِ سلیم اور فطرتِ سلیمہ ہو، اور دل و دماغ میں ٹیڑھ اور کجی نہ ہو تو قرآن پاک جو کجی، ٹیڑھ اور ہر قسم کی ایچ پیچ سے پاک ہے اسکی یہ مذکورہ بات سمجھ میں آجائے گی اور دل و دماغ اس کو قبول کرلے گا۔
دجال کے فتنے سے بچنے کے لیے اس غیر معقول و غیر فطری نظریہ سے باہر ہونا ضروری ہے اور جیسے ہی اس نظریہ سے باہر ہونگے یہ حقیقت واضح طور پر سمجھ میں آجائے گی کہ اس کائنات کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور خود انسان کو وجود دینے والا ایک اللہ ہی ہے، اسی نے اس کائنات کو انسان کے لیے مسخر کیا اور انسان کو آخرت کی تیاری کا مقصد دیکر بھیجا، وہی حمد و شکر کا اصل حقدار بھی ہےـ
(مستفاد از مولانا گیلانی: دجالی فتنے…)
(و مولانا سجاد نعمانی: بیان قسط 3)
______________________________
محرم الحرام 1 , 1441 بروز جمعہ
اگست 21 , 2020
➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری……………………………………..*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
0 تبصرے