درس قرآن [16]… سورہ کہف اور فتنہ دجال



(آیت 13 تا 15 حصہ اول)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَيۡكَ نَبَاَهُمۡ بِالۡحَـقِّ‌ؕ اِنَّهُمۡ فِتۡيَةٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّهِمۡ وَزِدۡنٰهُمۡ هُدًى‌ۖ ۞ وَّرَبَطۡنَا عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ اِذۡ قَامُوۡا فَقَالُوۡا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ لَنۡ نَّدۡعُوَا۫ مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اِلٰهًـا‌ لَّـقَدۡ قُلۡنَاۤ اِذًا شَطَطًا‏ ۞ هٰٓؤُلَاۤءِ قَوۡمُنَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اٰلِهَةً‌ ؕ لَوۡ لَا يَاۡتُوۡنَ عَلَيۡهِمۡ بِسُلۡطٰنٍۢ بَيِّنٍ‌ ؕ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا ۞
ترجمہ:
ہم تمہارے سامنے ان کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ یہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے، اور ہم نے ان کو ہدایت میں خوب ترقی دی تھی۔ ۞ اور ہم نے ان کے دل خوب مضبوط کردیے تھے۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب وہ اٹھے، اور انہوں نے کہا کہ : ہمارا پروردگار وہ ہے جو تمام آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ ہم اس کے سوا کسی کو معبود بنا کر ہرگز نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم یقینا انتہائی لغو بات کہیں گےـ ۞ یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنہوں نے اس پروردگار کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنا رکھے ہیں۔ (اگر ان کا عقیدہ صحیح ہے تو) وہ اپنے معبودوں کے ثبوت میں کوئی واضح دلیل کیوں پیش نہیں کرتے؟ بھلا اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ ۞

………….. تفسیر ……………

اجمال کے بعد تفصیل

بالحق کا مفہوم :
(نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى۔)
اب یہ اجمال کے بعد ان کی سرگزشت کی تفسیل سنائی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ “بِالْحَقِّ” کی قید ____________ ایک تو اس حقیقت کو ظاہر کررہی ہے کہ ان لوگوں کی نسبت جو روایات ان کے نام لیواؤں میں معروف تھیں قرآن نے انہیں نظر انداز کرکے واقعہ کی اصل صورت پیش کی ہے۔ ____________ دوسری یہ کہ قرآن کے سامنے دوسروں کی طرح محض داستان سرائی نہیں ہے بلکہ اصل مقصود اس حکمت و موعظت سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے جو اس سرگزشت کے اندر پوشیدہ ہے؛ فرمایا کہ یہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کی نگہداشت کی جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت میں بڑھوتری فرمائی۔ اس بڑھوتری کا ظہور کس شکل میں ہوا؟ اس کا بیان آگے والی آیت میں آرہا ہے۔ ____________ یہاں ” فتیۃ ” کے لفظ پر نظر رہے۔ قرآن نے ان لوگوں کا جوانوں کے طبقہ سے ہونا ظاہر کرکے وقت کے نوجوانوں بالخصوص آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والے نوجوانوں کو توجہ دلادی کہ وہ اس سرگزشت سے سبق حاصل کریں اور انہی کی طرح دعوت حق کی راہ میں بےپروا ہو کر چل کھڑے ہوں، خدا ہر مرحلہ میں ان کا ناصر و مددگار ہوگا۔
______________________________

دلوں کو قوت و عزیمت ملنا :
(وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِهِ إِلَهًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا)
“ربط اللہ علی قلبہ” کے معنی ہوں گے خدا نے اس کے دل کو قوت و عزیمت دے دی۔ ” شط ” کے معنی دور ہونے اور ” شطط ” کے معنی تباعد عن الحق، یعنی حق سے انحراف اور دوری کے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ ہرچند حالات بہت ہی سخت تھے۔ کلمہ حق کی دعوت دینا بڑا جان جوکھم کا کام تھا لیکن ان نوجوانوں کے ایمان میں خدا نے برکت دی جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ ہر قسم کے خطرات سے بےپروا ہو کر دعوتِ توحید کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، جب اٹھ کھڑے ہوئے تو اللہ نے اپنی سنت کے مطابق ان کے دلوں کو قوت و عزیمت بخشی اور انہوں نے اپنی قوم میں منادی کردی کہ ہمارا رب صرف وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ اس کے سوا ہم کسی اور کو رب ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر ہم اس کے سوا کسی اور کو رب مانیں گے تو ہماری یہ حرکت نہایت بےجا اور حق سے بہت دور ہٹی ہوئی ہوگی۔
یعنی جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے نمرود کے دربار میں ڈٹ کر حق بات کہی تھی ویسے ہی ان نوجوانوں نے بھی علی الاعلان کہا کہ ہم ربِّ کائنات کو چھوڑ کر کسی دیوی، دیوتا کو اپنا رب ماننے کو تیار نہیں ہیں۔

اِنَّهُمْ فِتْيَةٌ، فتی کی جمع ہے، نوجوان کے معنی میں آتا ہے، علماءِ تفسیر نے فرمایا کہ اس لفظ میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اِصلاحِ اعمال و اخلاق اور رشد و ہدایت کا زمانہ جوانی ہی کی عمر ہے، بڑھاپے میں پچھلے اعمال و اخلاق ایسے پختہ ہوجاتے ہیں کہ کتنا ہی اس کے خلاف حق واضح ہوجائے ان سے نکلنا مشکل ہوتا ہے، صحابہ کرامؓ میں رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر ایمان لانے والے بیشتر نوجوان لوگ ہی تھےـ (ابن کثیر، ابو حیان)

دلوں کو مضبوطی کب ملی؟ :
اللہ کی طرف سے ان کے دلوں کو مضبوط کردینے کا واقعہ اس وقت ہوا جب کہ بت پرست ظالم بادشاہ نے ان نوجوانوں کو اپنے دربار میں حاضر کر کے سوالات کئے اس موت وحیات کی کش مکش اور قتل کے خوف کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اپنی محبت اور ہیبت و عظمت کی ایسی چادر تان دی کہ اس کے مقابلے میں قتل و موت اور ہر مصیبت کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوکر اپنے عقیدے کا صاف صاف اظہار کردیا، کہ وہ اللہ کے سوا کسی معبود کی عبادت نہیں کرتے اور آئندہ بھی نہ کریں گے، جو لوگ اللہ کے لئے کسی کام کا عزم پختہ کرلیتے ہیں تو حق تعالیٰ کی طرف سے ان کی ایسی ہی امداد ہوا کرتی ہے۔

توحیدِ ربوبیت و الوہیت :
نوجوانوں نے کہا کہ ”ہم ہزاروں لاکھوں سال پہلے سے موجود آسمانوں اور زمین کے رب کو اپنا رب مانتے ہیں۔“ یہ توحیدِ ربوبیت کا اعلان تھا کہ رب صرف ایک ہے۔ ”اور ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے“ یہ توحیدِ الوہیت کا اعلان ہے کہ ہم عبادت بھی صرف اسی کی کریں گے، اسی سے دعا، اسی سے امید اور اسی سے خوف رکھیں گے۔
______________________________

قوم کو چیلنج :
(هَؤُلاءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَوْلا يَأْتُونَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا۔)
” قوم ” سے مراد یہاں ” رقیم ” کے لوگ ہیں۔ یہ ان حق پرست نوجوانوں کا اپنی پوری قوم کے لیے ایک چیلنج ہے اور عربیت کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہاں ھؤلاء کا لفظ جس انداز سے استعمال ہوا ہے اس سے ایک قسم کی حقارت کا بھی اظہار ہورہا ہے۔ پھر غائب کے صیغوں میں بھی حقارت مضمر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کردیا کہ یہ ہماری قوم کے بدھوؤں نے اللہ کے سوا جو اور معبود بنا رکھے ہیں تو یہ اپنے ان معبودوں کے حق میں کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے۔ آخر اس سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جو خدا کے اوپر بہتان تراشے ! !
______________________________

ربیع الثانی 4 , 1442 بروز جمعہ
نومبر 20 , 2020
➖➖➖➖➖ 
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری……………………………………..*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے