درس قرآن [17]….. سورہ کہف اور فتنہ دجال



(آیت 13 تا 15 حصہ دوم)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَيۡكَ نَبَاَهُمۡ بِالۡحَـقِّ‌ؕ اِنَّهُمۡ فِتۡيَةٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّهِمۡ وَزِدۡنٰهُمۡ هُدًى‌ۖ ۞ وَّرَبَطۡنَا عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ اِذۡ قَامُوۡا فَقَالُوۡا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ لَنۡ نَّدۡعُوَا۫ مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اِلٰهًـا‌ لَّـقَدۡ قُلۡنَاۤ اِذًا شَطَطًا‏ ۞ هٰٓؤُلَاۤءِ قَوۡمُنَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اٰلِهَةً‌ ؕ لَوۡ لَا يَاۡتُوۡنَ عَلَيۡهِمۡ بِسُلۡطٰنٍۢ بَيِّنٍ‌ ؕ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا ۞
ترجمہ:
ہم تمہارے سامنے ان کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ یہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے، اور ہم نے ان کو ہدایت میں خوب ترقی دی تھی۔ ۞ اور ہم نے ان کے دل خوب مضبوط کردیے تھے۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب وہ اٹھے، اور انہوں نے کہا کہ : ہمارا پروردگار وہ ہے جو تمام آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ ہم اس کے سوا کسی کو معبود بنا کر ہرگز نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم یقینا انتہائی لغو بات کہیں گےـ ۞ یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنہوں نے اس پروردگار کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنا رکھے ہیں۔ (اگر ان کا عقیدہ صحیح ہے تو) وہ اپنے معبودوں کے ثبوت میں کوئی واضح دلیل کیوں پیش نہیں کرتے؟ بھلا اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ ۞

………….. تفسیر ……………

گذشتہ اجمالی تعبیر سے اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ اپنی دینی زندگی کو اگر چاہا جائے تو ہر حال میں بچایا جاسکتا ہے جس طرح اصحاب کہف نے اپنے ایمان کو بچا لیا اور غار میں پناہ لے لی۔ لیکن تفصیلی سرگزشت کا تعلق جہاں تک میرا خیال ہے (یعنی مولانا گیلانیؒ کا) اس أجرِ حسن سے ہے جس میں وہ ہر حال میں مستفید ہوتے رہیں گے یعنی دنیا میں آزمائشوں کے دوران بھی انہیں ایمان و عمل صالح کے فوائد وثمرات ملتے رہیں گے جس طرح اصحاب کہف کو حاصل ہوئے۔ اور اصحاب کہف کی تفصیل اس بات کے ثبوت کی گویا ایک تاریخی مثال ہےـ

اِنَّهُمۡ فِتۡيَةٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّهِمۡ……
اصحاب کہف نے سب سے پہلے اپنے اختیار سے اپنے رب پر ایمان لایا، اپنے پالنے والے رب پر ایمان لانا انسان کا اختیاری فعل ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے چاندنی رات کا نور یا دن کی روشنی ہمیں چاروں طرف سے گھیرے رہتی ہے لیکن نور اور روشنی کو جاننے کا قدرتی ذریعہ بینائی کی قوت ہےـ ہمیں اختیار ہے کہ روشنی کے ساتھ بینائی کو متعلق کرکے اسے دیکھیں یا آنکھیں بند کرکے محروم رہیں؛ ایسی صورت میں جس روشنی سے دنیا جگمگا رہی ہے اس سے ہم محروم رہیں گے۔ اسی طرح ہمارا رب اور ہماری پرورش کرنے والی قوت بھی ہمیں گھیرے ہوئے ہے، ہمارے قریب ہے، مگر اپنے رب اور اس کی ذات و صفات اور اسکی خوشی و ناخوشی کو پانے اور معلوم کرنے کا جو قدرتی طریقہ ہے وہ نبوت و رسالت پر اعتماد ہے، جب تک اس کے طبعی طریقے اور قدرتی ذریعے کو کام میں نہ لایا جائے اس وقت تک ہمارا ایمانی حاسّہ اپنے رب کے پانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا، اصحاب کہف کے نوجوانوں کا یہ گروہ اپنے رب پر ایمان لانے میں کامیاب ہوگیا اس کے بعد ان کے ایمان کا اجر حسن یا بہترین نتائج و ثمرات ان کے سامنے مسلسل آتے گئے اور اسی ترتیب سے جس طرح بیج زمین سے پھٹتا ہے تو کونپل پھوٹتی ہے اور تنہ بڑھتا اور شاخیں نکلتی ہیں۔

وَزِدۡنٰهُمۡ هُدًى……
اور ہم نے ھدی (یعنی راست بینی اور حق یابی) میں ان کو بڑھا دیا۔ ایمان لانے کے بعد اس کا پہلا معاوضہ اور أجرِ حسن ان کے رب کی طرف سے ان نوجوانوں کو جو ملا ہے وہ باطنی نعمتیں اور معنوی دولت کی شکل میں ملا یعنی *سچائی کو دیکھنا اور حق کو دریافت کر لینا۔* اندر ہی اندر ان کی بصیرت کی روشنی میں قدرت کی طرف سے اضافہ شروع ہوا، ایمان سے پہلے جن باتوں کا تصور بھی ان کے لیے دشوار بلکہ شاید ناممکن تھا انہی کو وہ پارہے تھے، محسوس کر رہے تھے اور قدرت کی عطا کردہ ایمان کی معنوی روشنی میں ان کو دیکھ رہے تھےـ

وَّرَبَطۡنَا عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ…..
ایمان و ہدایت کی راہ میں چلتے ہوئے وہ اس مقام تک پہنچے جس کو “رَبْطٌ علی القلبِ” سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی *قلبِ مضطرب اور اس کی بے چینی کو سکون وقرار سے بدل دیا گیا اور دل کو ہدایت وایمان پر مضبوطی سے جما دیا گیا۔*

اِذۡ قَامُوۡا فَقَالُوۡا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ لَنۡ نَّدۡعُوَا۫ مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اِلٰهًـا‌ لَّـقَدۡ قُلۡنَاۤ اِذًا شَطَطًا‏.
ہدایت کی وہ باطنی روشنی جو ان میں بڑھائی گئی تھی اس کی روشنی میں انہوں نے پایا کہ جو ہماری پرورش کر رہا ہے وہی آسمان و زمین کا بھی پروردگار ہے، انہیں توحیدِ ربوبیت کا جلوہ صاف نظر آ رہا تھا اس کے برعکس ان کی قوم جو اس ایمانی بصیرت سے محروم تھی ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ لامحدود کثرتوں کے اس نظام کی پرورش کے لیے صرف ایک ہی رب کیسے کافی ہو سکتا ہے اس لیے انہوں نے دوسری ہستیوں کو شریکِ ربوبیت کرلیا اور عابد ومعبود کا رشتہ ان سے قائم کرلیا، ان کی عبادتیں کرتے، ان سے دعائیں مانگتے ____________ نوجوانوں کا یہ گروہ رب کے ایک ہونے کو سمجھ کر مان رہا تھا اور قوم پروردگاری کے لیے مزید قوتوں کا اضافہ کر رہی تھی، گویا علمِ مناظرہ کی اصطلاح میں نوجوانوں کی حیثیت انکار کرنے والوں کی تھی اور قوم تعَدُّدِ الہ کا دعوی کرنے والی تھی، مُنکِر کے لیے انکار کافی ہوتا ہے جب کہ مُدَّعِی ثبوت پیش کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اسی لئے نوجوانوں نے کہا : هٰٓؤُلَاۤءِ قَوۡمُنَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اٰلِهَةً‌ ؕ لَوۡ لَا يَاۡتُوۡنَ عَلَيۡهِمۡ بِسُلۡطٰنٍۢ بَيِّنٍ‌ ؕ : یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنہوں نے اس پروردگار کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنا رکھے ہیں۔ (اگر ان کا عقیدہ صحیح ہے تو) وہ اپنے معبودوں کے ثبوت میں کوئی واضح دلیل کیوں پیش نہیں کرتے؟

آیت میں “سُلۡطٰنٍۢ بَيِّنٍ‌” کہا گیا ہے یعنی ایسی کھلی وزنی دلیل جو اپنے وزن سے عقل کو اتنا مغلوب کرلے، دبا دے کہ دعوے کا انکار اس کے لیے ناممکن ہوجائے۔ ____________ جھوٹے سچے قصے، پرانی روایتی اور اوہامی وساوس ان مشرکانہ اعمال کے لیے دلیل کی حیثیت نہیں رکھتے۔ اسی طرح آسمانی کتابوں کے ذخیرے سے بھی شرک کے لئے کوئی دلیل نہیں مل سکتی یعنی مشرک اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتے کہ اس شرک و بت پرستی کا حکم انہیں اللہ نے دیا ہے اسی لیے کہا : فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا. : بھلا اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟
……………………………………..

خلاصہ یہ کہ نوجوانوں کا یہ گروہ اختیاری طور پر اپنے پروردگار پر ایمان لایا جس کا اجر ان کو یہ ملا کہ ان کی ہدایت کی باطنی روشنی بڑھا دی گئی اور وہ اس مقام تک پہنچا دیے گئے کہ عقل و دل اضطراب و بے چینی سے شفایاب ہوکر پُرسکون ہوگئے اور اسی سکون وطمانیت کی کیفیت نے ان میں وہ ہمت پیدا کی کہ وہ وقت کے بادشاہ اور ساری قوم کے خلاف حق پر جم گئے اور حق کا پیغام لے کر کھڑے ہوگئے۔
(مستفاد از مولانا گیلانی)
______________________________
ربیع الثانی 11 , 1442 بروز جمعہ
نومبر 27 , 2020
➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری……………………………………..*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے