درس قرآن [14]….. سورہ کہف اور فتنہ دجال



(آیت 9 تا 12 حصہ سوم)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمۡ حَسِبۡتَ اَنَّ اَصۡحٰبَ الۡـكَهۡفِ وَالرَّقِيۡمِۙ كَانُوۡا مِنۡ اٰيٰتِنَا عَجَبًا ۞ اِذۡ اَوَى الۡفِتۡيَةُ اِلَى الۡـكَهۡفِ فَقَالُوۡا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ رَحۡمَةً وَّهَيِّئۡ لَـنَا مِنۡ اَمۡرِنَا رَشَدًا ۞ فَضَرَبۡنَا عَلٰٓى اٰذَانِهِمۡ فِى الۡـكَهۡفِ سِنِيۡنَ عَدَدًا ۙ‏ ۞ ثُمَّ بَعَثۡنٰهُمۡ لِنَعۡلَمَ اَىُّ الۡحِزۡبَيۡنِ اَحۡصٰى لِمَا لَبِثُوۡۤا اَمَدًا ۞
ترجمہ:
کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ غار اور رقیم والے لوگ ہماری نشانیوں میں سے کچھ (زیادہ) عجیب چیز تھے؟ ۞ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی اور (اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے) کہا تھا کہ : اے ہمارے پروردگار ہم پر خاص اپنے پاس سے رحمت نازل فرمائیے، اور ہماری اس صورت حال میں ہمارے لیے بھلائی کا راستہ مہیا فرما دیجیے۔ ۞ چنانچہ ہم نے ان کے کانوں کو تھپکی دے کر کئی سال تک ان کو غار میں سلائے رکھا۔ ۞ پھر ہم نے ان کو جگایا تاکہ یہ دیکھیں کہ ان کے دو گروہوں میں سے کون سا گروہ اپنے سوئے رہنے کی مدت کا زیادہ صحیح شمار کرتا ہے۔۞

*…….. تفسیری افادات ……..*

*اصحابِ کہف اور عہدِ نبویﷺ و عہدِ صحابہؓ*

اصحابِ کہف کی زندگی چونکہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کے لیے، دعوت کے اُس پُر آزمائش دور میں، نہایت سبق آموز ہوسکتی تھی، آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کو بڑی تقویت حاصل ہوسکتی تھی۔ جس طرح اصحاب کہف اپنے ماحول میں ہدفِ مظالم بنے تھے اسی طرح آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ بھی قریش کے مظالم کے ہدف تھے اور جس طرح اصحاب کہف کو غار میں پناہ لینی پڑی اسی طرح آپ اور آپ کے صحابہ کے سامنے بھی ہجرتِ حبشہ، غار ثور اور ہجرتِ مدینہ کے مراحل آنے والے تھے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی سرگزشت کا اتنا حصہ سنا دیا جتنا حق تھا۔ اس طرح گویا سوال کرنے والوں کے سوال کا جواب بھی ہوگیا، ماضی کی ایک پاکیزہ سرگزشت سے پیغمبر اور صحابہ کو صبر و عزیمت کی تعلیم بھی مل گئی اور اہل حق کی تاریخ کا ایک نہایت اہم باب، جو افسانوں کے حجاب میں گم تھا، ہر قسم کے گرد وغبار سے بالکل پاک صاف ہو کر ازسرنو سامنے آگیا۔

________________________________

*……… اصحابِ کہف اور دجالی عہد ………*

*اصحاب کہف کے قصے کا ماقبل کے مضمون سے تعلق:*
ایک ایسا ماحول جو بے ایمانی اور بدعملی سے بھر جائے تو اس وقت بھی ایمان اور عملِ صالح کی زندگی کے بچالینے کا عملی طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟
اس چیز کو اصحاب کہف کے گزرے ہوئے واقعے کو سنا کر قرآن نے بتایا ہے کہ کتنی نازک ترین گھڑیوں میں بچانے والوں نے اپنے ایمان کو بھی بچالیا تھا اور عملِ صالح کی زندگی بھی ان کی بے داغ رہیں اور اجرِ حسن و اچھے معاوضے کو بھی ہر وقت وہ مقدس گروہ اپنے سامنے پاتا رہا۔
عقیدہ ولدیت کے آثار یہ دجالی عہد کے فتنے ہیں جن میں انٹرنیٹ کی فحاشی اور شکوک و اوہام پر مبنی پیغامات کا سیلاب ایک چھوٹا سا مظہر ہے کہ ایک کلک میں انسان کا اپنا ایمان و عقیدہ داؤ پر لگ جاتا ہے، ایسے میں مساجد اور دینی مجالس کی کہفی زندگی ہی محفوظ پناہ گاہ بنتی ہیں۔
……………………………………..
اِذۡ اَوَى الۡفِتۡيَةُ اِلَى الۡـكَهۡفِ فَقَالُوۡا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ رَحۡمَةً وَّهَيِّئۡ لَـنَا مِنۡ اَمۡرِنَا رَشَدًا۔۔۔۔۔

*کہفی زندگی کے مثبت و منفی پہلو اور نوجوانوں کی دعا:*
انسان اُنس پسند واقع ہوا ہے وہ تنہا زندگی نہیں گزار سکتا اور اکٹھے رہ کر زندگی گزارنا اس کی طبیعت ہے، اس سے اس کو معاشی و نظری فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ عام سوسائٹی سے کنارہ کشی کے بعد معاشی سہولتوں کے دروازے عموماً بند ہوجاتے ہیں اور شہری زندگی سے علیحدہ ہونے کے بعد انسان ذہنی پستی اور فکری اضمحلال کا شکار ہو جاتا ہے جیسا کہ عام مشاہدہ ہےـ ایک شہری اور دیہاتی وبدوی انسان کے طرز زندگی اور سوچ و فکر میں نمایاں فرق پہلی نظر میں سامنے آجاتا ہے اور حق بات کو بدوی شخص جلد قبول نہیں کرتا؛ اسی وجہ سے قرآن میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
اَلۡاَعۡرَابُ اَشَدُّ كُفۡرًا وَّ نِفَاقًا وَّاَجۡدَرُ اَلَّا يَعۡلَمُوۡا حُدُوۡدَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ ۞
ترجمہ: یہ دیہاتی کفر و نفاق میں زیادہ پختہ اور زیادہ لائق ہیں اس بات کے کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ اتارا ہے اس کے حدود سے بیخبر رہیں اور اللہ علیم و حکیم ہےـ
______________________________

مذکورہ ( 9 تا 12) چار آیات میں رہنمائی ہے کہ کہفی زندگی کے لیے دینی اعتبار سے باہم موافق گروہ اور ٹولی کی شکل ہونا چاہیے۔ انھم فتیۃ : وہ نوجوانوں کی ایک ٹولی تھے، فردِ واحد نہیں۔ ہم مذاق و ہم مشرب افراد کہفی زندگی میں ایک دوسرے کے لئے باعثِ اُنس ہونگے اور ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی غمگساری بھی کر سکیں گےـ

دوسری دو باتیں یعنی ❶ معاشی ضرورتوں کا مسئلہ اور ❷ فکری و نظری قوتوں کے زوال کا خطرہ؛ ان سے حفاظت کے لیے ان نوجوانوں نے کہفی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے اور ہر طرف سے ٹوٹ کر اپنی پرورش کے حقیقی سرچشمہ یعنی پروردگار سے لو لگائی اور مجازی اسباب سے علیحدگی اختیار کی لیکن مسبب الاسباب کو طاقت کے ساتھ پکڑ لیا تھا۔ درج ذیل معنی خیز دعا کرتے ہوئے اپنے آپ کو رب العالمین کے حوالے کردیا تھا۔
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ رَحۡمَةً….
وَّهَيِّئۡ لَـنَا مِنۡ اَمۡرِنَا رَشَدًا….
ترجمہ : عطا فرمایا اپنے پاس سے “رَحمت” اور فراہم فرما ہمارے معاملے میں “رَشَدْ”

رَشَدْ: قرآن میں غَیٌّی کے مقابلے میں استعمال کیا گیا ہے۔ غَیٌّی کے معنی گمراہ ہونا۔ رَشَدْ: معاملے کی درستگی اور رہبری
فکری و نظری قوت جب غلط نتیجہ تک پہنچتی ہے تو اس کا نام غَیٌّی ہے اور ٹھیک اصل حقیقت تک فکر و نظر کی رسائی کی صلاحیت کا نام رَشَدْ ہےـ
رَحۡمَةً: رَشَدْ کی تشریح سے رَحۡمَةً کا مطلب بھی متعین ہوجاتا ہے یعنی معنوی اور باطنی ضرورتوں کے مقابلے میں ظاہری اور معاشی ضرورتوں کی دعا کر رہے ہیں کیونکہ رحمتِ رب ہر چیز کو سمائی ہوئی ہےـ
وَرَحۡمَتِىۡ وَسِعَتۡ كُلَّ شَىۡءٍ‌ ؕ ۞
ترجمہ: اور جہاں تک میری رحمت کا تعلق ہے وہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔

______________________________
ربیع الاول 19 , 1442 بروز جمعہ
نومبر 6 , 2020
➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری……………………………………..*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے